جب بھٹو کا تختہ اُلٹا گیا

2022 ,جولائی 15



 پاکستان پیپلز پارٹی سال میں تین یوم سیاہ مناتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی، بے نظیر بھٹو کی شہادت اور جنرل ضیاء الحق کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے پر5جولائی کو یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے اقتدار کی بساط جنرل ضیاء الحق نے لپیٹی اور ان کو تختہ دار تک لے گئے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے دوتین روز قبل 5جولائی کو منائے گئے یوم سیاہ کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری اور پارٹی کے دیگر قائدین کی طرف سے اپنی تقریروں اور بیانات میں کہا گیاکہ آئینی حقوق کی فراہمی اور مظلوم و محروم طبقات کو زبان دینا ملک و ملت کے دشمنوں کو ہضم نہ ہوا۔ ملک میں انتہاء پسندی دہشت گردی فرقہ واریت کے بیج بو کر بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ بنا دیا گیا۔ بھٹو شہید کی دشمنی میں ملک کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا گیاء ملک میں انتہاء پسندی دہشت گردی آئین سے انحراف پارلیمنٹ کی بے توقیری 5جولائی 1977 کے شب خون کا نتیجہ ہے۔

 ذوالفقار علی بھٹونے عوام میں اپنی مقبولیت دیکھ کر حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل انتخابات کا اعلان کردیاتھا۔ اِدھر الیکشن کا اعلان ہوا، اُدھر قابل ذکر سیاسی جماعتیں پاکستان نیشنل الائنس کے نام سے متحد ہونے لگیں۔ یہ 9 جماعتیں تھیں جن میں تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام،جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی، مسلم لیگ قیوم،بلوچستان نیشنل پارٹی اہم تھیں۔انتخابات ہوئے جن میں بھٹو صاحب کی پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ پی این اے نے دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔ قومی اتحاد نے پیپلز پارٹی کے خلاف زوردار مہم چلائی، اسے تحریک نفاذِ نظامِ مصطفی کا نام دیا گیا۔ بھٹو بالآخر اپنی سربراہی میں ٹیم تشکیل دے کر مذاکرات پر آمادہ ہو گئے۔ مولانا کوثر نیازی اور حفیظ پیرزادہ بھٹو کیساتھ مذاکراتی ٹیم شامل تھے۔ پی این اے کی طرف سے ٹیم میں مولانا مفتی محمود،نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور پر مشتمل تھی۔ مذاکرات میں نشیب و فراز آتے رہے اور پھر4اور 5جولائی کی درمیانی شب ڈھائی بجے  جنرل ضیاء الحق کی طرف سے پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس رات کب کیا ہوا؟ اس حوالے سے کئی کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ ضیاء الحق کے  اعتماد کے  دعویدار جنرل فیض علی چشتی نے تو اس پر کتاب بھی تحریر کر دی۔جنرل ضیاء الحق کے ”کو“ کے ایک عینی شاہد بلکہ آپریشن میں حصہ لینے والے میجر(ر) نذیر احمد فاروق بھی ہیں۔ میری ان سے گزشتہ روز ایک بار پھر گفتگو ہوئی۔ جس میں انہوں نے کچھ انکشافات بھی کئے۔ نذیر احمد فاروق کے بقول جنرل فیض علی چشتی پر جنرل ضیاء بھروسا نہیں کرتے تھے۔ اس لئے ان کو آپریشن سے بے خبر اور لاتعلق رکھا گیا، یہ پنڈی کور کے کمانڈر تھے۔معروف زمانہ ٹرپل ون بریگیڈاسی کور کا حصہ ہے۔اسکے کمانڈربریگیڈیئر راحت لطیف تھے۔(وہ میجر جنرل ریٹائر ہوئے اور چند ماہ قبل کرونا میں مبتلا ہوکر وفات پاگئے)۔

جنرل ضیاء الحق نے جنرل چشتی کو آپریشن سے قبل نکیال سیکٹر میں بھارتی کارروائیوں پرضروری مشاورت کا کہہ کر آرمی ہاؤس بلالیا۔دورانِ گفتگو ابھی واپس آنے کا کہہ کر چلے گئے اوردوسرے کمرے میں بیٹھ کر آپریشن کی نگرانی کرتے رہے اور اس وقت باہر آئے جب بھٹو صاحب کو حراست میں لے لیا گیا۔ جنرل ضیاء کو شاید خدشہ تھا کہ فیض علی چشتی ان کے منصوبے کو فلاپ کر دیں گے۔ اس سارے  وقوعہ کے گواہ جنرل ضیاء کے چھوٹے صاحبزادے انوارالحق ہیں۔

