انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر عمران خان کو سزا

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

ایڈیشنل جج ہمایوں دلاور نے عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی۔ سزا کے ساتھ ہی عمران خان پانچ سال کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کے نا اہل بھی ٹھہرے ۔ یہ فیصلہ برقرار رہتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ مگر اس کے نتائج و عواقب کا آغاز ہو گیا۔ خان کو اسلام آباد کی پولیس نے فیصلے کے بعدایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری لاہور سے ہوئی۔ نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا کہ پنجاب پولیس نے عمران خان کی گرفتاری میں معاونت کی۔ اسلام آباد پولیس کو کیا کنفرم کیا گیا تھا کہ عمران خان کو سزا ہو گی لہٰذا لاہور چلی جائے۔

عمران خان نے ہمایوں دلاور پرعدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ ایک تو انہوں نے عمران خان ان کی عدم موجودگی میں فردِ جرم لگائی تھی ، دوسرے ان کی فیس بک پر عمران خان کے خلاف فحش اور نازیبا پوسٹیں لگائی گئیں۔ پی ٹی آئی نے معاملہ اٹھایا تو فیس بک لاک کر دی گئی۔ اُدھر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کے سامنے یہ معاملات رکھے گئے۔ انہوں نے یہی کیس ہمایوں دلاور کو بھیج دیا کہ وہ اس کے قابلِ سماعت ہونے کا فیصلہ کریں۔ جو ایک بار پہلے بھی یہ فیصلہ کر چکے تھے۔ اب ایک بار پھر جسٹس عامر فاروق نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور پھر تیسری بار انہی کو کہا کہ عمران خان کے وکلاءکو سن کر کیس کے قابلِ سماعت ہونے کا فیصلہ کریں۔ ساتھ ان کو کیس جاری رکھنے کی بھی اجازت دے دی۔ عمران خان جسٹس عامر فاروق پر بھی عدم اعتمادکا اظہار کر چکے ہیں۔ مگر وہ خود بھی کیس سن رہے ہیں اور ہمایوں دلاور سے کیس کسی دوسری عدالت لگانے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ان کے پاس جتنے عمران خان کے کیس تھے سب ایک ساتھ سننے کی ہدایت کی مگر وہ اس کے بجائے مرضی کے کیسزپر سماعت اور فیصلے کرتے رہے۔ انہوں نے کیس کو ٹرانسفر کرنے کی درخواست کو مسترد کرنے کا تین اگست کو لکھا گیا فیصلہ 4اگست کی شام اس وقت سنایا جب سپریم کورٹ میں اس حوالے سے کیس کی سماعت اختتام پذیر ہوگئی، صرف اس لیے کہ اگر صبح یا دوپہر کو فیصلہ سنایا جاتا تو سپریم کورٹ اس پر نوٹس لے سکتی تھی۔ جسٹس عامر فاروق اور ہمایوں دلاور میں اس منظر نامے تو مدِ نظر رکھتے ہوئے ملی بھگت نظر آتی ہے۔ ہمایوں دلاور نے5اگست کو ساڑھے 8بجے سماعت شروع کی عمران خان کے وکلا نیب کورٹ میں مصروف تھے۔ ہمایوں دلاور نے بارہ بجے تک کا وقت دیا وہ نہیں آئے تو ساڑھے 12بجے فیصلہ سنا دیا۔ دوچار دن زیادہ لگ جاتے تو کیا قیامت آجاتی۔ انصاف کے تقاضے تو پورے ہو جاتے ۔ عمران خان کو گواہ بھی پیش نہیں کرنے دیئے گئے۔ یہ انصاف کا بول بالا نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہے۔ البتہ سپریم کورٹ میں عمران خان کو انصاف مل سکتا ؟۔