نعت گوئی کی ابتدا سرورِ کائنات کی حیاتِ مبارکہ میں ہی ہوگئی تھی۔ جلیل القدر صحابہؓ اور صحابیاتؓ نے سرکارِ دو عالم کی تعریف و توصیف کرکے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ حضرت حسان بن ثابتؓ کو خصوصی شرف حاصل ہے کہ انہوں نے فخرِ موجودات کے سامنے نعت پڑھی۔ اُس زمانے سے لیکر آج تک رسول کریم کی شانِ اقدس میں گلہائے عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور انشاءاللہ تاقیامت جاری رہے گا۔
سرورِ کونینﷺ سے لازوال محبت و نسبت سید پیر مہر علی شاہ صاحبؒ کا جزوِ ایمان ہے۔ اسی جذبہ محبت کے ت
علامہ قادری نے اپنے طریقے سے تشریح کرتے ہوئے قاری کی علمی استعداد کو مدنظر رکھا۔ یہ عام سے قاری سے لے کر محققین کیلئے یکساں لائقِ استفادہ ہے۔ انہوں نے پہلا شعر لیا‘ اسکے الفاظ کے معنی لکھے اور اس کا مفہوم بیان کرنے کے بعد تشریح لکھی ہے۔ کیا زبردست لغت اور تشریح ہے۔ حضور کے چہرہ مبارک کے بارے میں جو لکھا ہے وہ حدیثوں سے بھی ثابت کیا ہے۔ پیر مہر علی شاہ صاحبؒ نے نعت سے قبل بھرپور تحقیق اور مطالعہ کیا۔ یوں لگتا ہے کہ حضور پُرنور ان کے سامنے تھے اور وہ وجد میں پڑھتے گئے۔ آئیے نعت‘ الفاظ کے معانی اور مفہوم پر نظر ڈالتے ہیں
اَج سک متراں دی ودھیری اے کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
لوں لوں وچ شوق چنگیری اے اَج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں
معانی:۔ سک‘ محبت۔ متراں‘ محبوب۔ ودھیری‘ بہت زیادہ۔ دلڑی‘ دل۔ گھنیری‘ بہت زیادہ۔ لوں لوں‘ رواں رواں۔ چنگیری‘ آگ کا بھڑکنا۔ نیناں‘ آنکھیں۔ جھڑیاں‘ بارش‘ آنسو۔
مفہوم:۔ آج دل بہت زیادہ اداس‘ جسم کے ہر روئیں میں شوق کی بہار اور آنکھوں سے آنسو کیوں رواں ہیں۔ اس لئے کہ محبوب کی یاد نے آستایا ہے۔
الطیف سرٰی من طلعتہ والشذ و بدٰی من و فرتہ
فسکرت ھنا من نظر تہ نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں
معانی:۔ الطیف‘ خواب و خیال۔ سرٰی‘ واحد مذکر غائب فعل از سرایة ظاہر ہونا‘ سرایت کرنا۔ من‘ سے۔ طلعتہ‘ رخ انور۔ الشذو‘ کستوری۔ بدٰی‘ واحد مذکر غائب فعل ماضی ازبدایة ظاہر ہونا۔ مہکنا‘ غالب آنا۔ وفرة‘ زلفیں۔ سکرت‘ میں مست و بے خود ہو گیا۔ ھنا‘ اسی جگہ‘ ھنالک دعاز کریا ربہ (اس جگہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی) نظرة‘ نگاہ۔ نیناں‘ آنکھیں۔ دیاں‘ کی۔ فوجاں‘ لشکر۔ یہاں محبوب کی نگاہوں کا حسن و جمال مراد ہے۔ سر چڑھیاں‘ غالب آنا۔
