شوکت خانم ہسپتال:اعتماد کا سفر

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

کبھی کچھ حادثات اور سانحات خیر کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ گلاب دیوی تپ دق سے موت کے منہ میں چلی گئی تو اس کے بیٹے لا جپت رائے نے ان کی یاد میں لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال ایسے لوگوں کے لیے بنانے کا عہد کیا جو ایسے مرض میں مبتلا ہوں ۔ گلاب دیوی کا انتقال1927ءمیں ہوا۔ ایک سال بعد لا جپت رائے بھی چل بسا، مگر اس نے جو پودا لگایا تھا اس کی آبیاری ہوتی رہی جو سات سال بعد تناور درخت بن کر سایہ فگن ہو گیا۔ اب تک لاکھوں مریضوں کا علاج اس ہسپتال سے ہو چکا ہے۔

First 
                        </div>
                        <!--        Adds tags start -->
        <div>
            <ins class=

lady visits Gulab Devi hospital, says healthy citizens create good society - Daily Times" src="https://dailytimes.com.pk/assets/uploads/2019/03/09/GulaabDeviHospitalLahore-1280x720.jpg" style="height:338px; width:600px" />
شوکت خانم کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں ۔ پاکستان میں کینسر کا علاج ان دنوں ممکن نہیں تھا۔ شوکت خانم کا خاندان امیر کبیر تھا۔ان کا بیٹاعمران خان انہیں لندن لے گیا۔ کینسر کا علاج آج بھی بہت مہنگا ہے۔ شوکت خانم کینسر سے سروائیو نہ کر سکیں۔ کینسر کی تکلیف دہ بیماری اور اس پر آنے والے بے شمار اخراجات کو دیکھتے ہوئے انسانیت کے تحت شوکت خانم مرحومہ کے بیٹے نے پاکستان میں کینسر ہسپتال بنانے کا عہد کیا۔ جس حد تک ممکن تھا اپنے ذاتی وسائل بروئے کار لائے۔اپنے دوستوں ، عزیزوں اور عوام سے فنڈز کی اپیل کی۔ ماہرین کی طرف سے اس منصوبے کو ناممکن قرار دیا گیا۔ مگراس پراجیکٹ کی تکمیل کا عزم صیمم تھا۔ بالآخر یہ منصوبہ مکمل ہوگیا۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں 75فیصد مریضوں کا علاج فری کیا جاتا ہے۔

شوکت خانم ہسپتال کی 28 ویں سالگرہ منائی گئی
میں گزشتہ بارہ تیرہ سال سے اس ہسپتال کی سالانہ فنڈریزنگ تقریبات میں شرکت کرتا آ رہا ہوں۔ جتنا بھی ٹارگٹ رکھا جاتا، وہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں دو تقریبات ہوتی ہیں۔ دس روپے سے کروڑہا روپے دینے والے لوگ دیکھے جاتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا اور انڈین لیجنڈ ایکٹر عامر خان پاکستان آکر ایسی تقریبات میں شرکت کر چکے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں ان لوگوں کی کاوش شامل ہے۔ فریال گوہر نے اپنے حصے میں آنے والی وراثتی کوٹھی ہسپتال کو عطیہ کر دی تھی جو 2010ءمیں سوا کروڑ کی فروخت ہوئی۔ عتیقہ اوڈھوکی کی طرف سے انہی برسوں ایک کروڑ روپے کا فنڈ دیا گیا۔ چار پانچ سال قبل علیم خان نے چھ کروڑ روپے جمع کرائے تھے۔
 دعا تو یہ ہے کہ ہربیماری کا خاتمہ ہو اور وطن میں ایک بھی ہسپتال نہ رہے ۔ مگر یہ ایسی خواہش ہے جو صرف جنت میں ہی پوری ہو سکتی ہے اور یہ دنیا جنت نہیں ہے۔آزمائش جا ہے۔خوشی غمی، مصیبت آسائش، عُسرت عِشرت، ظلم انصاف،تاریکی روشنی،تنگ دستی و فراوانی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔اوپر والاہاتھ وسیلے والا، نیچے کا ہاتھ کسمپرسی کا عکاس۔خودداری ہاتھ پھیلانے کی روادار نہیں ہوتی۔بڑا پن ہے کی کسی کا ہاتھ اُٹھنے سے قبل مداوہ کردیا جائے۔شوکت خانم ہسپتال جیسے ادارے ایسے ہی لوگوں کے دم قدم سے چل رہے ہیں۔اس ہسپتال نے اب تک کیا کچھ کیا؟ مزید کیا کرنے کا ارادہ ہے اس کی ضرویات کیا ہیں؟ آپ کیا کرسکتے ہیں؟ اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ 
شوکت خانم ہسپتال لاہورنے 29دسمبر 1994کو اپنے دروازے مریضوں کے لیے کھولے اور اس وقت سے آج تک خدمت کا یہ سفر کبھی نہیں رکا بلکہ وقت کے ساتھ اور لوگ بھی اس مشن کا حصہ بنتے گئے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا اور مارچ 2011ء میں پشاور میں دوسرے شوکت خانم ہسپتال بنیاد رکھی گئی جس میں 29دسمبر 2015 کومریضوں کو خدمات فراہم کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔

شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال میں کینسر کا علاج ریڈیو تھراپی سے شروع
انتظامیہ کے مطابق شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹرز پاکستانی قوم کی سخاوت کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ ہسپتا ل کی جانب سے اب تک قوم کے تعاون سے مستحق مریضوں کے علاج پر 60ارب سے زائد کی رقم خرچ کی جا چکی ہے جو ہسپتال کے نظام پر عوام کے اعتماد کی زندہ مثال ہے۔ 
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کی سال 1989سے آج تک کی آڈٹ رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے تا کہ ہر شخص ادارے کو ملنے والے عطیات اور اس کے لوگوں کی زندگی پر اثرات کابا آسانی جائزہ لے سکے۔
ہسپتال کی عالمی سطح پر ساکھ کاتعین اسے ملنے والے بین الاقوامی سرٹیفیکیٹ سے کیا جاسکتا ہے۔ جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کی جانب سے شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کو صحت کے شعبے میں بین الاقوامی معیارقائم اور برقرار رکھنے پراینٹر پرائز ایکرڈیٹیشنری سرٹیفکیٹ دیا گیا۔یہ ہسپتال کے ڈونرز اور ملک کے لیے بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔
شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے باقاعدہ شریعہ کمپلائنس سرٹیفیکیشن حاصل کی ہے جو اس بات کی تائید کرتی ہے ہسپتال کے زکوٰة کے حصو ل، استعمال اورزکوٰة فنڈ کی مینجمنٹ کا نظام شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ 
 سال 2023کے لیے ہسپتال کا کل بجٹ 39ارب روپے ہے جس میں سے تقریباً نصف پاکستانی عوام کی مدد سے پورا ہوتا ہے۔
کراچی میں پاکستان کا تیسرا اور سب سے بڑا کینسر ہسپتال زیرِ تعمیر ہے۔ اس وقت اس ہسپتال کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور فنشنگ کا کام جاری ہے۔ اس ہسپتال کی مکمل لاگت کا تخمینہ تقریباً 22ارب روپے ہے جس میں سے 16ارب روپے تعمیراتی کاموں اوربقایا جدید ٹیکنالوجی اور مشینوں کے لیے درکار ہے۔کراچی کا یہ ہسپتال لاہور کے شوکت خانم ہسپتال سے رقبے اور سہولیات کے اعتبار سے تقریباً دو گنا بڑا ہے۔یہاں کے ریڈی ایشن ڈپارٹمنٹ میں 10لینئیر ایکسلیریٹربیک وقت مریضوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہوں گی۔ 
 لاہور پشاور کی طرح کراچی میں بھی 75فیصد سے زائد مریضوں کو کینسر کی تشخیص و علاج کی اعلیٰ ترین سہولیات بلا معاوضہ فراہم کی جائیں گی۔ 

Facing cancer and coronavirus, Shaukat Khanum hospital battles two-front  war | Arab News PK
 ہسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی سمیت پور ے سندھ اور جنوبی بلوچستان کے لوگوں کو کینسر کے علاج کی جدید ترین سہولیات ایک ہی چھت تلے فراہم ہو جائیں گی۔
شوکت خانم ہسپتال کا کیا اتنا ہی کام اور مشن تھا؟ ایسا نہیں ہے۔ہم مادی دنیا کے مکین ہیں۔ بیماریوں اور مشکلات کا خاتمہ دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ہی ہونا ہے۔صحت اور مرض ساتھ ساتھ، امراض پرکسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔امیر لوگ کہیں سے بھی پیسہ خرچ کے علاج کرسکتے ہیں۔پیسے سے علاج ممکن ہے مگر شفا کی گارنٹی کسی کے پاس نہیں۔یہ امیر غریب سب پر منطبق ہے۔شوکت خانم کی تیسری اور سب سے بڑی برانچ مکمل ہونے کے بعد اگلی کہاں بنے گی۔اس کا فیصلہ بورڈ پورے ملک کا جائزہ اور وسائل کو دیکھ کر کرسکتا ہے۔۔شاید بلوچستان کے کسی شہر میں یا جنوبی پنجاب میں سندھ کے پی کے اور بلوچستان کے سنگم پرتعمیر کیا جاسکتا ہے۔سرِ دست کراچی ہسپتال کی تکمیل اور لاہور وپشاورکے ہسپتالوں کو چلائے رکھنے کی ضرورت ہے۔دیکھنا ہے کہ اس حوالے سے میں کیا کرسکتا ہوں آپ کیا کرسکتے ہیں۔یہ ہمارے اوپر اللہ کریم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہم ایسے اداروں کے ڈونر ہیں ان کے ”کلائنٹ“ نہیں۔ہو سکتا ہے خدا ہے آپ کی کمائی میں کئی مستحق افراد کی شفا رکھی ہو۔