جیل اور عقوبت خانے کا فرق سیلن زدہ سیل نے ختم کر دیا تھا۔کل کا وزیر اعظم آج تاریک کوٹھڑی میں چھدی ہوئی چٹائی پر بازوگھٹنوں کے گرد حمائل کئے گہری سوچ میں گم بیٹھاتھا۔ حبس کی شدت اور گرمی کی حدت کا احساس سوچوں تلے دب چکا تھا۔ بندآنکھوں کے سامنے اپنے جنرل کا چہرہ گھوم رہا تھا جس نے امریکہ کی سازش کو عملی جامہ پہنایا اور وزیر اعظم کو مجرم بنا کرکال کوٹھڑی میں لا بٹھایا۔"
میری قوم کو مشکلات سے نکالنے وطن کو ترقی و خوشحالی کی منزل سے بھی آگے پہنچانے کی خواہش اور ا
یہ امریکی سی آئی اور برطانوی ایم آئی 6 کا مشترکہ آپریشن ایجیکس تھا۔ جس میں اپنے مہروں کے ذریعے وزیر اعظم محمد مصدق کو تختہ مشق بنایا گیا۔ حیران کن طور پر شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کو بڑے مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ دوسرا بڑا جنرل فضل اللہ زاہدی اور باقی بھی کئی ملاؤں سمیت ڈالرپرست نظر آئے۔ اصل مسئلہ برطانیہ کو تھا جس نے امریکہ کو ساتھ ملایا۔
ڈاکٹرمصدق اسمبلی میں12کے مقابلے میں79 کی بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ وہ جلد ہی آئل انڈسٹری کو قومیانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگئے: 1908ءمیں اینگلو پرشین آئل کمپنی نامی برطانوی فرم نے ایران کے خوزستان صوبے میں تیل کے وسیع ذخائر دریافت کئے۔ 1914 میں برطانوی حکومت نے کمپنی کے 51 فیصد حصص خرید کر اجارہ داری قائم کرلی۔ بعد میں اس کا نام بدل کر اینگلو ایرانین آئل کمپنی کر دیا گیا۔ اس کمپنی نے آبادان میں دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری تعمیر کی۔ایرانی تیل سے برطانیہ مالا مال ہوگیا۔ رائل نیوی کے سربراہ ونسٹن چرچل نے فیصلہ کیا کہ بحری ایندھن کوئلے سے بدل کر تیل کر لیا جائے، جس سے تیل کی مانگ اور ایران کی اہمیت میں بلندی تک پہنچ گئی۔ ایران میں تیل کے تواتر کیساتھ ذخائر برآمد ہوتے گئے۔ اس تیل میں سے ایران کا کل حصہ 17 فیصد جبکہ اے آئی او سی کمپنی کا 83 فیصدتھا۔ ٹیکس، تنخواہیں اور دیگراخراجات بھی کمپنی کل رقم سے منہا کرتی تھی۔
1951 میں اس کمپنی نے کل چار کروڑ پاؤنڈ کمائے۔ اس میں سے ایران کو صرف 70 لاکھ پاؤنڈ دیے گئے۔اسے دیکھتے ہوئے ہی ڈاکٹر مصدق نے قومیانے کی پالسی بنائی گئی۔جس پر برطانیہ کاغصہ یکدم نکتہ کھولاﺅ تک پہنچ گیا۔صورت حال کو ریورس کرنے کے لئے کئی پلان زیر غور لائے گئے۔ آبادان پر حملہ کر کے قبضے کا منصوبہ بنایا گیا مگر امریکی صدر ہیری ٹرومین نے کوریا میں جاری جنگ کے باعث حمایت نہ کی۔ برطانیہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا ۔ یہ کاوش بے سود رہی۔خلیج میں جنگی جہاز بھیج کر ایران کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی، ایرانی تیل خریدے والے ملکوں کو قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دیں، مگر ڈاکٹر مصدق نے ہر ایسی کوشش کے جواب میں ابسولیوٹلی ناٹ کہا۔