مفہوم:۔ خواب میں محبوب کی نورانی صورت دیکھنے کا شرف ملا۔ آپ کی زلفوں کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی‘ محبوب کے نوری نین دیکھ کر میں بے خود ہو گیا کیونکہ ان کے حسن و جمال کا جلوہ غالب آ گیا۔ اس شعر کا ترجمہ ”آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ جانا“ مناسب نہیں‘ ورنہ یہ تکرار ہو گا کیونکہ پیچھے ”اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں“ آ چکا ہے‘ ہم نے جو مفہوم بیان کیا ہے یہ ”سکرت“ کے بھی مناسب ہے۔
مُکھ چند بدر شعشانی اے
متھے چمکے لاٹ نورانی اے
کالی زلف تے اکھ مستانی اے
مخمور اکھیں ہَن مدھ بھریاں
معانی:۔ مُکھ‘ چہرہ اقدس‘ چندبدر‘ چودھویں کا چاند۔ شعشانی‘ پرنور۔ متھے‘ جبین اقدس۔ اکھ مستانی‘ آنکھ مست کردینے والی‘ مخمور‘ آنکھیں‘ ہَن‘ ہیں‘ مدھ بھریاں‘ سرمگیں آنکھیں۔
مفہوم:۔ حضور علیہ السلام کا چہرہ اقدس چودھویں کے چاند سے بڑھ کر تاباں۔ جبینِ اقدس نور‘ مکی نور‘ زلفیں سیاہ اور آنکھیں مست اور سرمگیں ہیں۔
دو ابرو قوس مثال دسن
میں تو نوک مژہ دے تری چھٹن
لباں سرخ آکھاں کہ لعلِ یمن
چٹے دند موتی دیاں ہِن لڑیاں
معانی:۔ قوس‘ کمان۔ مثال‘ مانند۔ دِسن‘ نظر آنا۔ جیں تو‘ جن سے۔ مژہ‘ پلک۔ چھٹن‘ نکلنا۔ لباں‘ ہونٹ۔ آکھاں‘ کہوں۔ لعلِ یمن‘ یمن کے موتی۔ چٹے‘ سفید۔ دند‘ دانت۔ لڑیاں‘ لڑی کی جمع۔
مفہوم:۔ آپ کے دونوں ابرو کمان کی مانند ہیں۔ مقدس آنکھوں کی حسین پلکیں تیر کی نوک‘ ہونٹ یمن کے موتیوں کی طرح سرخ ہیں۔ دانت مبارک نہایت سفید‘ حسنِ ترتیب اور جڑاﺅ میں موتیوں کی لڑی کی طرح ہیں۔
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جانان کہ جانِ جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان تو شاناں سب بنیاں
مفہوم:۔ محبوب کریم کی صورتِ اقدس میری جان بلکہ تمام کائنات کی جان ہیں۔ اگر میں حقیقت بیان کردوں تو یہ رب کی ہی شان ہیں جس سے دیگر شانیں وجود پاتی ہیں۔
الطیف سرٰی من طلعتہ
والشذ و بدٰی من و فرتہ
فسکرت ھنا من نظر تہ
نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں
معانی:۔ الطیف‘ خواب و خیال۔ سرٰی‘ واحد مذکر غائب فعل از سرایة ظاہر ہونا‘ سرایت کرنا۔ من‘ سے۔ طلعتہ‘ رخ انور۔ الشذو‘ کستوری۔ بدٰی‘ واحد مذکر غائب فعل ماضی ازبدایة ظاہر ہونا۔ مہکنا‘ غالب آنا۔ وفرة‘ زلفیں۔ سکرت‘ میں مست و بے خود ہو گیا۔ ھنا‘ اسی جگہ‘ ھنالک دعاز کریا ربہ (اس جگہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی) نظرة‘ نگاہ۔ نیناں‘ آنکھیں۔ دیاں‘ کی۔ فوجاں‘ لشکر۔ یہاں محبوب کی نگاہوں کا حسن و جمال مراد ہے۔ سر چڑھیاں‘ غالب آنا۔
