کسادیت : 100 ٹریلین ڈالر نوٹ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع |

ڈالر کی پرواز سرِ دست نہ صرف رُکی ہوئی ہے بلکہ دوتین ہفتے سے نیچے بھی ہوئی ہے۔ یہ سب نگران دور میں ہوا مگر نگرانوںکا اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ سب آرمی چیف کی نگرانی میںپاک فوج کی طرف سے مافیاز پر ڈالے گئے ہاتھ کی بدولت ہوا۔ ورنہ تو جس طرح روپے کی بے توقیری ہو رہی تھی، ڈالر اسی طرح اڑان جاری رکھتا تو اب تک چار سو کو کراس کر چکا ہوتاجبکہ اگلے چند ماہ میں 5سوہزار اوردو ہزار اور پھر چل سو چل....!

اُدھر5ہزار روپے کے نوٹ کی بندش کی تحریک جاری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بڑا نوٹ بند ہو جائے تو رشوت میں کمی ہو سکتی ہے۔ آج کل ویسے ہی آئن لائن ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ ۔ رشوت کے خاتمے کے لیے نوٹوں کی بندش کی نہیں شعور موٹیویشن اور خصوصی طور پر تربیت کی ضرورت ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مضبوط ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ یہ عارضی اقدامات یا ارینجمنٹ ہے۔ جو بھی ہے سرِ دست اس سے کسی حد تک زندگی آسان ہوئی۔ میاں نواز شریف کی تیسری وزارت عظمیٰ کے وسطی دور میں ڈالر 112روپے کا ہوا۔ اسحق ڈار جیسے بھی ہوا اسے سو روپے سے بھی نیچے لے آئے۔ اس کی گراوٹ جاری تھی کہ کاروباری لوگوں نے کہرام برپا کر دیا۔ اودھم مچا دیا لہٰذا ڈالر کو وہیں بریکیں لگ گئیں اور کچھ دنوں بعد پھر بے لگام ہو گیا۔ اب بھی اگر ایسا ہوتا ہے تو معاشی بد حالی مزید منہ زور ہو جائے گی۔روپے کی بے توقیری کہاں جا کر رکے گی؟۔ جہان تک ملک کے دیوالیہ ہونے کا تعلق ہے اس سے پاکستان ہنوز دور ہے۔ ملک وسائل سے مالا مال ہے تاہم وسائل کے استعمال کے لیے دیانت اولین شرط ہے۔ فضولیات کا خاتمہ ثانوی سہی مگر غیر اہم نہیں ہے۔ کونسا وزیر اعظم واقعی بچت کی بات اور عمل کرتا تھا اور کون ڈرامہ بازی؟ اس سے ہم سب آگاہ ہیں۔ نگران وزیر اعظم کا وفد کے ساتھ جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے نیو یارک جانا فرض عین نہیں تھا۔ پھر یہ فرانس میں ایفل ٹاورڈنر یا لنچ انجوائے کرنے گئے۔ نیو یارک کے لگژری ہوٹل ....۔

Rupee continues to appreciate against US dollar - Hum NEWS

واپسی پر لندن میں 4روز بیٹھے رہے۔ ایسی فرصت اور شاپنگ، بجلی کے بلوں اور پٹرول کے ستائے عوام کو چِڑانے والی بات ہے۔
پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس بابت بیان بازی سیاسی سکورنگ کے لیے کی جاتی ہے مگر اسے ایمان کا حصہ بھی نہیں بتایا جا سکتا کہ ہم جیسے بھی وسائل کا اجاڑا کرتے رہیں دیوالیہ نہیں ہونگے۔ زمبابوے میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا۔ کرنسی گرتی گئی۔ 2008ءمیں زمبابوے کو کا ایک سوٹریلین نوٹ جاری کرنا پڑا تھا۔ ایک ٹریلین میں ایک ہزار بلین یعنی ایک ہزار ارب ہوتے ہیں۔ ایک ٹریلین لکھنا ہو تو ایک کے ساتھ 12صفر لگتے ہیں ، دس ٹریلین کے لیے 13اور سو ٹریلین ایک کے ساتھ14صفر لگا کر ظاہر کیا جاتا ہے۔ زمبابوے میں اب بھی کسا بازاری مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔
ہماری مصیبتوں کی دو جڑیں ہیں دونوں آپس میں پیوست ہیں اوپر سے ان دو جڑوں والے درخت پر آکاس بیل بھی چڑھی ہوئی ہے۔ایک کرپشن دوسری سیاسی عدم استحکام۔ جس نے قومی معیشت کوچوس لیا ہے۔ اسی وجہ سے بد حالی کی بھر مار مہنگائی کا طوماراور معاشی آلائشوں کا انبار نظر آتا ہے۔ ایسی صورت حال سے جنگی انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے مگر اس سے بھی آسان حل ہے۔ صرف اور صرف نظامِ عدل درست ہو جائے۔ انصاف کا دور دورہ ہو۔ 


ہمیں اٹل انصاف وہی لگتاہے جو ہمارے لئے موزوں ہو۔ حق میں فیصلہ آگیا تو سرخرو ، دوسری صورت میں عدلیہ کی تذلیل ججوں کی تضحیک کاتواتر۔قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے ہیں ان کی مدت ایک سال سے کچھ کم بچی ہے۔ اس دوران بہت کچھ ممکن ہے۔ عمر عطا بندیال صاحب کے فیصلوں اور بنچوں کی تشکیل پر پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوتا رہا وہ پاکستان کی تاریخ میں بدقسمتی کا باب ہے۔ طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ کئی فیصلے ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ بنچوں کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ آج کے چیف جسٹس صاحب نے اُن دنوںپریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی سماعت سے یہ کہہ کر اٹھنے کا فیصلہ کیا کہ اس کیس کے فیصلے تک کسی بھی بنچ میں بیٹھنا غیر آئینی ہوگا۔اس کیس پر اب بھی فیصلہ ہونا ہے مگر قاضی صاحب اب بنچوں میں بیٹھ رہے ہیں۔ان کی طرف سے اسی کیس پر فُل کورٹ بنا کر سماعت براہِ رست نشر کی گئی۔بندیال صاحب نجانے فل کورٹ کی تشکیل سے گریزاں رہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو ایک اور خط، ججوں کے تقرر پر اعتراض
ایک پارٹی کی طرف سے عمر عطا بندیال سمیت4 چیف جسٹس صاحبان کو متعصب قرار دیکر کردار کشی کی گئی یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔کچھ دن ہوتے ہیں سیاسی جلسوں میں پانچ کا ٹولہ کا نعرہ لگا کر دو موجودہ ججوں کی تصویریں لہرا دی جاتیں ہیں۔ جرنیلوں کا نام لے کر طعن اور دشنام کلچر بن چکا ہے۔ ہر دو ادواروں میں احتساب کا نظام موجود ہے ۔ کسی کی خواہشات پر کارروائی کیونکر ہو سکتی ہے۔ عدلیہ میں آج ایک "کھلارا" پڑا نظر آتا ہے اسے سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ گزرے کل تک قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں کوئی محاذ اور محاذ آرائی نہیں تھی۔ وہ سب کے لیے قابل قبول ہیں۔ قابل قبول نہ ہوں تو بھی وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال 'چیف جسٹس آف پاکستان' کے عہدے پر کل حلف اٹھائیں گے -
ہمارے عدالتی معاملات میں کچھ عرصے سے بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ ایک سابق وزیر اعلیٰ کی چودہ بار ضمانت ہوئی اور ہر ضمانت کے بعد دوسرے کسی کیس میں گرفتاری ہو گئی۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ نو مئی کے واقعات پر مقدمات درج ہوئے گرفتاریاں ہوئیں۔ کئی لیڈر روپوش ہیں مگر کون مان سکتا ہے کہ یہ لوگ اداروں کی نظر سے اوجھل رہ سکتے ہیں ۔ 9مئی کے واقعات کے ذمہ دار کسی رو رعایت کے حقدار نہیں ۔ ان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق جو بنتا ہے وہ کیا جائے اور جتنا جلد ممکن ہے۔ جو بے گناہ ہیں ان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ ان کو سیاست کرنے کی اجازت ہو۔ شاہ محمود قریشی کو ہتھکڑی لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔

Ali Mardan Bhatti @AliMardanBhatt1 - Twitter Profile | Sotwe

جب ان کی ہتھکڑی کی بات ہوتی ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو بھی ایسے ہی ہتھکڑی لگی تھی۔ اُن کو تو جہاز میں سوار کر کے ہتھکڑی والا ہاتھ سیٹ سے باندھ دیا گیا تھا۔ یہ انتقام کی بدترین مثال اور رسوا کرنے کی خواہش تھی مگر بے بس قیدی کوکڑیاں لگائیں یا کوڑے اس کی کیا تذلیل ہونی ہے۔ ویسے میاں نواز شریف نے فیصل آباد کے دو بلدیاتی افسروں کو بھی ہتھکڑی لگوائی تھیں۔ ان کو لگنے والی ہتھکڑی مکافات عمل ہو سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی شاید ایسا کوئی کام کیا ہو۔آج کی سیاسی اور معاشی صورت بہتر ہو سکتی ہے اگر نظام عدل واقعی اور اپنی روح کے مطابق رائج ہو جائے۔ قاضی صاحب کے پاس اس کا بہترین موقع ہے۔

Pak court issues bailable arrest warrant against Nawaz Sharif in land case