بچوں کے ادب کی موجودہ حالت سید بدر سعید کی زبانی

2017 ,جولائی 17

بنتِ ہوا

بنتِ ہوا

تہذیب

bintehawa727@gmail.com



مجھے یاد ہے کہ بچپن میں مجھے سب سے زیادہ جو سٹوری بکس پسند تھیں ان میں دو طرح کی کہانیوں پر مشتمل کتب تھیں ۔ ایک ہمارے اصلی ہیروز یعنی سلطان نور الدین زنگی ، محمد بن قاسم اور دیگر مسلم بادشاہوں کی داستانبیں تھیں ۔ دوسرا لوک داستانوں پر مشتمل کتب تھیں ۔ اکثر ان کے ساتھ لکھا ہوتا تھا کہ یونانی ادب سے ، جاپانی ادب ، یا کسی اور ملک کی لوک کہانی ۔

یہ کہانیاں اس طرح لکھی جاتی تھیں کہ مجھے ایسے لگتا تھا کہ جیسے پوری دنیا پاکستان جیسی ہے ۔ میں ان کہانیوں میں کھو سا جاتا تھا ۔ اردو ادب کے نامور ادیبوں نے بچوں کی کہانیاں لکھی ہیں ۔ اکثر نے تراجم بھی کئے ہیں اور اپنے انداز میں انہیں اپنایا بھی ہے ۔

میرے بچن میں بچوں کا ادب بہت مضبوط تھا ۔ مجھے نہیں معلوم تب بھی بچوں کی ادبی تنظیمیں تھیں یا نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ تب بہت اچھی کہانیاں لکھی جاتی تھیں ۔ ابا جی نے کئی رسالے ماہانہ بنیادوں پر لگوا دیئے تھے اور میرا یہ حال ہوتا تھا کہ جس دن رسائل آتا اسی روز اسے مکمل پڑھ لیتا ۔ اس کے بعد انتظار کرنے لگتا کہ کب ہم سب سید نظر زیدی مرحوم کے گھر جائیں گے اور میں ان کی لائبریری نما کمرے میں پہنچوں گا ۔

اب ہمارے یہاں بچوں کا ادب لکھا تو جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے بہت کم لوگ حقیقی ادب کی جانب متوجہ ہیں ۔ گذشتہ ایک برس میں تو شاید ہی اس حوالے سے کوئی ورکشاپ یا ٹریننگ ہوئی ہو ۔ ہماری ادبی تقریبات میں بھی بچوں کے ادب پر مباحثے اور مقالے ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ شعیب مرزا نے تو عالمی ادبی کانفرنس میں بچوں کے ادب کا سیشن ختم کرنے پر عطا الحق قاسمی صاحب سے باقاعدہ احتجاج بھی کیا تھا ۔

بچوں کے ادب پر ملنے والے سرکاری ایوارڈز کبھی بہت اہمیت رکھتے تھے اب وہ بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ غیر ملکی ادب کے تراجم اور انہیں ہمارے ادب میں ڈھالنے کا کام تو تقریبا ختم ہوا جاتا ہے ۔ ایک احمد عدنان طارق اس جانب متوجہ نظر آتے ہیں ۔ شاید ایک دو اور لوگ بھی ہوں ۔ چند روز سے اس ھوالے سے فیس بک پر بھی ایک بحث دیکھ رہا ہوں کہ غیر ملکی ادب سے تراجم کی حیثیت کیا ہے اور یہ سلسلہ چلنا چاہئے یا نہیں ۔ میرے خیال میں یہ بحث فیس بک کی بجائے ادبی حلقوں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم پر ہونی چاہئے ۔

ادب میں تخلیق اور تراجم دونوں کی بہت اہمیت ہے ۔ اگر یہ سلسلہ رک گیا تو عمرو عیار ، ٹارزن اور سپر مین سے لے کر آلہ دین ، علی بابا اور چچا چھکن تک سبھی ختم ہو جائیں گے ۔ ان سب کرداروں کی ری سائیکلنگ کی ضرورت ہے تاکہ بعد میں آنے والے بچے بھی انہیں جان سکیں ۔

عینک والے جن کا نسطور جن سپر مین سے اڈاپٹ کیا گیا تھا تو بل بطوری ہماری روایتی چڑیل تھی ۔ یہ سلسلے چلتے رہنے چاہئے ۔

میری درخواست ہے کہ ادبی تنظیمیں اس سلسلے میں مباحثوں اور مقالوں کو یقینی بنائیں ۔ یورپ ابھی بھی ہیری پورٹر جیسا فکشن لکھ رہا ہے لیکن ہم بچوں کے ادب کے حوالے سے بانجھ ہوتے جا رہے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سرکاری اور نجی دونوں سطح پر بچوں کے ادب کو نظر انداز کرنا ہے ۔ یہاں تک کہ گھروں میں سنائی جانے والی چندا ماموں کی کہانیوں کی جگہ سٹار پلس کی کہانیاں لے چکی ہیں ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کہانیاں بچوں کی ذہانت میں اضافہ کرتے ہوئے فوری فیصلہ کی قوت کو بڑھاتی تھیں ۔ خدارا بچوں کے ادب کو ہلکا نہ لیں ورنہ بڑھاپے میں آپ ہلکے پڑ جائیں گے

(سید بدر سعید)

متعلقہ خبریں