کراچی ایئرپورٹ:تاریخ اوربھارتی جہاز

2022 ,جولائی 26



 کراچی ایئر پورٹ کی کئی حوالوں سے پہچان،شہرت اور اہمیت ہے کالعدم تنظیم کے خلاف آپریشن کے لیے حکومت متذبذب تھی کہ شدت پسندوں نے کراچی ایئر پورٹ پر یلغار کر دی،29جون 2014ء کو اس واقعے میں اے ایس ایف کے تین سپوتوں سمیت 18 افراد جاں بحق ہوئے اورمقابلے میں 12حملہ آور بھی ڈھیر ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت کی طرف سے ضرب عضب اپریشن کا آغاز کیا گیا، یہ کراچی ایئر پورٹ ہی ہے جہاں وزیراعلیٰ غوث علی شاہ سندھ کے آئی جی کے ساتھ سری لنکا سے آرمی چیف جنرل پرویز کی واپسی پر ہتھکڑیاں لے کر پہنچ گئے تھے،کراچی ایئر پورٹ سے اور بھی بہت سی داستانیں اور کہانیاں وابستہ ہیں مگر پولینڈ کے صدر کی موجودگی میں اس کے ایک وزیر کا قتل ایک منفرد اورانوکھا واقعہ ہے۔”زیگ فرِڈ وُل نائگ اکتوبر 1970ء کے آخری ہفتے اپنے صدر مرین سائی چلسکی کے ساتھ پاکستان کے پانچ روزہ دورے پر آئے۔ان دنوں جنرل یحییٰ خان پاکستان کے صدر تھے،دورے کے آخری روزیکم نومبر کو صدر مرین وفد کے ساتھ کراچی پہنچے جہاں معززین تعارف کے لیے ایک قطار میں کھڑے تھے کہ اس دوران ان کو لاہور سے کراچی لانے والے جہاز کے عقب سے کیٹرنگ ٹرک برآمد ہوا جو تیزی سے اس قطار کی طرف بڑھا جس میں کھڑے لوگوں سے پولش صدر ہاتھ ملا رہے تھے، ٹرک نے 26 افراد کو آناً فاناً کچل دیا جس میں پولش نائب وزیر خارجہ زیک فرڈول اور تین پاکستانی موقع پر مارے گئے۔ زخمیوں کو تو فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا جبکہ پولش صدر دورے کے چوتھے روز اپنے وزیر خارجہ کی نعش لے کر واپس چلے گئے۔کیٹرنگ ٹرک کو فیروز محمد عبداللہ چلا رہا تھا جس نے اس اقدام کے بعد کمیونزم کے خلاف نعرے لگائے اور یہ کہتے ہوئے گرفتاری دیدی کہ میں نے اپنا مشن پورا کر دیا، تفتیش کے دوران اس نے بتایا کہ اس نے مقتول وزیر کو پولینڈ کا صدر سمجھ کر ان پر ٹرک چڑھا دیا تھا۔کمیونسٹ اسلام کے دشمن اور اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ 10 نومبر 1970ء کو فیروز عبداللہ کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔ فیروز محمد کی اس دن ڈیوٹی نہیں تھی بلکہ وہ خصوصی طور پر ”اپنے مشن“ کے لیے  یونیفارم پہن کر آیا تھا۔ وہ چونکہ ٹریڈ یونین کا ممبر تھا اس لئے اسے کسی نے نہیں روکا۔ اس سانحے میں ڈپٹی انٹیلی جنس چیف چودھری محمد نذیر، اے پی پی کے فوٹو گرافر محمد یٰسین اور وزیر اطلاعات کے فوٹو گرافر محمد اشرف بھی جاں بحق ہوئے تھے۔

ایک اور واقعہ بھی  20اگست 1998ء کو نائن الیون سے تین سال قبل کراچی ایئرپورٹ پررونما ہوا جب ایک امریکی عہدیدار پاکستان کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ وی وی آئی پی لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور سمندر سے امریکی جہازوں سے فائر کئے گئے کروزمیزائل ایئرپورٹ کے اوپر سے پروازکرتے افغانستان میں مار کر رہے تھے۔یہ حملہ بل کلنٹن کے دورِ صدارت میں آپریشن اِن فینٹ ریچ(لامتناہی پہنچ) کے دوران  اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں پر اس الزام کے تحت ہوا کہ کینیا میں امریکی سفارتخانے پر دہشت گردی ہوئی تھی۔

