2022 ,دسمبر 12
تحریر: مطلوب احمد وڑائچ
سیاسی ماحول کتنا آسیب زدہ ہے۔ پاکستانی گھٹن اور حبس محسوس کرتے ہیں۔ گذشتہ سات آٹھ ماہ کا عرصہ عوام پر قیامت بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ مہنگائی کے طوفان کے تھپیڑے جیتے جی مار رہے ہیں۔اس ماحول میں بھی اگر تفریح کے مواقع میسر آتے ہیں تو لوگ زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو انجوائے کرتے ہیں۔ آج کل لاہور دا پاوا اختر لاوا کردار بڑا شہرت پا رہا ہے۔ لاہوریئے خاص کر اس بحرین پلٹ لاہوریئے کی مذاحیہ بڑھکوں کو انجوائے کرتے ہیں۔ویسے تو گلوبٹ نے بھی بڑی مشہوری حاصل کی تھی مگر وہ مشہوری اور اس کی چاپلوسانہ حرکتیں، اس کی بدنامی کا باعث بن گئی تھیں۔اختر پاوا کی بڑھکیں بھی اس کی نیک نامی میں اضافہ تو نہیں کر رہی تاہم لوگوں کے لیے کسی حد تک تفریح کا اس میں سامان ضرور موجود ہے۔ اس کا سوشل میڈیا پر زیادہ ہی چرچا ہے اس کے انٹرویوز چل رہے ہیں جن میں وہ خواتین حراسگی پر بحرین سے نکالے جانے کا اعتراف بھی کرتا ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے پاکستان کی سرزمین زیادہ ہی زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ اسے شاید کوئی پارٹی سیاست میں بھی استعمال کر رہی ہے۔ وہ برملا ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔ کسی دور میں لاہور میں ہی سلیم کِرلا نامی ”سیاستدان“ نے بھی شہرت پائی تھی۔ وہ بھی ایسا ہی کردار تھا۔ اسے پاکستان کے سٹار کرکٹر سرفراز نواز کے مقابلے میں ٹکٹ دے کر انتخابی میدان میں اتارا گیا تھا۔ سلیم کِرلا نے اپنے نام کی بدولت شہرت پائی تھی۔
یہ 1985 کی بات ہے۔ لاہور میں "سلیم کِرلا" نام کے ایک صاحب ہوا کرتے تھے۔ لوگ اسے مذاق میں کرلا کہتے تھے لیکن اس نے اپنے نام کے ساتھ ہی کرلا لگادیا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں سلیم کرلا الیکشن میں کھڑےہوگئے اور ان کے مقابلے میں سرفراز نواز الیکشن لڑرہے تھے۔ سرفراز نواز چونکہ ان دنوں ضیاء الحق کے بہت قریب تھے اور انہیں حکومتی آشیرباد بھی حاصل تھی ۔ سب کا یہی خیال تھا کہ سرفراز نواز آسانی سے الیکشن جیت جائیں گے ۔دوسری طرف سلیم کرلا کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، انتہائی غریب اورمحنت مزدوری کرنیوالا کرکے پیٹ پالنے والا شخص۔ سلیم کرلا کے محلے داروں نے سلیم کرلا کو الیکشن میں کھڑا کردیا اور اسکے لئے پوسٹر بھی چھپوادئیے اور اپنے پوسٹرز پر ایک فقرہ لکھوایا جو سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔فقرہ تھا "اقتدار کے بھوکوں میں ایک اور بھوکے کا اضافہ"۔ سلیم کرلا نے الیکشن کمپین چلانا شروع کردی اور تقریر میں ہمیشہ یہی کہتا کہ اگروہ الیکشن جیت گیا تو سب سے پہلے شادی کرے گا، دولت اکٹھی کرے گا ، کارخانے اور گاڑی بنگلے بنائے گا اور اس کے بعد اگر ان سب سے فرصت ملی تو اپنے حلقے کے عوام کے مسائل کی طرف توجہ دوں گا۔ لوگ اس کی باتیں سن کر محظوظ ہوتے اورمزید متوجہ ہوتے۔