آخر کار برطانوی حکومت مصدق کا تختہ الٹ کر مقاصد حاصل کرنے کی ٹھان لی۔ اس کے لیے امریکی سی آئی اے کی ضرورت تھی۔ وہاں ٹرومین بیٹھے تھے۔ برطانیہ کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ٹرومین کوریا میں سبکی کے باعث مقبولیت گرنے پر وہ انتخابی عمل سے الگ ہو گئے۔ ری پبلکن پارٹی کے آئزن ہاور صدر چن لئے گئے۔اُدھر چرچل برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔ وہ فوری طور پر امریکہ جا پہنچے۔ نومنتخب صدرکو یہ کہہ کر تعاون پر آمادہ کیا کہ مصدق چھپے ہوئے کمیونسٹ ہیں۔ کسی بھی وقت روس کے دامن سے وابستہ ہو سکتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ تھا جس پر آئزن ہاور اور ڈلس برادران( جان ڈلس وزیر خارجہ ، ایلن ڈلس سی آئی اے ڈائریکٹر) نے یقین کر لیا۔ آئزن ہاورنے آپریشن ایجیکس کی منظوری دیکر سابق صدر روز ویلٹ کے پوتے کرمٹ روز ویلٹ کومصدق کُشی پر مامورکردیا۔
یہ آپریشن ایم آئی 6اور سی آئی اے نے مل کر کیا۔مؤرخ سٹیون کنزر اپنی کتاب” شاہ کے آدمی“میں لکھتے کہ سی آئی اے نے جنرل فضل اللہ زاہدی کو ایک لاکھ ڈالر دے کر مصدق کی جگہ وزیر اعظم بننے پر آمادہ کیا۔ اُدھر ڈالروں کے ذریعے تہران میں الاؤ دہکا دیا گیا۔ گلی گلی مرگ بر مصدق اور شاہ زندہ باد کے نعرے گونجنے اور کتبے لہرائے جانے لگے۔ قلمکار بھی حقِ نمک ادا کرتے نظر آئے۔ ملا مصطفےٰ کاشانی قومیانے کی پالیسی کے حامی اور سامراج کے سخت خلاف تھے۔انہیںکرمٹ روز ویلٹ نے دس ہزار ڈالر گفٹ کئے تو ان کا ایگریشن الفت میں بدل گیا۔ بہت بڑے عالم آیت اللہ بہبہانی کے ذریعے بلواؤں کو آمادہ فساد کیا گیا۔تہران کے پولیس چیف جنرل افشار طوس کو اغوا کے بعد قتل کر کے مسخ نعش سڑک پر پھینک کر تاثر دیا گیا کہ مصدق کے ہاتھ سے طاقت پھسل گئی ہے۔
شہنشاہِ ایران شروع میںامریکہ اور برطانیہ کے ساتھ تعاون پر تیار نہیں تھا۔ ان سے کر مٹ روز ویلٹ نے رات کے اندھیرے میں گاڑی میں خفیہ ملاقات کی۔ ان کو لالچ دینے کے ساتھ دھمکایا بھی تو وہ خوف کے سائے میں آمادہ ہو گئے۔طے شدہ منصوبے کے تحت وہ سرحدی شہررامسر چلے گئے تاکہ ناگوار صورت حال پر فرار ہو سکیں۔ وہیں انہوں نے مصدق کی معزولی کے نوٹیفیکیشن پر دستخط کئے۔ حالات ناموافق دیکھ کر شاہ ایرانِ ملک سے فرار ہو گئے۔
15اگست1953ءکرنل نعمت اللہ نصیری معزولی نامہ لے کر مصدق کے پاس پہنچے جسے متوقع طور پر مصدق نے مسترد کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی جنرل زاہدی نے اپنے وزیر اعظم ہونے کا اعلان کر دیا۔ یہی وہ چار روز تھے جبکہ ایران میں خونریزی ہونے لگی۔ مصدق کے حامی مظاہرے کر رہے تھے۔ ان کا مقابلہ ڈالر پسندوں نے مذہب کارڈ کھیل کر کیا۔ پھر وہ دن آگیا: 19اگست، جب ٹینکوں کے ذریعے مصدق کے گھر کو گھیر لیا گیا۔ وہ گرفتار ہوئے جو آج کے روز 8 ستمبر1953ءکو سیلن زدہ سیل میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ جرم گناہی کی سزا کیوں دی گئی!۔
شہنشاہِ ایران مصدق سے "نجات" کے بعد بہت مضبوط اور طاقتور ہوگئے تھے۔روزویلٹ نے انہیں مطلق العنان بنانے یقین دلایا تھا۔یہ وعدہ پورا کیاگیا۔جنرل زاہدی کی حیثیت نمائشی وزیراعظم کی تھی۔مصدق کو غداری کے مقدمہ میں سزائے موت سنا دی گئی۔شہنشاہ نے ازراہِ ہمدردی یا پھر ضمیر کے کسی حصے سے اُٹھنے والی صدائے ملامت پر یہ سزا تین سال میں بدل دی۔بعد ازاں شائد اس اندیشے کے پیش نظر کہ رہائی کے بعد مصدق کی مقبولیت عود نہ کر آئے،عمر بھر کیلئے نظر بند کردیا۔شہنشاہ ایران کو شاید ایسے ہی اعمال پر ذلت آمیز حالات کا سامنا کرنا۔مکافات عمل شایداسی کو کہتے ہیں مگر اسے دیکھنے کیلئے ڈاکٹر مصدق دنیا میں نہیں تھے۔