داستان عبرت و حسرت

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کا اقتدار سوا نیزے پر تھا۔ اسکے ولی عہد بیٹے رضا پہلوی نے برطانیہ کے دورے پر بکنگھم پیلس میں ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار بہ اصرارکیا۔ شاہی روایات،قانون اورپروٹوکول کے مطابق برطانوی شاہی خاندان کے سوا کسی کو شاہی محل میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں مگر اس دور میں ایران جیسی بادشاہت کو ناراض بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ملکہ برطانیہ نے ایران کے ولی عہد کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا جس سے اسے شاہی محل میں ٹھہرنے کی اجازت مل گئی۔ گردش زمانہ اور بے رحمی  افلاک ملاحظہ فرمائیے، شہنشاہ ایران تخت نشینی سے خاک نشین ہوا تو دنیا نے آنکھیں پھیر لیں۔ اسکے جہاز کا رخ برطانیہ عظمیٰ کی طرف ہوا، اسی برطانیہ کی طرف جس شہنشاہ کے ولی عہد بیٹے کے نخرے اٹھانے کیلئے اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا اسی حکومت نے شہنشاہ کا جہاز اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہ دی۔ اس کہانی کوسرِ دست یہیں چھوڑتے ہیں۔
اس دور میں دنیا کی چار طاقتور ترین‘ خوبصورت اور اثر و رسوخ رکھنے والی بیگمات کی بڑی دوستی اور شہرت تھی۔ ان چار کی مختلف ممالک میں محفلیں سجتیں اور ہر چار ایک سے بڑھ کر شمع محفل ہوا کرتی تھی۔ شہنشاہ ایران کی ملکہ فرح دیبا‘ مصر کے صدر انورسادات کی بیگم جیہان سادات‘ پرنس علی خان کی زوجہ یاسمین اور کینیڈا کے وزیراعظم پیئر ٹروڈو کی وائف مارگریٹ ٹروڈو اپنے شوہروں کے اقتدار اور امارت کے بل بوتے پر طاقت کی علامت سمجھی جاتیں اور معاملات پر کنٹرول رکھتی تھیں۔ اس دور میں جانے کیلئے محض مارگریٹ ٹروڈو کی شخصیت کی تھوڑی سی نقاب کشائی کر لیتے ہیں۔
1970ء کی دہائی تھی، کینیڈا اپنے ایک جواں عزم، متحرک، فعال وزیراعظم پیئرایلیٹ ٹروڈو کی وجہ سے خبروں میں رہتا تھا۔ اپنے ملک کیلئے وہ بہت کام کررہے تھے۔ بڑی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ شہریوں کی تعلیم، صحت، انشورنس کیلئے بہت سی سہولتیں دی گئیں۔51سالہ کنوارے وزیراعظم ایک 22سالہ دوشیزہ مارگریٹ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے۔ پھر صرف کینیڈا ہی نہیں امریکہ سمیت دنیا بھر کے اخبارات نے عمر میں 29سالہ فرق رکھنے والے جوڑے کی تصویریں شائع کیں۔ کینیڈا والے خوش تھے کہ ان کا وزیر اعظم خوبصورت ہے۔ حس مزاح رکھتا ہے۔ حسن کا بھی قدردان ہے۔ ہماری خاتون اوّل حسین بھی ہے، جوان ہے، مصوری کا ذوق اور اداکاری کا شوق رکھتی ہے، لیکن یہ حسینہ عجیب فطرت تھی۔ اسے خاتون اول کی حیثیت سے پروٹوکول، پابندیاں، آداب پسند نہیں آئے ۔ جھگڑا رہنے لگا۔ ٹروڈو نے 1968ءمیں وزارت عظمیٰ سنبھالی۔ مارچ 1971ء میں شادی ہوئی۔کینیڈا کے آج کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اس خوبصورت عالمی اہمیت کے جوڑے کے پہلے صاحبزادے 25دسمبر 1971ءکو پیدا ہوئے۔ مارگریٹ ایک بے چین روح تھی۔ شوہر سے اختلافات کی خبریں آتی رہیں۔ لوگ اونچے ایوانوں میں آنے کیلئے کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ وہ اونچے ایوانوں سے نکلنے کیلئے بے تاب رہنے لگیں۔ بالآخر 1984 میں باقاعدہ طلاق ہو گئی۔ مارگریٹ نے یہ سب کچھ اپنی کتاب میں لکھا ہے۔


وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو نے کینیڈا کا دورہ کیا تھا۔ اسکے حوالے سے مارگریٹ نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ سرکاری ضیافت میں پھانسی کی سزا گفتگو کا موضوع تھا۔ وزیر اعظم بھٹو ’سزائے موت‘ کی مخالفت کررہے تھے اور کتنے دکھ کی بات ہے کہ انکی زندگی کا انجام اسی سزا سے ہوا۔
پیئرایلیٹ ٹرڈو 2000 میں چل بسے۔ ٹروڈو کی زندگی کی آخری شب مارگیٹ اپنے بیٹوں کے ہمراہ سابق شوہر کے سرہانے موجود تھیں۔ اس وقت ان کا تاریخی جملہ کینیڈا والے یاد کرتے ہیں: ”صرف اس لئے کہ شادی کا بندھن ٹوٹ گیا،اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ پیار بھی ختم گیا۔ “ مارگیٹ ٹروڈو چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔
مارگریٹ اپنے سابق خاوند کی طبعی موت، پھر اپنے ایک صاحبزادے کی حادثاتی موت سے بہت دلبرداشتہ ہوئیں۔ کچھ عرصہ ماہرین نفسیات کے زیر علاج رہیں۔ تازہ کتاب میں ہسپتال کے دنوں کی روداد بھی درج کی ہے۔
اب عمروں کے تفاوت سے جنم لینے والی ایک اور حیران کن کہانی ملاحظہ کیجئے: سراغ رسانوں نے ایسا انکشاف کیاجسے انتہائی شرمناک الزام کہا جارہا ہے۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے والد پیئر ٹروڈو نے اپنی بیوی مارگریٹ کے ہمراہ کیوبا کے کئی دورے کیے۔ ان میں سے ایک دورے کے دوران مارگریٹ نے پیئر ٹروڈو سے بے وفائی کی اور فیدل کاسترو کے ساتھ تعلق استوار کیا، جس سے جسٹن ٹروڈو پیدا ہوئے۔ ان الزامات میں مزید کہا گیا ہے کہ پیئرٹروڈو اور مارگریٹ کی ازدواجی زندگی تلخیوں سے بھرپور تھی اور اسکی وجہ مارگریٹ کی بار بار کی بے وفائی تھی۔ امریکی سینیٹر ٹیڈ کینیڈی کے ساتھ بھی اس کا افیئر۔ راک بینڈ کے رونی ووڈ کے ساتھ بھی مارگریٹ کے تعلقات کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ انہی افواہوں کی وجہ سے پیئر اور مارگریٹ کی شادی ٹوٹ گئی۔الزامات لگانے والوں نے فیدل کاستروکی جوانی اورجسٹن کی حالیہ تصویریں بھی جاری کیں جن میں حیران کن مشابہت ہے،یہ ٹیکنالوجی کا بھی کمال ہوسکتا ہے،تاہم جسٹن نے ایک موقع پر کاسترو کی تعریفوں کے قلابے ملا دیئے تھے،اسے الزام کے اعتراف سے تعبیرکیا گیا۔