سلیم کرلا کو ان باتوں سے اتنی شہرت ملی کہ غیرملکی میڈیا، پاکستانی اخبارات نے اس کے بیانات کو پہلے پیج پر چھاپنا شروع کردیا اور سلیم کرلا لوگوں میں مقبول ہونا شروع ہوگیا۔جس سے سرفراز نواز پریشان ہوگیا اور سلیم کرلا کی مقبولیت دیکھ کرضیاء الحق کی حکومتی مشینری حرکت میں آگئی اور سرفراز نواز کی مدد کرنا شروع ہوگئی۔لوگ یہاں تک کہنا شروع ہوگئے کہ سلیم کرلا کو غیرجماعتی الیکشن کا مذاق اڑانے کیلئے کھڑا کیا گیا تھا۔ سلیم کرلا کے ساتھ والے حلقے میں اس وقت کے وزیر خزانہ نوازشریف بھی الیکشن لڑرہے تھے۔ا نہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خداکاشکر ہے کہ سلیم کرلا میرے مقابلے میں نہیں لڑا۔ آخر کار الیکشن کا اختتام ہوا، سرفراز نواز نے حکومت کی مدد سے سلیم کرلا کو سخت مقابلے کے بعد ہرادیا لیکن سلیم کرلا نےسرفراز نواز کو پوری الیکشن کمپین میں پریشان کئے رکھا۔ سلیم کرلا کا فقرہ "اقتدار کے بھوکوں میں ایک اور بھوکے کا اضافہ" ایک ضرب المثل بن چکا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتدار کے ایک سے بڑھ کر ایک بھوکا آیا ۔ کسی کا مقصد ملک ٹھیک کرنا نہیں بلکہ پاور انجوائے کرنا، پیسہ کمانا اور طاقت کا حصول تھا۔
ایک اور سیاست میں بڑا نام بنانے والے شخص امبر شہزادہ ہے۔ وہ اپنے کردار و عمل سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ ہمارا نظام کتنا مضحکہ خیز ہے۔ جب بھی صدارتی انتخابات ہوتے ہیں وہ بھی میدان میں آ جاتا ہے۔ اس نے ایک فرضی پارٹی ”آپ سرکار پارٹی“ بنا رکھی ہے۔ پورا نام نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ بتاتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرتا ہے۔ انتخابی مہم چلاتا اور منشور کا بھی اعلان کرتا ہے۔ ہماری سیاست اور معاشرے پر خوبصورت طنز اس کی پہچان بن گئے ہیں۔ اس کے اس طرح کے پوسٹر ہوتے ہیں۔ ”تھوڑی رشوت کام زیادہ، وزیراعظم امبر شہزادہ“ وہ 42بار الیکشن ہار چکا ہے۔ جیت اس کا مقصد ہی نہیں ۔وہ جو بات کرنا اور عوام تک پہنچانا چاہتا ہے وہ پہنچ جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے عوام کا چمچہ اور نیم کرپٹ شخص متبادل وزیراعظم۔ نیم کرپٹ آوے گا ملک ترقی پاوے گا۔ اس کا انتخابی نشان بھی چمچہ کبھی لوٹا ہوتا ہے۔ یہ چونکہ الیکشن کمیشن کی لسٹ میں موجود نہیں ورنہ وہ تابوت، قبر اور کفن بھی انتخابی نشان منتخب کر لیتا۔انتخابی مہم کے دوران میڈیا اور عام مجالس میں امبر شہزادہ کے چرچے چلتے رہتے ہیں۔ لوگ اس کی شخصیت اس کے روپ دھارنے ،اس کے پوسٹرز اور تقاریر سے واقعی لطف اٹھاتے ہیں۔ وہ ہمارے سیاسی کلچر کی جو عملاً سیاست میں ہوتا ہے اس کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ قارئین ایک دفعہ عام انتخابات کا چرچا تھا اور امبرشہزادہ صاحب اس میں وزیراعظم کے امیدوار بھی تھے تو میرے ایک دوست امبرشہزادہ صاحب کو لے کر میرے پاس آئے، ہم نے اکٹھے لنچ کیا اور ملک کی سیاسی صورت حال پر غیرحقیقت پسندانہ تبصرہ بھی اس محفل کا حصہ بنا۔