یہاں اس واقعہ کا تذکرہ بھی بر محل ہوگا صدر ٹرمپ 2017ء میں چین کے دورے پر تھے، کھانے کے بعد سویٹ میں کیک پیش کیا گیا،چمچ میں رکھا کیک کاٹکڑا پلیٹ اور ٹرمپ کے منہ کے درمیان تھا،اسی دوران ٹرمپ کو پینٹا گون سے میسج آتا ہے کہ شام پر میزائل گرانے کے لیے  اجازت درکار ہے، انتظامات مکمل ہیں، چین اور روس ایسے کسی بھی حملے کو ویٹو کر چکے تھے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اُس وقت یہ سوچ کر حملے کی اجازت نہیں دی کہ صدر شی چن پنگ کیا سوچیں گے۔

کراچی ایئر پورٹ پر اب بھی کچھ انہونیاں ہو رہی ہیں، دو روز قبل انڈین ایئر لائنز کے طیارے نے خرابی کے باعث کراچی ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی،یہ جہاز حیدر آباد سے شارجہ جا رہا تھا، طیارے میں 186مسافر تھے جن کو  ٹرانزٹ لاؤنج میں پہنچا کر احمد آباد سے متبادل جہاز منگوایا گیا۔بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خرابی کی جس بھی بلندی پر ہیں حالت ِ جنگ میں بہرحال نہیں ہیں، جنگی حالات میں تو دونوں ممالک کے مسافر جہاز سرحد ہی عبور نہیں کرتے،اب اگر کسی جہاز کو ہنگامی لینڈنگ کی ضرورت پڑ جائے تو اس کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ایئر انڈیگو کے جہاز کو بھی اجازت دے دی گئی جس پر اعتراض نہیں ہو سکتا مگر معاملات اس وقت مشکوک ہو جاتے ہیں جب ایک ماہ میں چار جہاز فنی خرابی کی بنا پر کراچی ایئر پورٹ پر اترتے ہیں۔بنگلور سے کیلیفورنیا کی پرواز17گھنٹے کی ہے اور آج تک بھارتی جہاز کبھی فنی خرابی کے باعث راستے میں نہیں اترا لیکن پچھلے 20سال میں دوارنِ پرواز کبھی دوبار جہاز ایک ایئر پورٹ پرکسی نقص کی وجہ سے نہیں اترے اس لیے کراچی ایئر پورٹ پر ایک ماہ میں چار جہازوں کی ”خرابی“ اتفاق سے نہیں ہو سکتی۔

 جودھ پور پاکستان بھارت کی سرحد کے قریب ایئر پورٹ ہے، حیدر آبادکتناہی دور ہے؟ایمرجنسی میں جہازکو وہاں لے جایا جا سکتاہے۔کئی بھارتی ادارے سازشی ذہنیت رکھتے ہیں۔ کراچی اور اندرونِ سندھ تخریب کاری اور دہشت گردی ہوتی رہتی ہے۔ مسافر لاؤنج میں ٹھہرائے جاتے ہیں یا کسی ہوٹل میں تو اس دوران مسافروں کے روپ میں ایجنٹ بہت کچھ کر سکتے ہیں اور شاید کر  بھی چکے ہوں،جہاں ہماری ایجنسیوں کی آنکھیں اور کان کھلے ہیں،ذہن زرخیز ہیں،وہاں وطن فروش بھی اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال ملک کو ایسے ہی جرم میں عمر قید ہوئی جبکہ بریگیڈیئر رضوان راجہ اور سول فوجی افسر وسیم اکرم کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ارشد سمیع جیسے لوگ بھارت شفٹ ہو جاتے ہیں،دشمن ملک کی زمین اس کے بیٹے عدنان سمیع کو بھی پاک سرزمین سے زیادہ بھلی لگی۔ جہاں یہ شدت پسند ہندوؤں کے جوتے کھا کر بھی خوش ہے۔پاکستان میں ڈالر226روپے کا ہو گیا اور اس کی اُڑان جاری ہے۔ بھارتی جہاز کہیں پاکستان سے ڈالروں کی سمگلنگ کے لیے تو استعمال نہیں ہو رہے؟آخر خراب انڈین جہازوں اور میزائلوں کا رُخ پاکستان کی طرف ہی کیوں ہوتا ہے؟یقینا آئی ایس آئی کی بالخصوص سارے منظر نامے پر نظر ہو گی لہٰذا قوم مطمئن ہے۔

متعلقہ خبریں