بادشاہی مسجد

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع نومبر 01, 2019 | 19:55 شام

 

بادشاہی مسجد پاکستان کی دوسری بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی مسجد ہے، بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو کہ اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔


تاریخ

ہندوستان کے چھٹے مغل بادشاہ اورنگزیب تمام مغلوں میں سے سب سے زیادہ مذہبی بادشاہ تھے۔ انھوں نے اس مسجد کو اپنے سوتیلے بھائی مظفر حسین، جن کو فداے خان کوکا بھی کہا جاتا تھا، کی زیر نگرانی تعمیر کروایا۔ 1671 سے لیکر 1673 تک مسجد کی تعمیر کو دو سال لگے۔ مسجد کو شاہی قلعہ کے برعکس تعمیر کیا گیا، جس سے اس کی مغلیہ دور میں اہمیت کا پتہ لگتا ہے۔ اس مسجد کے بننے کے ساتھ ہی ساتھ اورنگزیب نے اس کے دروازے کے برعکس شاہی قلعہ میں بھی ایک باوقار دروازے کا اضافہ کیا، جس کو عالمگیری دروازہ کہا جاتا ہے۔


خاص واقعات

دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر، جو کہ لاہور میں 22 فروری، 1974 کو ہوئی، 39سربراہان مملکت نے جمعہ کی نماز اس مسجد میں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔


مرمات

جوں جوں وقت گزرتا گیا، مسجد کو متعدد وجوہات کی بنا پر نقصانات پہنچتے گئے۔ 1850 سے اس کی مرمت کا آغاز ہوا، لیکن یہ مرمت نامکمل تھیں۔ آخرکار مکمل مرمت 1939ء میں شروع ھوئی اور 1960 میں مکمل کی گئی جن پر 48 لاکھ روپے صرف ہوئے۔ اس مرمت کی وجہ سے مسجد ایک بار پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی۔
مسجد کے صحن میں شمال، جنوب اور مشرق کی جانب حجرے تعمیر کیے گئے تھے جو قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے طلباءکے زیر استعمال رہتے تھے۔ ان کی اونچائی 21 فٹ ہے جبکہ صحن سے 3 فٹ بلند ہے۔ دالان کی اندرونی چوڑائی 13 فٹ ہے ۔ مشرقی جانب کا دالان برطانوی حکومت کے ابتدائی سالوں میں گرا دیا گیا ۔

سکھوں کے عہد میں یہ مسجد مسلمانوں سے چھین لی گئی اور سرکار نے اپنی مرضی سے یہاں اصطبل بنایا ۔ انگریزی عہد میں بھی یہاں فوجیں قیام پذیر رہیں۔اسی وجہ سے مسجد کی عمارت خصوصاً صحن وغیرہ کے فرش کو بہت زیادہ تباہ کر دیا تھا ۔ 1856 ءمیں جب بادشاہی مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف آئی تو کافی حد تک مرمت طلب تھی۔1876 ءتک ہزاروں روپے کے اخراجات سے صرف بادشاہی مسجد کی ڈیوڑھی کی مرمت ہو سکی ۔

1910 ءمیں انگریزی حکومت نے چوراسی ہزار روپیہ مرمت پر خرچ کیا ۔ 1913 ءمیں بیگم صاحبہ بھوپال نے چھ ہزار روپیہ مرمت فنڈ میں دیا۔ 1939 ءمیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ سر سکندر حیات نے سرکاری طور پر مرمت کا کام شروع کرایا جو 21 برس جاری رہا اور پاکستان بننے کے بعد 1961 ءمیں پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ انہوں نے مسلمان زمین داروں پر ٹیکس لگایا ۔ ابتداءمیں یہ کام محکمہ آثار قدیمہ کو سونپا گیا مگر بعدازاں مرکزی محکمہ تعمیرات عامہ کو منتقل کر دیا گیا ۔ آزادی کے بعد صوبائی محکمہ تعمیرات نے یہ کام سرانجام دیا۔