مفہوم:۔ خواب میں محبوب کی نورانی صورت دیکھنے کا شرف ملا۔ آپ کی زلفوں کی خوشبو کستوری سے بڑھ کر تھی‘ محبوب کے نوری نین دیکھ کر میں بے خود ہو گیا کیونکہ ان کے حسن و جمال کا جلوہ غالب آ گیا۔ اس شعر کا ترجمہ ”آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ جانا“ مناسب نہیں‘ ورنہ یہ تکرار ہو گا کیونکہ پیچھے ”اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں“ آ چکا ہے‘ ہم نے جو مفہوم بیان کیا ہے یہ ”سکرت“ کے بھی مناسب ہے۔
ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں
بے صورت ظاہر صورت تھیں
بے رنگ دسے اس مورت تھیں
وچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں
معانی:۔ ایھہ‘ یہ۔ صورت‘ مراد صورت محبوب خدا علیہ الصلوٰة السلام ہے۔ بے صورت‘ ذاتِ خداوندی‘ بے رنگ‘ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات۔ وچ‘ میں۔ وحدت‘ ذات باری تعالیٰ‘ پھٹیاں‘ ظاہر ہونا‘ پھوٹنا۔ جد‘ جس وقت‘ گھڑیاں‘ خوبصورت اور نئی شاخیں۔
مفہوم:۔ یہ صورت‘ جان جہاں‘ رب کی شان اور تمام شانوں کی اصل (وسیلہ) کیوں نہ ہو؟ یہ تو حقیقتاً بے صورت رب سبحانہ و تعالیٰ کی نشاندہی کرنے والی ہے۔ آپ کی صورت ہے‘ اللہ تعالیٰ کی بے صورت ذاتِ اقدس کا اظہارِ کامل اسی صورت سے ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریمﷺ کو تخلیق فرمایا تو ان کے ذریعے مخلوق کو معرفت خداوندی نصیب ہوئی‘ ورنہ کہاں خالق اور کہاں مخلوق؟ وہ اس صورت میں بے رنگ نظر آتا ہے گویا آپ سراپا مظہر خداوندی ہیں۔
دسے صورت راہ بے صورت دا
توبہ راہ کی عین حقیقت دا
پر کم نہیں بے سو جھت دا
کوئی ورلیاں موتی لے تریاں
معانی:۔ دسے‘ بتانا۔ صورت‘ ذات محبوب کریمﷺ۔ راہ‘ راستہ۔ بے صورت‘ ذاتِ باری تعالیٰ۔ توبہ‘ رجوع کرنا۔ عین حقیقت‘ ذات باری تعالیٰ۔ پر‘ لیکن۔ کم‘ کام۔ بے سوجھت‘ بے سمجھ۔ نااہل‘ یہاں مراد باطنی اندھا ہے۔ دا‘ کا۔ ورلیاں‘ ورلی کی جمع ہے بہت تھوڑے۔ لے‘ حاصل کرنا۔ تریاں‘ سلامتی سے پار ہو جانا۔ لے تریاں‘ یعنی گوہر مقصود حاصل کر لیا۔
مفہوم:۔ آپﷺ اللہ رب العزت کی طرف سے وحی‘ شریعت اور ایسی تعلیمات لے کر مبعوث ہوئے کہ کوئی بھی آدمی اگر آپ کی بتائی ہوئی راہ پر چل پڑے تو اسے مقام محبوبیت نصیب ہو جائے گا۔ پھر آپﷺ جیسا دردمند‘ غم خوار اور تمام مخلوق کی بھلائی چاہنے والا کہاں؟ آپ کی یہی تمنا رہی اور ہے کہ ہر کوئی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی توحید سے وابستہ ہو کر اپنی دنیا و آخرت سنوار لے مگر بہت سے لوگوں نے اپنی بے عقلی‘ بے سمجھی اور غفلت کی وجہ سے آپ کی مبارک آواز و تعلیمات کی طرف کان نہ لگایا لیکن جنہوں نے غلامی اختیار کی وہ تمام کائنات کے راہبر و راہنما بن گئے اور انہوں نے گوہر مقصود حاصل کر لیا۔
