کرسی یا جائیداد ؟؟؟ فیصلہ تم خود کر لو

المیہ یہ نہیں ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کا منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا ۔ المیہ یہ ہوا کہ اسے عدالت نے کرپشن پر سزا نہیں دی ۔ عدالت نے یہ نہیں کہا کہ وزیر اعظم کرپٹ ہے لہذا اس کی جائیداد نیلام کی جائے اور رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے ۔ عدالت پانامہ کا کیس سن رہی تھی ۔ جے آئی ٹی بھی پانامہ پر تحقیقات کر رہی تھی ۔ عوام کو بتایا جا رہا تھا کہ وزیر اعظم اور اس کا خاندان چور ہے اور اب عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہی عام پاکستانیوں کا پیسہ واپس قومی خزانے میں آ جائے گا لیکن عدالت نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔ کرپشن ، منی لانڈرنگ ، لندن فلیٹ ، پانامہ ، آف شور کمپنیاں اور دیگر معاملات پر پہلے عدالت کی کارروائی چلی ،پھر فیصلہ محفوظ ہوا ، پھر فیصلہ آیا تو کہا گیا کہ مزید تحقیقات کی جائیں اور جے ۤآئی ٹی بنی ، جے ۤآئی ٹی نے اپنی کارروائی کی اور رپورٹ جمع کروا دی ، اس کے بعد پھر فیصلہ محفوظ ہوا اور اب عدالت نے ان سب معاملات میں اپنا فیصلہ نہیں دیا بلکہ 6 ہفتے میں نیب کو ریفرنس تیار کرنے اور اگلے 6 ماہ میں نیب عدالت کو فیصلہ سنانے کا کہہ دیا۔ عدالت نے شریف خاندان کی کرپشن پر ایسا کوئی فیصلہ سرے سے دیا ہی نہیں جس کا فائدہ عام شہری کو ہوتا ۔ اس کے برعکس نواز شریف کو آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دیا ۔ یہ وہ آرٹیکل ہے جس کے تحت آپ کسی بھی سیاست دان کو نا اہل قرار دے سکتے ہیں ۔عمران خان بھی ماضی میں اس آرٹیکل کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ یہاں کونسا ایسا سیاست دان ہے جس نے بیان نہ بدلا ہو ؟ عمران خان تک کو یوٹرن خان کہا جاتا رہا ہے ۔ آپ دو متضاد بیانات کے بل پر کہہ سکتے ہیں کہ فلاں سیاست دان صادق نہیں رہا لہذا آرٹیکل 62 کے تحت اسے نا اہل قرار دیا جاتا ہے ۔ کاش عدالت وزیر اعظم کو کرپشن کی سزا دے کر نا اہل کرتی تو وہ سب نہ ہوتا جو اب ہونے جا رہا ہے ۔ فیصلے کی گرد بیٹھے گی تو ن لیگ پہلا تاثیر یہی دے گی کہ وزیر اعظم کو اسٹیبلشمنٹ نے سزا دی ہے اور کرپشن ثابت کرنے میں ناکام ہونے پر آرٹیکل 62 لگایا ہے ۔ 2018 مہیں انتخابات ہیں ۔ ان انتخابات میں بھی شریف خاندان کو مظلوم خاندان کے طور پر ظاہر کیا جائے گا ۔ تب تک کئی اور کہانیاں بھی کھل گئی ہوں گی ۔ شریف خاندان نعرہ لگائے گا کہ تین بار ہماری تلاشی ہوئی لیکن ہم پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ہم تو عدالت اور جے ۤآئی ٹی میں پیش ہوتے رہے کہ کہیں کرپشن کی ہے تو بتائو لیکن عدالت جے آئی ٹی بنانے کے باوجود کرپشن ثابت نہیں کر سکی ۔ نواز شریف الیکشن نہ لڑ سکے تب بھی وہ یا تو کلشوم نواز کو انتخابات میں آگے کر دیں گے یا پھر شہباز شریف کو مرکز اور حمزہ کو پنجاب میں لڑایا جائے گا ۔ یہ خاندان پارٹی قیادت اپنے ہاتھ میں رکھے گا ۔ سی پیک سمیت دیگر منصوبوں کو اپنے عدالتی مارشل لا کی وجہ بتائے گا ۔ اب ایک ہی سورت ہے ۔ یا تو عدالت اپنی ساکھ بچانے کے لئے نیب کے ذریعے شریف خاندان کی کرپشن کو واضح کر کے کرپشن کی بنیاد پر سزا سنائے اور اثاثے ضبط کر کے قومی خزانے میں جمع کروا دے ۔ اگر آرٹیکل 62 ہی رہا اور کرپشن والا معاملہ لٹک گیا تو یہ شریف خاندان کو اگلے انتخابات میں مزید مضبوط کر دے گا ۔ شریف خاندان نے ویسے ہی اس بار کرسی اور جائیداد میں سے جائیداد کا انتخاب کر لیا ہے ۔ اور عدالتی فیصلے کے بعد ترجمان کے ذریعے انتہائی سکون سے بیان جاری کر دیا کہ وزیر اعظم نے عہدہ چھوڑ دیا ہے ۔ اگر آپ تحریک انصاف کے کارکن ہیں تو شاید نااہلی یا عہدے سے ہٹا کافی سمجھیں لیکن اگر آپ پاکستان کا سوچ رہے ہیں تو اب اس سزا کے بعد قانون کے لئے عدالتی کردار کی جسٹیفیکیشن ضروری ہو گئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس فیصلہ کی مدد سے صرف چہرہ بدلا گیا ہے یا قوم کی رقم واپس لائی گئی ہے ۔ سہیل وڑائچ یاد آتے ہیں جنہوں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اگر سب کچھ سکرپٹ کے مطابق چلتا رہا تو جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں نواز شریف کی گیم اور ہو جائے گی۔ سر احتساب ایک الگ چیز ہے ۔ احتساب کا معاملہ قومی خزانے اور عام شہریوں کی فلاح سے جڑا ہے لیکن اگر صرف سکرپٹ پر عمل کیا گیا ہے تو پھر قومی خزانے کو بھول جائیں ۔ اگر یاد دلائوں تو ناراض نہ ہوں کہ اسی سپریم کورٹ نے گیلانی صاحب کو گھر بھیجا تھا اور زرداری نے راجہ اشرف کو ان کی جگہ ہم پر نافذ کر دیا تھا ۔ چہرہ تب بھی بدلا تھا لیکن اسی ڈیل پر کہ لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں نہیں لائی گئی ۔تب تبدیلی کیا آئی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سید بدر سعید)