2020 ,مئی 9
کچھ اقدامات اور بڑے لوگوں کے مثبت و منفی ریمارکس نظریات، فلسفہ اور مقولوں کی شکل اختیار کرگئے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ آج بھی دہائیوں بعد خوش کن بازگشت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اسی روز معرض وجودمیں آگیا تھا جب پہلا مسلمان اس خطے میں داخل ہوا۔ لیاقت علی خان کا مکا مثال بن گیا۔ خواجہ ناظم الدین کی ڈائننگ ٹیبل پر بے باکی سے خوش خوراکی امر بن گئی۔ آفس ٹیبل کو خواجہ ناظم الدین کے پیٹ کی مناسبت سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد کی کامیاب حکمرانی میں رتھ بورل کا کردار تھا جو بیک وقت ان کی سیکرٹری، آیا اور نرس تھی۔ ایوب خان کا 65ء کی جنگ میں بھارت کو للکارنا پاکستانیوں کے جذبہ ایمانی کو جلا بخش گیا۔ یحییٰ خان کے جام جم میں آدھا پاکستان ڈوب گیا۔ جنرل ضیاء الحق کی نوازشریف کو عمر لگنے کی دعا بغیر پھیرے لگائے پوری ہوگئی۔ جنرل ضیاء کا یہ قول بھی مقبول ہوا میں اشارہ کروں تو سیاستدان دم ہلاتے چلے آئیں گے۔ میاں نوازشریف کے کئی زریں اقوال ان کی شخصیت کا پرتو ہیں۔ جنرل ضیاء الحق شہید کا مشن پورا کروں گا۔ جناب یہ ہیں وہ ذرائع......مجھے کیوں نکالا، اب وہ لندن میں ہیں، اِدھر ان کو پاکستان لانے کیلئے نیب سرگرم ہے تو وہ دل میں کہہ رہے ہوں گے۔" نہ چھیڑ ملنگاں نوں"۔ مشرف نے وردی کو کھال قرار دیا مگرو ہ چمڑی کی طرح اتر گئی، کس کے ہاتھوں؟ زرداری کے ہاتھوں! گویا ’’کیڑی‘‘ ہاتھی پر حملہ آور ہوئی۔
ہمارے ہاں سیاست میں ہمیشہ سے گھسیٹا گھسیٹی جاری اور ایک دوسرے کیلئے ضرب کاری رہی ہے۔ آج 18ویں ترمیم کا پوسٹمارٹم ہو رہا ہے۔ حق اور مخالفت میں دفتر کے دفتر کھل رہے ہیں۔ اس کی ہیئت بدلتی نظر آرہی ہے، بلکہ نوشتہ دیوار ہے۔ یہ ترمیم اپریل 2010ء میں صدر آصف علی زرداری کی کاوش سے پارلیمنٹ میں آسانی بلکہ بغیر بحث و تمحیص طریقۂ لاثانی سے منظور ہوگئی۔ اس ترمیم کے تحت بہت سے اختیارات مرکز سے صوبوں کو دیدیئے گئے۔ مشرف نے 17ویں ترمیم کے ذریعے صدر کو اختیارات کا گھنٹہ گھر بنا دیا تھا۔ زرداری صاحب نے اختیارات سرنڈر کرکے صدر کے عہدے کو نمائش محض بنا دیا۔ اسمبلیوں اورحکومت کے قتل کی تلوار بھی 17ویں ترمیم 58ٹو بی کو نیا جنم دے کر پارلیمنٹ نے مشرف کو تھمائی تھی۔اس ترمیم کی مولانا فضل الرحمان کی زیر سربراہی متحدہ مجلس عمل نے اپوزیشن کا پرچم لہراتے ہوئے دل و جان سے حمایت کی تھی۔ 17ویں ترمیم کی کچھ مثبیات برقرار بھی رکھی گئیں۔ 17ویں ترمیم کی میاں نوازشریف اور بینظیر بھٹو کیلئے زہر خند شق تیسری بار وزیراعظم بننے پر قدغن تھی۔ 2 سال میں آصف زرداری نے شاید مستقبل کی سیاست کا ادراک کرتے ہوئے صوبوں کو ’’فل لوڈڈ‘‘ کرنے کی ٹھانی۔ ان کو احساس ہوگیا تھا پی پی پی طویل عرصہ جو قیامت تک کا بھی ہوسکتا ہے، سندھ تک محدود ہو جائے گی۔ 18ویں ترمیم میں تعلیم اور صحت کے امور صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے۔ رئوف طاہر سے بات ہوئی، ان کو تعلیم کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔تعلیم صوبوں کے پاس ضرور رہے مگر نصاب کے نفاذ کا اختیار مرکز کو ہو۔ آج صورتحال یہ ہے کہ صوبوں میں قومی ہیروز کا تعین صوبائیت کی بناء پر کیا جاتا ہے۔ سندھ میں راجہ داہر غریب پرور اور محمد بن قاسم کو غاصب باورکرایاجاتا ہے۔ پنجاب میں کچھ بدبخت رنجیت سنگھ کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ یہ اسی ترمیم کا ہی اعجاز ہے، کرونا وباء کو کنٹرول کرنے میں مرکز صرف پیسے ہی بانٹ سکا، اس کی گائیڈ لائنز اور پالیسیوں کو صوبے آپشن سمجھتے ہیں۔ سندھ باقاعدہ مرکز کے مقابل دُم پر کھڑا نظر آیا۔
آصف علی زرداری کے کشف و کرامات سے کون آگاہ نہیں تھا مگر وہ صدر بن گئے۔ کیسے؟ مشرف 2008ء کے انتخابات میں مرضی کے نتائج کے حصول کے متمنی تھے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنایا۔ زرداری صاحب نے آرمی چیف جنرل کیانی کے ساتھ قربتیں بڑھا لیں۔ تعلقات میں خوشگواریت پی پی پی دور کے اختتام تک رہی۔ زرداری کو صدارت کے منصب تک پہنچانے میں جنرل کیانی کے ساتھ'' ہم تم''کام آئی۔
18ویں ترمیم مسلم لیگ ن کی طرف سے بغیر کسی حیل و حجت بلکہ بحث کے بھی اس لئے دل و جان سے قبول ہوگئی کیونکہ میاں نوازشریف کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹیں دورہو رہی تھیں۔ اے این پی کا صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کا دیرینہ مطالبہ مان لیا گیا۔ قومیت اور علاقائیت کی بات کرنے والوں کو ان کی آرزوئوں اور تمنائوں سے بڑھ کر خودمختاری مل گئی تھی۔
18ویں ترمیم کے بارے میں قیوم نظامی صاحب نے لکھا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں نے اس قدر غیر معمولی اختیارات حاصل کرلیے کہ پاکستان عملی طور پر فیڈریشن کی بجائے " کنفیڈریشن " بن کر رہ گیا- ترمیم منظور کرنے والے پارٹی لیڈروں کی نظر عوام کے مفادات کی بجائے قومی خزانے پر تھی- ان کی بدنیتی کئی حوالوں سے ثابت ہوچکی ہے-"
آج حکومت کو کرونا کے تدارک اور اس کے خلاف اقدامات کیلئے 18ویں ترمیم کے باعث رکاوٹیں نظر آئیں۔ اس لئے بھی 18ویں ترمیم میں نظرثانی کی بحث شروع ہوئی، جس کا آغاز اسد عمرنے کیا اس پر پی پی پی، پی ٹی ایم اور اے این پی لال بھبوکا ہوگئیں۔ترمیم میں نظرثانی کی رائے کو جمہوریت پر حملہ، قومی ہم آہنگی کا شیراز بکھرنے کی سازش قراردیا جانے لگا۔البتہ مسلم لیگ کفارہ ادا کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی قیادت آج اسی مقام پر ہیں جس پر 18ویں ترمیم کی منظوری کے وقت میاں نوازشریف تھے۔ تیسری بار وزیراعظم بننے کی پابندی ہٹانے کے بدلے وہ ہر شرط ماننے پر تیار تھے۔ آج پی پی پی اور ن لیگ کی مرضی کے مطابق نیب قانون میں تبدیلی کر دی جائے تو 18ویں ترمیم پر نظرثانی تو کجا بھلے اس کو آئین ہی سے نکال دیا جائے تو بھی میثاق جمہوریت کی 'پگڑی بدل' اور بعد کی 'باری بدل' پی پی اور ن لیگ کو قطعی اعتراض نہیں ہوگا۔ مگر نہ تو ان کی مرضی کے مطابق نیب قانون بدلتا نظر آتا ہے اور نہ ہی 18ویں ترمیم اپنی 2010ء کی شکل میں برقرار رہتی دکھائی دیتی ہے۔ آج تک کی پیشرفت کے مطابق 18ویں ترمیم پر نظرثانی مقدر کی طرح اٹل نظر آتی ہے۔ (جاری)