اب بات پھر و ہیں سے شروع کرتے ہیں۔ شہنشاہ ایران کو کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی‘ برطانیہ نے جواب دے دیا۔ایسی در بدری دنیا کے مقتدر افراد اور دولت کے انبار لگانے والوں کیلئے عبرت کا سامان لئے ہوئے ہے۔ شہنشاہ ایران ”محمدرضاشاہ پہلوی“ کو سرطان کی جان لیوا بیماری لگ گئی تھی، اسی بیماری کے دوران اس کو ایران چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ امریکہ نے ”شہنشاہ ایران“ کو ایک مختصر عرصہ سے زیادہ پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ مصر اور مراکش نے پہلے ہی پناہ دینے معذرت کرلی تھی۔ میکسیکونے اگر چہ پناہ دے دی لیکن اس میں پروٹوکول نہیں تھا بلکہ عام سیاسی پناہ تھی،کچھ عرصہ تک وہ ”بہاماز“ میں بھی مقیم رہے،شہنشاہ کے پاس دولت تو بے بہا تھی،دنیا میں انکے اثاثوں کی مالیت دس ہزار ملین پاﺅنڈ یعنی ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زیادہ تھی لیکن سکون نہیں تھا،انہوں نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرکے ایران میں آنے کی درخواست کی لیکن انقلابی حکومت نے انکار کر دیا۔ اس موقع پر ملکہ فرح دیبا جو اوجِ ثریا سے زمین پر آ کر ذلت کی پستیوں میں گر چکی تھی‘ نے جیہان سادات سے رابطہ کرکے برے وقت میں اچھے وقتوں کی دوستی کے نام پر مدد کی درخواست کی۔ جیہان نے اپنے خاوند سے بات کی۔ جیہان کا مصر کے سیاسی معاملات میں گہرا اثر تھا۔ اتفاقاً عین اس موقع پر شہنشاہ کا صدر انور سادات کو خط ملا جس میں اس نے کہا ”میں دنیا کا سب سے بڑا بدنصیب اور بھکاری ہوں۔ خدا کے واسطے مجھے مصر میں آنے دو اور میری پہلی بیوی شہزادی فوزیہ کے وطن میں دفن ہونے دو“ اس خط کو پڑ ھ کر ”صدر انور سادات“ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اس نے یہ درخواست قبول کر لی۔ مصری عوام اس کیخلاف تھے۔ انہوں نے احتجاج شروع کر دئیے۔ مصری صدر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی”رضا شاہ پہلوی“ کے بڑے بیٹے محمد رضا پہلوی سے کر دی پھر ”سمدھی “ہونے کے ناطے ان کو ”شہنشاہ ایران “کے مصر میں آنے کا جواز مل گیا۔یہاں ناموں کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔شہنشاہ ایران کانام محمد رضا شاہ پہلوی،باپ کا نام رضا شاہ پہلوی اور ولی عہد کانام رضا شاہ تھا۔ 


محمد رضا شاہ پہلوی کا وہ جہاز جو ایران سے ایک شہنشاہ کو لیکر محو پرواز ہوا تھا اب اس میں وہی محمد رضا شاہ پہلوی تھا جو دربدر اور غریب الوطن تھا‘ اس نے وسیع عریض مملکت پر لگ بھگ چالیس سال حکومت کی مگر اس سلطنت میں اسے قبر کیلئے دو گز زمین دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔ انور سادات نے اسے اپنے ہاں آنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ پورے احترام کے ساتھ مہمان بنا کر رکھا، رضا پہلوی کیساتھ اپنی بیٹی بھی بیاہ دی گو انجام علیحدگی ہوا۔ رضا پہلوی اب امریکہ میں ہے اور خود کو ایران کے تخت وتاج کا وارث قرار دیتا ہے، ایسی خواہش کرنے میں حرج کوئی نہیں تاہم یہ ممکنات ہی نہیں ،حیرتوں ،کرشمات اور معجزات کی بھی دنیا ہے۔ گردش ایام پلٹ سکتی ہے۔
