کوسٹا کنکوڈیا....بزدل اور کائر کپتان
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع |
برازیل میں دو انجنوں والا طیارہ گر کر تباہ ہوا۔یہ ایک عجیب حادثہ تھا۔ یہ کاغذ کے جہاز کی طرح زمین پر ہوا میں لہراتا اور بل کھاتا ہوا آگیا۔ اس وقت ژالہ باری ہو رہی تھی۔پائلٹ جہاز کو اوپر کی طرف لے جانے لگا۔اسی دوران سپیڈ زیرو ہوگئی۔ جہاز ایک میٹر بھی آگے نہیں جاتا۔ چکراتے ہوئے آبادی پر گر جاتا ہے۔ جہاز کے اندر تمام کے تمام باسٹھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایسا ہی واقعہ چند سال قبل ہمارے ہاں فوکر کو سکردو میں پیش آیا۔ جب اس کے ایک انجن نے الٹا گھومنا شروع کر دیا تھا۔ جنید جمشید بھی اس حادثے میں جاں بحق ہوئے۔
پائلٹ مسافر جہاز کا ہو، فائٹر اور بمبار یاپھر بحری جہاز کا۔ اس کو اپنے سے زیادہ انسانوں کی جان عزیز ہوتی ہے۔ جو خواہ جہاز کے اندر ہوں یا باہر۔ یہ پائلٹ کی تربیت کا حصہ ہے۔ مگر کچھ ایسے لوگ بھی ان انڈسٹریز میں آ جاتے ہیں جو رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ پائلٹ یا کیپٹن کیلئے مضبوط اعصاب کا ہونا اور حواس کوبحال رکھنا ضروری ہے۔ان کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب ایمرجنسی درپیش ہو۔
آج تک دنیا کا سب سے بدتر حادثہ ٹائی ٹینک کو پیش آیا۔یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا ۔ اس حادثے کے سو سال بعد اس سے بڑے جہاز کوسٹا کنکوڈیا کو حادثہ پیش آیا ۔اس میں 4252 افراد تھے۔ ان میں سے 32 آنجہانی ہوئے جبکہ جہاز ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہوگیا۔اس حادثے میں ایک شخص بھی موت کے منہ میں نہ جاتا اگر کیپٹن نے معاملات کو نہ بگاڑا ہوتا۔ پہلے مختصراً بات کرتے ہیں ٹائیٹینک کی۔یہ ٹائی ٹینک کا پہلا سفر تھا۔ اس پر بائیس سو افراد سوار تھے۔ برطانیہ ساؤتھیمپٹن سے اس نے نیو یارک جانا تھا۔15 اپریل 1912ء کو یہ جہاز برف کے ایک تودے سے ٹکرایا اور ٹوٹ گیا۔ اس کے مالک بروس اسمے مسافروں میں شامل تھے۔ حادثہ رات کے پچھلے پہر پیش آیا۔قریب پہنچ کر کیپٹن کو آئس برگ نظر آیا تو پوری قوت سے اس نے جہاز کو ایک طرف گھما دیا۔ بس اسی دوران سامنے کے بجائے ایک سائیڈ کے درمیان میں تودے نے ٹکرا کرجہاز کے تار و پود بکھیر دیئے ۔ اس کے ملبے کو ٹائٹن آبدوز میں لوگ دیکھنے جاتے رہے ہیں جو گزشتہ سال جون 2023 ء میں حادثے کا شکار ہوئی۔اس میں پاکستانی بزنس مین داؤد اور انکے بیٹے سلمان سمیت پانچ مسافر اور مالک مارے گئے۔ ٹائی ٹینک کے دونوں حصے ایک دوسرے سے 800میٹر کی دوری پر ہیں۔ ان کے درمیان ٹائٹن کا ملبہ پڑا ہے۔
ٹائی ٹینک کے صرف7 سو مسافر بچ پائے تھے۔15سو سے زیادہ ڈوب گئے۔ جہاز کے22انجینئروں میں سے کوئی زندہ نہیں بچا۔ ان کی کوشش تھی کہ مسافروں کو جہاز سے نکلنے کے لیے لائٹیں جلتی رہیں۔ بروس اسمے نے جہاز کی روانگی سے قبل نہ جانے کس ترنگ میں کہا تھا کہ جہاز کو اس قدر مضبوط بنادیا ہے کہ یہ ڈوب نہیں سکتا۔ اسے تو خدا بھی نہیں ڈبو سکتا۔ شاید اس کے تکبراور غرور کے باعث ہی یہ سب کچھ ہوگیا۔ جہاز میں اسی یقین کے باعث لائف بوٹس بہت کم رکھی گئی تھیں۔ جہاز ڈوبنے لگا تو بروس اسمے پہلا شخص تھا جو لائف بوٹ میں بیٹھ کر نکل گیا جبکہ آخری شخص ڈیوڈ جان سمتھ تھا۔
آخری کشتی کے مسافروں کو اپنی طرف تیرکر آتا ہوا ایک شخص دکھائی دیتا ہے۔ وہ کشتی میں سوار ہونا چاہتا ہے۔اسے بتایاگیا کہ کشتی پہلے ہی اوورلوڈ ہے۔ اس پرتیراک پیچھے ہٹ گیا اور کہا "All right boys. Good luck and God bless you"۔یہ ڈیوڈ جان سمتھ، ٹائٹینک کا پائلٹ تھا۔جو الفاظ اس نے کہے وہ تاریخ کا سبق اورحصہ بن گئے۔
