گورا قبرستان۔۔۔۔۔ لڑکی کی خاطر جنگ میں فقیر ایپی کے ہاتھوں مرنے والے انگریزفوجیوں کا خستہ حال قبرستان برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ کی توجہ کا متقاضی۔

تحریر: دلاور خان وزیر

| شائع |

پارٹ 2

جب محسود قبائل کی طرف سے برطانوی فوج پر حملے شروع ہوئے تواس دوران انگریزوں نے نومبر 1936 میں دو بریگیڈ فوج جنوبی وزیرستان بھیجی اور مختلف علاقوں میں محسود قبائل کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں جن میں انگریزوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
جنوبی وزیرستان میں قبائلیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے برطانوی فوجیوں کی قبریں ضلع ٹانک کے علاقے منزئی قلعہ میں ایک تاریخی یاد کے طور پر محفوظ ہیں۔برطانوی دور حکومت کے دوران جنوبی وزیرستان میں بنی یہ 43 قبریں

قدرے بہتر حالت میں ہیں جن میں ایک میجر، دو کیپٹن اور دو لیفٹینینٹس کی قبریں بھی شامل ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق ڈپٹی کمانڈنٹ منزئی، رحمت خان محسودکا کہنا ہے کہ اس گورا قبرستان میں برطانوی فوج کے وہ اہلکار دفن ہیں جو جنوبی وزیرستان میں قبائلی لشکروں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے تھے۔


ایک چھوٹے سے قبرستان میں دفن ہونے والے انگریزوں کی یہ قبریں ایک چاردیواری کے اندر واقع ہیں جن میں سے چند بری حالت میں ہیں مگر پھر بھی جن قبروں پر کتبے آویزاں تھے ان کی تحریریں اب بھی واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ برطانوی فوج اور (حاجی)غازی میرزاعلی خان وزیر المعروف فقیرایپی کے درمیان یہ جنگ تب شروع ہوئی جب مارچ 1936 میں ایک ہندو لڑکی رام کوری نے مذہب تبدیل کرنے کے بعد بنوں کے ایک مسلمان ٹیچر سید امیر نور علی شاہ سے شادی کی، ان کا نام اسلام بی بی رکھا گیا۔ لڑکی کے والدین کی جانب سے معاملہ عدالت گیا۔ فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔فیصلے کے بعد انگریزوں نے قبائلی عمائدین پر بہت زور ڈالا کہ اس لڑکی کو واپس کیا جائے۔ عمائدین نے چند شرطیں رکھیں لیکن انگریز انہیں پورا کیے بغیر وہ لڑکی واپس لے کر جانے میں کامیاب ہو گئے۔ بنوں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے عدالتی احکامات کے مطابق سید امیر نور علی شاہ کو گرفتار کر کے سزا دلوائی۔اس سے وزیرستان میں غم وغصہ پھیل گیا اور ایک جرگہ منعقد ہونے کے بعد فقیر ایپی نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر دیا۔


ایک ہندو لڑکی پر 1936 میں بنوں اور شمالی وزیرستان سے شروع ہونے والی جنگ یہ جنوبی وزیرستان تک پھیل گئی۔فقیر ایپی محسود قبائل کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جنوبی وزیرستان کے محسود علاقے میں گئے تاکہ برطانوی فوج کے خلاف لڑنے میں وہ ان کا ساتھ دیں۔محسود قبائل حاجی مرزاعلی خان عرف فقیر ایپی کے ساتھ انگریز کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔جب محسود قبائل کی طرف سے برطانوی فوج پر حملے شروع ہوئے تواس دوران انگریزوں نے نومبر 1936 میں دو بریگیڈ فوج جنوبی وزیرستان بھیجی اور مختلف علاقوں میں محسود قبائل کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔مسلسل چار دن تک جاری ہونے والی لڑائی میں20 سے زیادہ انگریز مارے گئے۔انگریزوں نے زمینی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ فضائی طاقت کا بھی استعمال کیا اور قبائلی لشکروں میں شامل جنگجوو¿ں کو مارنے کے علاوہ مختلف علاقوں سے گرفتار بھی کرلیا۔ کم و بیش چوبیس قبائلی گرفتار ہوئے۔
اپریل 1937 میں جنوبی وزیرستان کے علاقے شہور تنگی میں انگریزوں کے ایک قافلے پر مسلح قبائلیوں نے اچانک حملہ کیا جس میں 53 برطانوی فوجی مارے گئے، مرنے والوں میں سات فوجی آفیسربھی شامل تھے۔

15822687_705916192917140_5070230221437496823_n.jpg
جنوبی وزیرستان میں ہلاک ہونے والے ان تمام فوجیوں کو ضلع ٹانک کے علاقے منزئی میں واقع ایف سی قلعہ کی حدود میں دفنا دیاگیا اور مزید جھڑپوں کے بعد منزئی قلعے نے ایک پورے قبرستان کی شکل اختیار کر لی۔آج اتنے عرصے بعد بھی چار دیواری کے اندر ان 43 قبریں نظر آتی ہیں۔ویسے تو ہر قبر کی اپنی ہی ایک کہانی ہوتی ہے مگر منزئی میں گوراقبرستان ایک ایسی تاریخی کتاب کی مانند ہے جس نے وزیرستان میں انگریزوں کے ساتھ قبائلیوں کی جنگ پر مشتمل پُرانی تاریخ کو محفوظ کر رکھا ہے۔
 برطانوی حکومت نے منزئی گورا قبرستان کو لڑائیوں میں ہلاک ہونے والے انگریزوں کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ منزئی گورا قبرستان صرف اس لیے محفوظ ہے کہ یہ قلعے کی حدود میں واقع ہے اور قبرستان کے گرد علیحدہ سے ایک چار دیواری بھی موجود ہے۔ قبرستان کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے بارش کا پانی قبروں کے اندر داخل ہوتاہے جسکی وجہ سے بعض قبریں زمین کے برابرہو چکی ہیں۔ بعض کا تو نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔


ڈیرہ ڈویژن میں منزئی سے بڑا کوئی قلعہ موجود نہیں۔ یہ قلعہ اٹھارہویں صدی میں تقریباً دو سو ایکڑ سے زیادہ رقبے پر بنایاگیا تھا۔ اس قلعے میں پوری بریگیڈ فوج موجود ہوتی تھی جس سے ریاست وزیرستان کو کنٹرول کیاجاتا تھا۔وزیرستان میں قبائلی لشکروں کے خلاف فوج پوری تیاریوں کے ساتھ یہاں سے بھیجی جاتی اس دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں منزئی قلعہ میں لائی جاتی تھیں۔ برطانوی فوج کے جانے بعد قلعے کو ملیشیا فورس کے حوالے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 1975 میں ملیشیا فورس کو یہاں سے وزیرستان بھیج دیاگیا اور قلعے میں فرنٹیر کانسٹیبلری کو تعینات کردیاگیا جو اب تک یہاں موجود ہیں۔

اہم تاریخی اور یادگارمنزئی گورا قبرستان مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب محض ایک اجاڑ ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے۔ شاید ایک دن تاریخ کا یہ اہم باب وقت کے سردوگرم سے متاثر ہو کر کہیں گم ہو جائے گی۔ لڑکی کی خاطر جنگ میں فقیر ایپی کے ہاتھوں مرنے والے انگریزفوجیوں کا خستہ حال قبرستان برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ کی توجہ کا متقاضی۔