ایہا صورت شالا پیش نظر
رہے وقت نزع تے روز حشر
وچ قبر تے پل تھیں جد ہوسی گذر
سب کھوٹیاں تھیلسن تد کھریاں
معانی:۔ ایھا‘ یہی۔ شالا‘ اللہ کرے۔ وقت نزع‘ موت کا وقت۔ روز حشر‘ روز قیامت۔ پل‘ پل صراط۔ تھیسن‘ ہو جائیں گی۔ تد‘ اس وقت۔ کھریاں‘ اصل‘ قیمتی‘ صحیح
مفہوم:۔ محبوب کرمیﷺ کی شان و مرتبہ اور سراپا بیان کرنے کے بعد‘ اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں حضرت قبلہ¿ عالم دعا کر رہے ہیں یا اللہ مشکل مقامات پر تیرے اس حبیبﷺ کی سنگت و شفقت نصیب رہے تو کامیابی مل سکتی ہے ورنہ نہیں اور وہ مقامات یہ ہیں
1۔ موت کا وقت‘ 2۔ قبر‘ 3 قیامت کا دن‘ 4۔ پل صراط سے گزرنا۔
یعطیک ربک داس تساں
فترضٰی تھیں پوری آس اساں
لج پال کریسی پاس اساں
واشفع تشفع صحیح پڑھیاں
معانی:۔ یعطیک ربک‘ آپ کا رب آپ کو عطا فرمائے گا۔ داس‘ اطلاع۔ آگاہی‘ دینا‘ بتایا‘ بشارت۔ تساں‘ آپ کو۔ فترضٰی‘ پس تم خوش ہو جاﺅ گے۔ تھیں‘ سے۔ آس‘ امید۔ اساں‘ ہمیں‘ ہم کو۔ لج پال‘ لاج رکھنے والے‘ رسول اللہﷺ۔ کریسی‘ کریں گے۔ اشفع‘ تم شفاعت کرو۔ تشفع‘ تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ پڑھیاں‘ پڑھنا
مفہوم:۔ حضرت اعلیٰ نے پچھلے اشعار میں اس حقیقت کو آشکار کیا کہ کامیابی کے لئے دنیا و آخرت کے ہر موڑ پر حبیب خداﷺ کا سہارا ضروری و لازمی ہے اس کے بغیر کامیابی و کامرانی اور نجات کا وہاں سوچا بھی نہیں جا سکتا اگر کوئی آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ان کے بغیر کام چل جائے گا تو وہ آج ہی اپنے عقیدہ کی اصلاح کرے ورنہ وہاں سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت کو اگر مان گیا
لاہو مکھ توں مخطط بردیمن
من بھانوری جھلک دکھاﺅ سجن
اوہا مٹھیاں گالیں الاﺅ مٹھن
جو حمرا وادی سن کریاں
معانی:۔ لاھو‘ ہٹاﺅ‘ اٹھاﺅ‘ اتارو۔ مکھ‘ چہرہ¿ انور۔ توں‘ سے۔ مخطط‘ دھاری دار۔ بردیمن‘ یمنی چادر۔ من بھانوری‘ دل موہ لینے والی۔ اوھا‘ وہی۔ گالیں‘ باتیں۔ الاﺅ‘ بولو۔ مٹھن‘ من ٹھار۔ حمراوادی‘ مدینہ طیبہ کے قریب جگہ کا نام۔ سن‘ تھیں۔ کریاں‘ کیں تھیں
مفہوم:۔ اے محبوبﷺ! اپنے چہرہ¿ انور سے یمنی چادر کا نقاب اٹھا کر دل موہ لینے والی زیارت عطا فرمائیں اور حمرا کے مقام پر جو شفقت و کرم کرتے ہوئے میٹھی میٹھی باتیںارشاد فرمائی تھیں ایسی عنایت و مہربانی پھر نصیب ہو۔