ایسے کرداروں کی آج کے گھٹن زدہ ماحول میں زیادہ ضرورت ہے۔ خصوصی طور پر آٹھ نو ماہ میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس نے افراتفری میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ بریکنگ نیوز پر بریکنگ نیوز، طوفانی خبریں، چند لمحوں میں بدلتی صورت حال نے ایک ہیجان برپا کر رکھا ہے۔ سوتے میں آنکھ کھل جاتی ہے،ہڑبڑا کر لوگ موبائل آن کرتے ہیں یا ٹی وی چلاتے ہیں کہ اب کی بریکنگ نیوز کیا ہے۔ عام لوگ اور خاص طور پر سیاستدان، دیگر شعبوں کے اکابرین پاکستان کی سیاست کو لے کر ڈپریشن کا شکار ہیں۔ مہنگائی نے کیا حالت کر دی ہے۔ پٹرول دنیا میں سستا ترین ہے ہمارے ہاں کوئی ریلیف نہیں دیا جا رہا۔ حکومت کرنے کا شوق تھا ، کہتے ہیں ریاست بچانے آئے تھے ،معیشت چلانے آئے تھے۔ ریاست کہاں جا رہی تھی، معیشت مزید ڈوب گئی۔ مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں معیشت ڈوب چکی ہے۔ سیاسی بحران گھمبیر تر ہوتا جا رہا ہے جس سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ عوام کے پاس نئے مینڈیٹ کے لیے جایا جائے۔ مگر حکومتی پارٹیاں یہ رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
عمران خان مقبولیت کا جِن ان کو انتخابی عمل سے دور بھگا رہا ہے۔ عمران خان نے 8میں سے سات سیٹیں اکیلے جیت کر مقبولیت ثابت کر دی۔ آزاد کشمیر میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن بھی حیران کن رہے۔ وہاں ہمیشہ وہی پارٹی جیتی رہی ہے جو مرکز میں حکمران ہو۔ اس کا وہاں امورکشمیر کا وزیر ہوتا ہے مگر اس مرتبہ تیسرے مرحلے میں بھی پی ٹی آئی کامیاب ٹھہری ہے۔ عمران خان کو کاﺅنٹر کرنے کا ہر حربہ بے سود نظر آتا ہے جب حکمران اتحاد مشکل میں ہوتا ہے یا کسی معاملے سے توجہ ہٹانا مقصود ہو تو توشہ خانہ اور گھڑی پر نئے مہرے سامنے لائے جاتے ہیں۔ گھڑی کتنی مہنگی ہو گی، اس سے عمران خان نے کتنا کمایا ہوگا؟اس میں چوری کیسی؟ ایک طرف تو 11سو ارب روپے کے کیسو ں میں ضمانتیں ہو رہی ہیں دوسری طرف گھڑی پر گرفت ہو رہی ہے۔ انصاف کے یوں دریا بہانے والا نظام آخرکار کب تک اور کتنا عرصہ چل سکتا ہے۔
قارئین اختر لاوا ، سلیم کِرلا اورڈاکٹر امبرشہزادہ جیسے لوگ گھٹن کے ماحول میں ہمارے چہروں پر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر خوشیاں بکھیرتے ہیں۔ان کرداروں کی اس کاوش کو سلام پیش کرتے ہیں۔حضرت علی کا قول تو سب کو یاد ہے۔”کفر کا نظام توچل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں “