جو ملازمین وقت پر دفتر نہیں آ سکتے وہ گھربیٹھیں۔ عظمیٰ بخاری
تحریر: None
| شائع |
ان ملازمین کی توموجیں لگ گئیں جو صبح بڑی مشکل سے جاگتے ہیں۔ انگڑائیاں جمائیاں لیتے ہاتھ منہ دھو کر آفس کی طرف گرتے پڑتے روانہ ہوتے ہیں اور لیٹ ہو جاتے ہیں۔ جن کا دفتر جانے کو دل نہیں کرتا مگر جانا پڑتا ہے۔ان کو یہ آپشن دے دیا جائے کہ گھر بیٹھیں تو ان کو اور کیا چاہیے ۔اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں۔ پنجاب کی وزیر اطلاعات نے ڈی جی پی آر کے ملازمین کے تو کڑا کے ہی نکال دیئے۔انکی سو فیصد حاضری کی ہدایت کی ہے۔ اگر گھر بیٹھنے والے ملازمین کو تنخواہ اور مراعات ملتی رہیں تو وارے نیارے مگر وزیر صاحبہ ان کو نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھنے کا کہہ رہی ہیں۔یہ سن کر تو ملازمین کے طوطے اڑنے ہی ہیں۔ بادل نخواستہ ملازمین کووقت کی پابندی کرنا ہی پڑے گی، کئی ملازمین لیٹ آنے اورجلد جانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دفتر آئے کام کیا نہ کیا حاضری لگائی افسر کو شکل دکھائی اور موقع ملتے ہی نکل لئے۔ جس افسر کو شکل دکھائی جاتی ہے وہ بھی ہو سکتا ہے نکلنے کے موقع کی تلاش میں سرگرداں ہو اور اس کے اوپراور اوپر کے اوپر بھی افسر ہوتا ہے۔ ایسے کارندوں اور افسروں کو عرف عام میں پروفیسر نکلسن کانام دیا جاتا ہے ۔ جو جیسے ہی موقع ملتا ہے دفتر سے نکل جاتے ہیں۔ ویسے کام کے چند ایک ہی لوگ ہوتے ہیں باقی انہی کا کمایا کھاتے ہیں۔