حجرے توں مسجد آﺅ ڈھولن
نوری جھات دے کارن سارے سکن
دو جگ اکھیاں راہ دا فرش کرن
سب انس و ملک حوراں پریاں
معانی:۔ حجرے‘ کاشانہ نبوی۔ ڈھولن‘ محبوب کریم۔ نوری جھات‘ نورانی جھلک کی زیارت۔ کارن‘ کے لئے۔ سکن‘ بے تابی۔ دو جگ‘ دونوں جہان۔ فرش کرن‘ بچھنا۔ انس‘ انسان۔ ملک‘ فرشتے۔ حوراں‘ جنتی حوریں۔ پریاں‘ خوبصورت جنات
مفہوم:۔ یا رسول اللہ حجرہ¿ انور سے مسجد نبوی میں تشریف لائیں تاکہ آپ کے چہرہ¿ انور کی زیارت کا شرف پا سکیں۔ دونوں جہان کی تمام مخلوق خواہ وہ انسان ہیں یا جنات‘ ملائکہ ہیں یا حوران بہشتی وہ تمام کی تمام آپ کی راہ میں آنکھیں فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔
انہاں سکدیاں تے کرلاندیاں تے
لکھ واری صدقے جاندیاں تے
انہاں بریاں مفت وکاندیاں تے
شالا آون وت بھی اوہ گھڑیاں
معنی:۔ انھاں‘ ان۔ سکدیاں‘ بے تاب اور منتظر۔ کرلاندیاں‘ زار و قطار رونے والیاں۔ صدقے‘ قربان۔ بردیاں‘ باندیاں‘ غلام۔ وکاندیاں‘ بک جانے والیاں۔ شالا‘ اللہ کرے۔ آون‘ آئیں۔ وت‘ پھر۔
مفہوم:۔ پہلے شعر میں شوقِ وصال کی طلب بیان کی گئی تھی اس شعر میں اس طلب رکھنے والے طلب گاروں کا تذکرہ ہے کہ آرزوئے وصال کی تڑپ اور سوز میں کس حال میں ہیں اور دعا کی گئی ہے کہ وہ دوبارہ فیض یاب دید ہوں۔ اس ضمن میں آنحضورﷺ کے مرض وصال میں ملاقات و زیارت کا شرف پانے پر عشاق کی قلبی واردات کا تذکرہ ہو چکا جوکہ مسجد نبوی میں نماز کے وقت حجرہ انور کی طرف اس آس میں تکتے کہ کب محبوب کریمﷺ جماعت کروانے کےلئے آئیں تو ہماری بھی عید ہو گی‘ بعینہ یہی حالت آپ کے ان غلاموں کی ہے جنہیں اللہ نے حبِ نبی سے نوازا ہے وہ محبوب پاک کی جدائی میں آہ وزاری کرتے اور گریاں رہتے ہیں اپنے آپ کو اور اپنی ہر چیز کو آپﷺ پر فدا اور نثار کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ آخری شعر ہے
سبحان اللہ ما اجملک
ما احسنک ما اکملک
کِتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں
معانی:۔ سبحان اللہ‘ تمام پاکیزگی اللہ کےلئے۔ مااجملک‘ آپ کتنے جمیل ہیں‘ مااحسنک‘ آپ کتنے حسین ہیں۔ مااکملک‘ آپ کس قدر کامل ہیں۔ کتھے ‘ کہاں۔ اڑیاں‘ لگ گئیں۔
مفہوم:۔ آپ اس قدر صاحبِ حسن و جمال اور صاحبِ کمال ہیں کہ مجھ جیسے حقیر سے آپ کی ثنا ممکن ہی نہیں۔ بلکہ اس سے میری کوئی مناسبت نہیں۔ کہاں میں اور کہاں آپ کی ذاتِ اقدس‘ زیارت و دیدار کا شرف فقط آپ کی کرم نوازی ہے ورنہ میری آنکھیں اس لائق کہاںآپ کو دیکھنے کی جسارت کرسکیں۔