اب بات کرتے ہیں کوسٹا کنکوڈیا کی۔یہ 13جنوری2012ءکی شام کو اٹلی سے یورپ کے 7روز کے وزٹ پر روانہ ہوتا ہے۔ اس کی پہلی منزل اٹلی کا شہر سوونا تھی۔یہ جہاز 290میٹر لمبا اور 20میٹر چوڑا تھا۔ اس میں لگژری کی ہر ممکنہ سہولت موجود تھی۔ اس کے کیپٹن کرسٹوفر شیٹینو تھے۔ شیٹینو نے شپ انڈسٹری میں شمولیت اختیار کی تو اس کے استاد ماریو پولمبو تھے۔ ماریو کا گھر کوسٹا کنکوڈیا کے اس سفر کے راستے جزیرہ گیگلیو میں تھا۔ شیٹینو نے سوچا کہ جزیرے کے قریب سے گزرتے ہوئے اپنے استاد کوٹربیوٹ پیش کرنے کیلئے ہارن بجایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے جہاز کو جزیرے کے قریب کرنا شروع کر دیا۔ اس نے ماریو کو کال لگائی کہ ہم آپ کے جزیرے کے قریب سے گزر رہے ہیں اور سلام پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ماریو نے بتایا، وہ اس وقت دوسرے شہر میں ہیں مگر جہاز جزیرے کے قریب آ رہا تھا۔ جہاز کو8کلو میٹر سمندر کے اندر ہونا چاہیے لیکن یہ کنارے سے ڈیڑھ سو میٹر قریب آگیا ۔اسی بیچ ایک خوفناک دھماکہ ہوتا ہے جس سے مسافر لرز کے رہ جاتے ہیں۔ دھماکہ پتھروں سے ٹکرانے سے ہوا ۔ اس دوران شیٹینو ہارن بجا چکا تھا۔ دھماکے کے ساتھ ہی جنریٹر بند ہوئے اور جہاز تاریکی میں ڈوب گیا۔ گھبرائے ہوئے مسافروں نے پوچھا کیا ہوا ہے تو شیٹینو نے بتایا کہ کچھ نہیں ہوا۔
جنریٹر بند ہونے سے معمولی سا حادثہ ہوا ہے جبکہ پتھر سے جہاز میں70فٹ شگاف پڑ گیا تھا۔ شیٹینو کو معلوم تھا کہ جہاز ڈوب رہا ہے مگر وہ کسی کو بھی نہیں بتارہے تھے۔مسافروں کے رابطہ کرنے پرکوسٹ گارڈز نے بھی پوچھا تو شیٹینو نے بے فکر رہنے کو کہا۔وہ جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے تھے۔ انجن ابھی کام کر رہا تھا۔ شیٹنو نے یہ سوچ کر کہ جہاز ڈوبا تو جزیرے سے دور امداد پہنچنا مشکل ہوگا۔ جہاز کو گیگلیو کی جانب پیچھے لے جانے کی کوشش کی۔ جیسے ہی موڑا ،جہاز پہلے ایک طرف پھر دوسری طرف جھک گیا۔ یہ جھکاؤ 70 ڈگری پر چلا گیا تھا۔ کپتان مہاراج نے جب دیکھا کہ معاملات بے قابو ہو رہے ہیں تو مسافروں کو جہاز چھوڑنے کو کہا۔ اس دوران پتھر کی ٹکر کو ایک گھنٹہ ہو گیا تھا اور رات کے11بج چکے تھے۔ افراتفری مچی ہوئی تھی ۔ لوگ کچھ سمندر میں کود کر اور کچھ کشتیوں میں شیٹینو کے استاد پولمبو کے جزیرے گیگلیو پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔بروس اسمے کی طرح پائلٹ شیٹینو پہلا شخص تھا جو لائف بوٹ میں کود کر ساحل کی جانب چلا گیا۔ اس کا بعد میں مضحکہ خیز موقف تھا کہ جہاز 70 ڈگری تک الٹا تو میرا پاؤں پھسل گیا اور میں سیدھا لائف بوٹ میں جا گرا۔ اسے کوسٹ گارڈزکے کمانڈر نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ واپس جاؤ تو شٹینو کا کہنا تھا میری طبیعت ٹھیک نہیں ،میں واپس نہیں جا سکتا۔ کیس چلا تو اس کو سولہ سال قید ہوئی۔ اسے بزدل اور کائر کیپٹن کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ جہاز کو سیدھا کرنے، مسافروں کو ہر جانے اور دیگر مدوں میں جہاز کے مالک کو دو ارب ڈالر ادا کرنا پڑے۔اسے شیٹینو کےہارن بجانے کا شوق دو ارب ڈالر میں پڑا۔شیٹینو کے استاد ماریو پولمبو کا کہنا تھا شیٹینو ہمیشہ سے ہی جھوٹے تھے۔ کافی معاملات میں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے بجائے جھوٹ بولتے۔ سبق یہ ہے کہ کبھی بھی بزدل کو جہاز کا کپتان، ذہنی مریض کو اداروں کا مہان،جھوٹے کو حکمران اور بد کردارکو گھر میں مہمان نہ بنائیں۔