 محمد رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران نے ترقی کی منزل پر منزل طے کی۔ اس دور میں کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ سفر کرتے شہنشاہ کو سڑک کی ناہمواری کا احساس ہوا۔ تحقیق کے بعد ناقص سڑک کے ذمہ دار کو وہیں سڑک پر لٹا کر اوپر سے بلڈوزر گزار دیا۔ اس کے بعد رہی سہی کرپشن بھی نہ رہی۔
شاہ ایران کی ذہانت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے جنگ عظیم دوم میں ایران کو جنگ کے شعلوں سے دور رکھا۔اسی جنگ کے دوران وہ تخت وتاج کے وارث بنائے گئے۔ ایک اور واقعہ انکی ذہانت کی دلیل ہے،ایران اور برطانیہ کے درمیان 1954 میں تیل نکالنے کا معاہدہ ہوا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی ایران سے تیل نکال رہی تھی اور یہ تیل بعدازاں یورپ اور امریکا برآمد کیا جاتا تھا۔ اینگلو ایرانین آئل کمپنی ایران کو تیل کی رائلٹی دیتی تھی۔ ایک بار شاہ ایران شکار کیلئے جا رہا تھا‘ اسکے راستے میں پائپ لائن آگئی‘ شاہ نے پائپ لائن کے قریب خیمہ لگوایا اور اینگلو ایرانین کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کو وہاں طلب کر لیا‘ چیف ایگزیکٹو گرتا پڑتا وہاں پہنچ گیا‘ شاہ نے اسکی طرف دیکھا اور اسے حکم دیا‘ تم فوراً یہ پائپ لائن توڑ دو‘ چیف ایگزیکٹو نے پوچھا لیکن جناب کیوں؟ شاہ نے جواب دیا‘میں تیل کا فوارہ دیکھنا چاہتا ہوں‘ انگریز چیف ایگزیکٹو نے حیرت سے انکی طرف دیکھا اور عرض کیا‘جناب اس سے بہت نقصان ہو جائیگا‘ شاہ نے کہا‘میں تمام نقصان اپنی جیب سے پورا کر دوں گا‘ تم پائپ لائن توڑو‘ ایک گھنٹہ تیل کا فوارا پھوٹنے دو اور اسکے بعد مجھے بل بھجوا دو‘ انگریز چیف ایگزیکٹو نے اس عجیب و غریب مطالبے سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن شاہ نہیں مانا۔ اسے اس بادشاہ کی خواہش جیسی خواہش قرار دیا گیا۔جو لشکر کشی کیلئے جارہا تھا، راستے میں رات کو ایک جگہ پڑاﺅ ڈالا،اس دوران ایک ہاتھی کھائی میں جا گرا، ہاتھی کی گرتے ہوئے خوفناک چیخ بلند ہوئی۔بادشاہ نے اس منفرد آواز کی وجہ معلوم کی، اسے یہ آواز پسند آئی تھی،اس نے ایک اور ہاتھی کھائی میں پھینکنے کا حکم دیا،اسکے بعددوسرا تیسرا اور چوتھا۔ایک ایک کرکے سارے ہاتھی بادشاہ کے ذوقِ لطیف کی نذر ہوگئے۔
 چیف ایگزیکٹو نے انجینئر منگوائے اور پائپ لائن درمیان سے توڑ دی۔ پٹرول کا فوارہ نکلا اور صحرا کی ریت میں جذب ہونے لگا۔ شاہ ایران ایک گھنٹہ اس فوارے کا نظارہ کرتا رہا۔ اسکے بعد اس نے چیف ایگزیکٹو سے کہا ‘تم مجھے بل بھجوا دینا‘ اسکے بعد وہ تہران روانہ ہو گیا۔ شاہ کے اس عجیب و غریب مطالبے نے اگلے دن پوری دنیا کی ہیڈ لائنز میں جگہ پالی۔ لوگوں نے سمجھا شاہ ایران پاگل ہو چکا ہے۔ اینگلو ایرانین کمپنی نے چند دن بعد شاہ کو ضائع ہونیوالے تیل کا بل بھجوا دیا۔ شاہ نے بل دیکھا اور اگلے دن کمپنی کے تمام اعلیٰ عہدیداروں کو محل میں بلوا لیا، انہیں آئل کی رائیلٹی اور کمپنی کا بل دکھا کر گویا ہوا‘ آپ نے رائیلٹی کے سمجھوتے میں یہ لکھا کہ آپکی پائپ لائن سے فی گھنٹہ اتنا پٹرول گزرتا ہے جبکہ آپ نے اسکے مقابلے میں چھ گنا زیادہ پٹرول ضائع ہونے کا بل بنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا آپ ہمیں چھ گنا کم رائیلٹی دے رہے ہیں۔ شاہ کی بات سن کر کمپنی کے اعلیٰ عہدیداروں کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ وہ شاہ کو بل بھجوا کر پھنس چکے تھے۔ شاہ نے اینگلو ایرانین آئل کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کیا اور کروڑوں ڈالر ہرجانہ بھی وصول کیا۔