نذیر احمد فاروق مزیدکہتے ہیں کہ آپریشن سے کچھ گھنٹے پہلے پرائم منسٹر ہاؤس کی سیکورٹی ملٹری پولیس کے حوالے کر دی گئی تھی اور انہیں مری سے  جی او سی میجر جنرل اختر عبدا لرحمان نے  ایک بجے شب فون کرکے بھجوایا تھا۔رات کے پچھلے پہرکرنل عابد علی حیدر(راولپنڈی میں کور یونٹ کے کمانڈنگ افسر)اور وہ وزیر اعظم ہاؤس داخل ہوئے۔ کرنل عابد نے بیل دی تووزیر اعظم بھٹو بیڈ روم سے باہر آئے۔ان کو بتایا گیا کہ انہیں فوج نے حراست میں لے لیاہے۔ جس کے بعد وہ بیڈ روم میں لوٹ گئے جبکہ ہم دو ڈھائی گھنٹے بعد واپس آئے۔اسی دوران دوسری طرف پی این اے کے چھ لیڈروں مفتی محمود، اصغر خان، پروفیسر غفور، شیر باز خان مزاری، نوابزادہ نصر اللہ اور شاہ احمد نورانی کو حفاظتی حراست میں لے کر چکلالہ فوجی میس میں لے جایا گیاتھا۔ بھٹو کے ساتھ مری کے سندھ ہاؤس پہنچائے جانیوالوں میں حفیظ پیرزادہ،مولاناکوثر نیازی، ٹکہ خان اور شیخ رشید شامل تھے۔ پی این اے کے لیڈرمری کے پنجاب ہاؤس رکھے گئے۔غلام مصطفی کھرہفتے بعد مری پہنچائے گئے۔مری میں فریقین کی لیڈر شپ کو بڑے احترام سے رکھا گیا۔بھٹو صاحب اور جنرل ضیاء الحق کے مابین تلخی کب اور کیوں ہوئی وہ ایک الگ داستان ہے۔اس کے کئی راوی ہیں۔ اتفاق سے نذیر احمد فاروق بھٹو صاحب اور ضیاء الحق کے مابین ہونے والی تلخ گفتگو کے بھی گواہ ہیں۔ اس روز بھٹو صاحب کا رویہ ا ن کو بادی النظرمیں پھانسی گھاٹ تک لے گیا۔

اردن کے پرنس حسن اگست 1977ء کو پاکستان آئے، جنرل ضیاء الحق نے ان کے اعزاز میں  عشائیہ کیلئے مری کے پر فضاء مقام کا انتخاب کیا۔ ضیاء صاحب سرِ شام مہمان کے ساتھ گورنر ہاس مری پہنچ گئے۔ اسی گورنر ہاؤس میں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے الگ کئے جانے کے بعدپانچ سے 28 جولائی تک رکھے گئے تھے۔ یہ 19 اگست 1977ء کی شام تھی۔ لاہور سے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اقبال نے ضیاء الحق کو فون پر اطلا ع دی کہ ذوالفقار علی بھٹو کے لاہور ایئر پورٹ پراستقبال کے لیے آنیوالوں نے مولانا شاہ احمد نورانی سے بدتمیزی کی ہے۔(ان کی پگڑی تارتارکردی گئی تھی) جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب سے بات کرنے کی کوشش کی جو لاہور میں نواب صادق حسین قریشی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ میجر نذیر جو مری میں ملٹر ی پولیس کی یونٹ کے آفیسر کمانڈر تھے وہ جنرل ضیاء کے اے ڈی سی میجر فیاض بشیر کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے فون سننے سے انکار کر دیا۔ایک بار، دوسری، تیسری حتیٰ کہ بار بار۔۔۔ اس پر ضیاء الحق کی برداشت جواب دے گئی۔ فوری طور پر قریب ہی واقع آرمی ہاؤس جانے کا قصد کیاتو ملٹری پولیس نے اسکارٹ کرکے وہاں پہنچا دیا۔اس اسکارٹ کی کمانڈ میرے (میجر نذیر) پاس تھی۔ضیاء صاحب نے یہاں آکر مغرب کی نماز ادا کی اورنواب صادق قریشی سے فون ملوا کر ذرا سختی سے بھٹو کو لائن پر لانے کو کہا۔ ضیاء صاحب کے کمرے کا دروازہ  کھلا تھا۔دوران گفتگو جنرل صاحب نے شدید غصے میں جو کہا وہ الفاظ میرے دماغ پر نقش ہوگئے۔

"Look Mr Bhutto, I am very very humble man but at the same time for such things, I can be very very harsh also-If this thing is repeated again, I will hold you resposible for it.

اسکے ساتھ ہی انہوں نے فون پٹخ کر رکھ دیا۔" یہ فون کیا پٹخا گویا بھٹوکوتختہ دارپر کھڑا کردیاگیا۔

متعلقہ خبریں