آذربائیجان کا سب سے بڑا شہر ’’باکو‘‘ انمول عمارتوں کے شہر کی داستان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اپریل 13, 2020 | 18:55 شام

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک): باکو آذربائیجان کا دارالحکومت ہے۔ اس کا رقبہ 2,130 مربع کلومیٹر (822.4 مربع میل) ہے۔ جولائی2017ء کی مردم شماری کے مطابق ’باکو‘ کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ بحیرہ کیسپین کے کنارے واقع ’باکو‘ آذربائیجان کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال علاقے میں ہونے کے باعث یہ تیل کی صنعتوں کا مرکز ہے۔ شہر11اضلاع اور48 قصبہ جات میں تقسیم ہے۔ باکو کے وسط

میں قدیم شہر واقع ہے، جس کے گرد فصیل ہے۔ دسمبر 2000ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ شطرنج کے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی گیری کیسپاروف کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔

باکو کا نام فارسی لفظ بادکوبہ (ہواؤں کا مارا ہوا) سے مشتق ہے اور اس کے محل وقوع کے لحاظ سے بہت موزوں ہے۔ قرون وسطیٰ کے مورخین اسے باکویہ، بلاکوہ اور باکہ بھی لکھتے ہیں۔ تاریخ میں اس کا ذکر تیسری صدی ہجری کے بعد آتا ہے۔ باکو عرصے تک شاہان شیروان کے ماتحت رہا۔ 1550ء میں صفوی سلطان طہماسپ اوّل کا اس پر قبضہ ہو گیا۔ 1583ء تا 1660ء تک یہ شہر عثمانی ترکوں کے ماتحت رہا۔ 1806ء میں روسیوں نے اسے ایرانیوں سے چھین لیا۔

باکو کا پرانا علاقہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ چاروں طرف سے فصیل بند اور شکستہ حال ہونے کے باوجود یہ آج کی دیواروں سے زیادہ مضبوط ہے۔ پرانے زمانے کے شہر قلعہ بند ہوتے تھے، یہ فصیلیں ان کا سیکیورٹی سسٹم تھیں، جن کے ذریعے وہ بیرونی حملہ آوروں سے اپنا بچاؤ کرتے تھے۔ اولڈ سٹی ایریا کو Inner City (اندرونی شہر) اور نیو سٹی کو Outer City ( بیرونی شہر) کہا جاتا ہے۔

جزیرہ نما آبشار سے پہلی مرتبہ مشینوں کے ذریعے 1842ء میں تیل نکالا گیا۔ 1877ء میں یہاں ریلوے لائن بچھائی گئی۔ 1907ء میں باکو سے باطوم (بحیرہ اسود) تک تیل کی پائپ لائن مکمل ہو گئی اور معدنی تیل برآمد ہونے لگا۔ روسی انقلاب کے بعد 31 جولائی 1918ء سے 28 اپریل 1920ء تک باکو آزاد مملکت آذربائیجان کا دار الحکومت رہا، پھر سرخ فوج نے اس پر قبضہ کر لیا۔ دسمبر 1991ء میں سقوط روس کے بعد باکو آزاد جمہوریہ آذربائیجان کا صدر مقام بن گیا۔

’’باکو‘‘ انمول عمارتوں کا شہر

زرتشت دور کی آتش گاہ

شہر سے تیس پینتیس کلو میٹر کے فا صلے پر زرتشت دور کی آتش گاہ تھی۔ پارسیوں (مجوسیوں) کا آتش کدہ باکو کے قریب آج بھی قائم ہے۔ مجوسی مذہب کے بانی زرتشت کا تعلق آذربائیجان ہی سے تھا۔ پتھروں اور کچی مٹی کی دیوار کے بڑے سے احاطے کے بیچ میں ایک نہایت سادہ سی اینٹوں کی چار دیواری ہے، جس میں چھوٹے سے پائپ کے سرے پرگیس کی ٹونٹی لگی ہے تاکہ شعلہ دائمی جلتا رہے لیکن آتش گاہ کے نگران کےمطابق آتش گاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا اس سے گیس کا بل ادا نہیں ہو سکتا تھا، اسی لیے انہوں نے آگ بجھا دی۔

میڈن ٹاور

قدیم اور تاریخی ٹاور میڈن کی تعمیر بارہویں صدی میں ہوئی۔ پتھر سے بنا یہ ٹاور ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ اس کی پانچ یا چھ منزلیں ہیں، یہ ٹاور اب بطور میوزیم استعمال ہوتا ہے۔ اس کا دروازہ لکڑی کا بناہوا تھا،جس کا ذکر اب صرف تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ اس کےگراؤنڈ فلور میں تاریخی نوادرات موجود ہیں۔ اس کی چھت سے کھڑے ہوکر ایک طرف جدید باکو کی بلندوبالا عمارتوں اور دوسری طرف کیسپین سی کو واضح دیکھا جاسکتا ہے۔

شروانشاہ

اندرونِ شہر دوسری قابلِ دید جگہ Shirvanshahs ہے۔پندرہویں اور سولہویں صدی میں تعمیر کیے گئے محل، دیوان خانے، مسجد، مدرسے اور دوسری عمارات کا خاصہ بڑاحصہ اس وقت خستہ حالت میں ہے۔ اگر شروانشاہ کا مقابلہ برصغیر کی مغلیہ عمارات یا غرناطہ کے الحمرا سے کیا جائے تو یہ نہایت سادہ سا محل ہے۔ اس کے محرابوں والے برآمدوں، دالانوں اور چھوٹی چھوٹی راہداریوں کو دیکھ کر مسلمان کے پرانے دور کے روایتی انداز تعمیر کا سراغ ملتا ہے۔ نقش و نگاری اور مینا کاری زیادہ تر وقت کی آندھیوں کے ساتھ اُڑچکی ہے۔2000ء میں یونیسکو نے اس مقام کو عالمی ورثہ (World Heritag Site) قرار دیا ہے۔

مینار شہدا

ایک جگہ جسے دیکھنے کی یاد دہانی ہر آذری کراتا ہے، وہ مینار شہدا ہے۔ یہ ساحل سے ذرا دور پہاڑی کے اوپران شہدا کا قبرستان ہے۔ جنہوں نے آرمینیا کی جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں سو سے اوپر وہ شہید بھی شامل ہیں، جو1990ء کی سوویت فوجی کارروائی میں جاں بحق ہوئے تھے۔ یہاں قبروں کی قطاروں کے بیچوں بیچ ایک سڑک مینار پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ ہر قبر کے کتبے پر مدفون کی تصویر لگی ہے۔ مینار ایک نہایت باوقار اور سادہ سی عمارت ہے، جس کے بیچوں بیچ شعلہ جل رہا ہے۔