شاہ ایران عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ کر سکتے تھے کیا‘ ایران کو دنیا میں بلند مقام تک لے گئے۔ ذہانت میں خود کو لاثانی اور عقل کل سمجھتے تھے۔ اقتدار کی مضبوطی کواپنی اہلیت اور صلاحیت کا مرہون جانتے تھے۔ انکی سلطنت کو کوئی چیلنج کر سکتا ہے یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا مگر جب خدا کا غضب ٹوٹتا ہے تو سب تدبیریں ذہانت منصوبے اور منصوبہ بندیاں نقش بر آب اور ہوا کے دوش پر رکھے چراغ ثابت ہوتی ہیں۔سب سے بڑا تکبر تو یہ تھا کہ اس کا باپ جس نے احمد شاہ کاچار کا تختہ الٹا،پہلے وزیر اعظم بنا پھر بادشاہ بن گیا،برطانیہ اور روس نے اسے جرمنی کیساتھ تعلقات قائم کرنے پر اقتدار سے الگ کرکے محمد رضا شاہ پہلوی کو بادشاہ بنوایا جس نے بادشاہ کہلوانے پر اکتفا نہیں کیا خود کو شہنشاہ کہلوایا بلکہ آریہ مہر‘ یعنی آرین نسل کے لوگوں کا بادشاہ۔ آج ہندوستان‘ پاکستان‘ افغانستان‘ ایران‘ ترکی‘ اور پورا یورپ وسط ایشیا کے بیشتر علاقے اور روس میں آریائی نسل کے لوگ بستے ہیں!
ایران کا سابق شہنشاہ ”محمد رضا شاہ پہلوی“ جو کہ 22سال کی عمر میں ایران کابادشاہ بن گیا ابھی اسکی عمرصرف 6 سال کی تھی کہ اس کو ولی عہد قرار دے دیا گیاتھا، وہ 38سال تک ایرا ن کا حکمران رہا۔ وہ مزاجاً سوشلسٹ اورمغرب پرست حکمران تھا،اس نے ایران میں عصر کی نماز کی ادائیگی پر پابندی لگادی تھی،وہ اپنی سلطنت کو تین ہزار سال پرانی سلطنت قرار دیتا تھا،ا س نے یہودیوں کو اسرائیل کے قیام میں مدد دی، وہ اسرائیل کیلئے روز گار کے مواقع بھی تلاش کرتا تھا۔ 1948میں اس نے ایران سے یہودیوں کو اسرائیل میں جا کر بسنے کی قانونی اجازت دے دی تھی۔ اس مقصد کیلئے اسرائیل کی ” موساد “کو تہران میں آفس کھولنے کی بھی اجازت دی تاکہ یہودیوں کی آبادی کو پر امن طریقے سے اسرائیل ٹرانسفر کیا جا سکے۔ اسی طرح ایران کے وزیر اعظم ”محمد اسد“ نے اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرنے کیلئے 50,000 ڈالر کی رقم وصول کی تھی،یہ وہ وجوہات تھیں جوایران کے مذہبی حلقوں کیلئے ناقابل برداشت تھیں۔ محمد رضا شاہ پہلوی ملاﺅں سے لڑ سکتا تھااور خوب لڑا مگر اللہ سے کون لڑ سکتاہے۔علما پر مظالم تاریخ کا حصہ ہیں امام خمینی کے بیٹے کو قتل کرایا اور خود انہیں ہیلی کاپٹر کے ساتھ باندھ کر شہر شہر عبرت کے طور پر پھرایا گیا۔ مسلمانوں کے بدترین دشمن کے ساتھ دوستی،اسکے ایجنٹوں کی آﺅ بھگت اور اس سے مراعات کی وصولی پر شہنشاہ ایران ملعون اور مطعون قرار پائے۔