ابو القاسم زہراوی

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع جون 08, 2017 | 19:27 شام

(موجد جراحی)

لاہور(سید اسامہ اقبال)ابو القاسم زہراوی 936ءمیں قرطبہ کے قریب شہر الزہرہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام عباس تھا۔ ان کے آباءو اجداد عربی النسل تھے۔ جو مسلم فاتحین کے ساتھ اسپین آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔

ابو القاسم بچپن ہی سے ذہین اور غور و فکرکے عادیتھے۔انہیں زمانہ بچپن ہی سے طب سے لگاو تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کر نے کے بعد انہوں نے قرطبہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں ان کے اوصاف پوری طرح نکھر کر آئے تعلیم مکمل ہونے کے بعدانہوں نے عملی زندگی میں قدم رکھا۔

یہ زمانہ خلیفہ عبدالرحمن الناصر کا تھا۔ یہ نہ صرف علم و فن کا بڑا قدر داں تھا بلکہ جوہر شناس بھی تھا۔ اس نے ابوالقاسم کے اندر چھپے ہوئے فن کو پہچان لیا اور ان کا تقرر شاہی اسپتال میں کر دیا۔ انہوں نے اس موقعہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور مسلسل تحقیق تجربات اور اپنے وسیع مطالعہ کی روشنی میں انہوں نے طب کے مختلف اصول و قوانین وضع کیے جن کی وجہ سے آج ان کا نام آسمان طب کا ایک روشن ستارہ ہے۔

ابو القاسم زہراوی سے پہلے مریضوں کا علاج صرف اور صرف دواﺅں سے کیا جاتا تھا مگر انہوںنے "جراحی" (آپریشن) کا طریقہ ایجاد کر کے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ ان کے طبی نظریات اور تجاویز کی بنا پر انہیں جراحی کا موجد مان لیاگیا۔ انہوںنے امراض کو دو قسموں میں تقسیم کیا۔ ایک وہ جن کا علاج دواوں سے ممکن ہے اور دوسرا وہ جن کا علاج دواوں سے ممکن نہیں دوسری قسم کو انہوںنے جراحی کے خانے میں ڈالا اور اس بات پر زور دیا کہ جو جسمانی اعضاءخراب ہو کر مریض کے لیے تکلیف کا باعث بنیں تو انہیں آپریشن کے ذریعے کاٹ کر الگ کر دینا چاہیے۔

ابو القاسم زہراوی نے سر جری کے آلات بھی ایجاد کئے۔ انہوں نے تصویر بنا کر قرطبہ کے بہترین کاریگروں سے آلات جراحی بنوائے۔ ان میں سے اکثر آلات آج بھی ا±سی شکل میں ہیں اور ویسے ہی استعمال ہوتے ہیں جیسے "نشتر"، "چمٹیاں"، چاقو"، قینچیاں"وغیرہ۔ انہوں نے آپریشن پر بحث کرتے ہوئے بتایا کہ آپریشن کر نے سے پہلے مریض کو بے ہوش کر دینا چاہیے تا کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ ا نہوں نے آپریشن کے بعد زخموں کے سینے کے لیے دھاگوں پر بھی تجربات کر کے بتایا کہ الگ الگ زخموں کے سینے والے دھاگے (Stitching Threads) نہ صرف الگ ہو تے ہیں بلکہ سینے کے طریقے (Stitching) بھی الگ ہو تے ہیں۔

ابو القاسم زہراوی نے جراحت (Surgery) کو ایک مکمّل فن کی حیثیت سے پیش کیا اور اسکے قوانین بھی واضع کیے۔ انہوںنے جسم کے مختلف امراض کا علاج کر کے ثابت کیا کہ ان کا علاج آپریشن ہی سے ممکن ہے۔ جیسے
 "ٹانسل" (Tonsil)


"رسولی" (Tumour)


 گوشت کا بڑھ جانا"
 "کٹی ہوئی شریانوں کا جوڑنا"وغیرہ۔ 
اس کے علاوہ انہوں نے ٹوٹی ہوئی ہڈی پر پلاسٹر لگانے کا طریقہ بھی ایجاد کیا۔ ابو القاسم زہراوی سرجری میں بے انتہا مہارت رکھنے کے باوجود کینسر کے آپریشن کا سخت مخالف تھا۔ اس کے مطابق کینسر کو چھیڑ دینے سے مرض اور خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے (یہ ہمارا بھی تجربہ ہے)۔ ابو القاسم زہراوی مریض کی دیکھ ریکھ، غذا مناسب آب و ہوا اور مریض و معالج کے خوشگوار تعلقات پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ مگر ان کا عقیدہ کامل تھا کہ مریض کی شفا یابی کے لیے معالج صرف کو شش کرتا ہے۔ شفا دینے والی ذات اللہ کی ہے۔

ابو القاسم زہراوی کو طب کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، فلکیات، ریاضیات، لسانیات، مذہییات، کیمیا، طبیعات، نفسیات، قواعد اور شاعری سے بھی گہرا لگاو تھا۔ اور ان مضامین میں بھی اس کا عمل دخل تھا۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ انسان اپنی تمام تر توجہ کسی ایک فن کی طرف لگا کر اس میں مہارت حاصل کر لے یہ ا±س کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ لہٰذا انہوں نے فن طب میں یکسو ہو کر ایسی ایسی چیزیں ایجاد کیں جو آج بھی طبی دور میں ایک نقش پاکی حیثیت رکھتی ہیں۔

ان کی مشہور کتاب "التصریف لمن عجز عن التالیف"ایک طرح کی طبی انسائیکلو پیڈیا ہے۔ یہ کتاب اس کے ذاتی علم، مشاہدے اور تجربے کا نچوڑ ہے۔ اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔ 1013ء میں فنِ جراحت کے نقشِ پا چھوڑ کر ابو القاسم زہراوی اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