نیکی،صلہ،ظرف،اقدار

2017 ,مئی 24

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



منزل ابھی دور تھی‘ مسافروں کو رات راستے میں پڑ گئی۔ بستی سے گزرتے ہوئے یہیں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ صرف ایک چارپائی کی ضرورت تھی۔ ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔ نوجوان نے دروازہ کھول کر پوچھا،ہاں بتائو کیا بات ہے؟۔ مسافروں نے مدعا بیان کیا۔ نوجوان نے بڑی سادگی سے کہا ہمارے گھر میں دو ہی چارپائیاں ہیں۔ ایک میرے اور امی کے پاس‘ دوسری ابا اور میری بیوی کے پاس ہے۔ یہ سن کر دونوں مسافر حیران ہوئے اور نوجوان سے کہا بھولے بادشاہ ہمیں چارپائی دو یا نہ دو اپنی "سونی" (سونے کا طریقہ) تو درست کر لو۔
ایک ہوٹل میں ایک جوڑا ٹھہرا اگلے روز چیک آئوٹ کیا‘ بل دیکھ کر حیرانی ہوئی جس میں 10 ڈالر سوئمنگ پول کے بھی شامل تھے۔ جوڑے نے کہا ہم نے تو پول استعمال ہی نہیں کیا‘ منیجر نے کہا آپ نے استعمال کیا یا نہیں کیا‘ موجود تو تھا۔ مہمان نے نہلے پہ دہلا مارا کہا میری بیوی سے ”گپ شپ“ کے چارجز 15 ڈالر ہیں۔ منیجر نے کہا ہم نے تو ایک بات بھی نہیں کی۔ جواب وہی تھا، موجود تھی، کر لیتے۔ اس نے بل میں سے پندرہ ڈالر منہا کرا لئے اور پھر وطیرہ بنا لیا کسی بھی ہوٹل سے رخصتی کے وقت 15 بیس ڈالر گپ شپ پیکیج۔۔۔ اس سلسلے کا اختتام حیران کن طور پر ہوا۔ ایک ہوٹل منیجر کو بل جمع کراتے ہوئے وہی بات کی تو منیجر نے رقم اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، یہ ریٹ تو بہت کم ہے، میں 100 ڈالر سمجھ رہا تھا۔
نیویارک کے مضافات میں ایک چھوٹی سی آبادی مکین مزدور اور کسان ہیں۔ بستی میں ایک ہی دس کمروں پر مشتمل ہوٹل ہے۔ ایک رات طوفانِ بادوباراں امڈ آیا۔اوپر سے سردی نے موسم کو قیامت خیز بنا دیا۔موسم کی شدت میں ایک عمر رسیدہ جوڑا سڑک کے کنارے پریشان حال اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا۔ طوفانی بارش میں گاڑی کا چلانا جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔ خاتون نے سٹیرنگ پر بیٹھے خاوند کو مشورہ دیا کہ بارش رات بھر تھمنے والی نہیں ہے کیوں نہ یہاں واقع کسی ہوٹل میں قیام کر لیا جائے۔ اس مختصر گفتگو کے بعد گاڑی آگے بڑھی اور چند لمحوں کے بعد وہ لوگ مقامی اکلوتے ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑے تھے۔ کاﺅنٹر پرخوبرو ملازم نے روایتی خوش گفتاری سے خوش آمدید کہا۔معمر شخص نے ایک کمرے کے حصول کی بات کی تو ملازم نے مودبانہ انداز میں معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ہاں کل دس کمرے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی دستیاب نہیں۔ دراصل مزدوروں کی اس بستی میں ساہوکار لوگ ملازموں کی تلاش میں آتے ہیں آج موسم شدید ہے تو کئی لوگوں نے اپنی واپسی کا ارادہ ملتوی کرکے قیام کرنا مناسب سمجھا۔اس جوڑے کے ماتھے کی تفکر کی شکنیں ا±بھریںیقینا وہ سوچنے لگے رات گاڑی میں گزارنے کے سواچارہ نہیںاور اس سردی اور طوفان میں رات خیر خیریت سے نہیں گزر سکتی۔انکے سامنے موت کے سائے مزید گہرے ہوگئے۔ اُدھر بادلوں کی گھن گرج نے خوف کی کیفیت کو اور نمایاں کر دیا۔ کاﺅنٹر کے پار کھڑا نوجوان انکی پریشانی کو سمجھ چکا تھا۔ابھی جوڑے نے واپسی کا قصد کرتے ہوئے پیچھے مُڑ کر ایک قدم اُٹھایا ہی تھا کہ نوجوان گویا ہوا ”معزز مہمانوں! اگر آپ کو گراں نہ گزرے تو میرے کمرے میں آپ آج کی رات گزار لیںگو وہ آپکے سٹینڈرڈ کا نہیں ہے۔ بوڑھے شخص نے یہ کہتے ہوئے تذبذب کا اظہار کیا کہ ”آپ کو پریشانی ہوگی“اس کیساتھ ہی نوجوان نے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔اس کا چھوٹا سا کمرہ ہوٹل سے متصل تھا۔ کمرے میں جا کر اس نے بیڈ شیٹ تبدیل کی اور دھلے ہوئے کمبل نکال کر دیدئیے اور گڈنائٹ کہہ کر اپنی ڈیوٹی والی جگہ آگیا۔کمرہ ہیٹر سے چند منٹوں میں گرم ہوگیا۔جس سے ان کے جسموں میں زندگی کی حرارت دوڑگئی اور چندمنٹ میں نوجوان ملازم گرم گرم کافی کے دو مگ اور ساتھ میں کچھ سنیکس لے کرآگیا۔میاں بیوی کیلئے یہ ایک نئی زندگی کی نوید تھی۔ صبح ہوئی تو بادل چھٹ چکے تھے جوڑے نے استقبالیہ پر اس نوجوان سے رات کے قیام کا بل مانگا اور ساتھ ہی یہ نوٹ بھی کیا کہ اس ملازم کی آنکھیں رات بھر جاگنے کی وجہ سے قدرے سوجی ہوئی ہیں۔ نوجوان نے بل دینے سے معذرت کرتے ہوئے یہ کہا کہ رات آپ میرے مہمان تھے اس ہوٹل کے نہیں لہٰذا آپ اسے میری میزبانی سمجھ کر شکریہ کا موقع دیں۔ وہ ان کوگاڑی تک چھوڑنے آیا۔ تب اس شخص نے مڑ کر اس ملازم کو گلے لگایا اور کہا کہ ایک دن تم ایک بڑے ہوٹل کے جنرل منیجر بنوگے۔ اس واقعہ کو دو برس بیت گئے۔ ایک سہ پہر پوسٹ مین نے اسکے نام کا ایک ٹیلی گرام اسے وصول کروایا۔جس میں لکھا تھا کہ ”آپ فوری طور پر نیویارک پہنچیں۔“ دی ولڈرف آسٹرویو ہوٹل کی انتظامیہ آپکی منتظر ہے۔ نوجوان اگلی ہی صبح نیویارک روانہ ہو گیا۔ جب وہ ہوٹل کے مین گیٹ پر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ اس کا استقبال اسی جوڑے نے کیا جنہوں نے جان کنی کے عالم میںاسکے چھوٹے سے کمرے میں رات گزاری تھی۔یہ 45 منزلہ ہوٹل تھا۔ اسے ہار پہنائے گئے اور تالیوں کی گونج میں اسے اسکے کمرے تک پہنچایا گیا۔ کمرے کے باہر اسکے نام کی پلیٹ کے ساتھ جنرل مینیجر کے الفاظ کنندہ تھے۔ اس ہوٹل کا مالک وہی بوڑھا شخص تھا جس نے دو برس پہلے اس نوجوان کی مہمان نوازی کا لطف ا±ٹھایا اور ایک طوفانی رات وہاں قیام کیا تھا۔ بوڑھے شخص کا نام ولیم ولڈرف آسٹریو تھا اور جس صبح وہ واپس نیویارک پہنچا تھا اس نے اس دن اپنے ہوٹل کی عالیشان عمارت کی تعمیر شروع کروا دی تھی۔ دو برس کے بعد جب یہ پروجیکٹ تکمیل تک پہنچا تو اس نوجوان ملازم کو جنرل منیجر بنا کر اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ اس نوجوان کا نام جارج بولٹ تھا، جو اس عظیم الشان ہوٹل کا جنرل منیجر مقرر ہوا۔ اخلاقی قدروں کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔ ان کا ایسا صلہ بھی مل سکتا ہے۔ (ترجمہ : عبدالستار ہاشمی)
جاوید شیخ کو انڈیا میں شاہ رخ خان کی فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ جاوید شیخ سے معاوضہ پوچھا گیا تو کہا ،پیسوں کی ضرورت نہیں۔ مگر معاہدے میں معاوضہ لکھناقانونی ضرورت تھی۔ جاوید شیخ نے کہا اگر ضروری ہے تو ایک روپیہ لکھ دیں۔ یہ جاوید شیخ کا ظرف تھا۔ایسا ہی ہوا تاہم جب جاوید شیخ کا کام ختم ہوا تو انہیں معاہدے کے تحت ایک روپے کا چیک دیا جانا تھا۔ جاوید شیخ کہتے ہیں انہیں جو چیک دیا گیا اس میں اتنی رقم درج تھی جو میں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری سے مجموعی طور پر بھی نہیں کمائی تھی۔یہ شاہ رخ خان کی اعلیٰ ظرفی تھی۔
نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ آپ کسی سے نیکی کرتے ہیں تو اس کا کسی نہ کسی صورت میں صلہ ضرور ملتا ہے۔ اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں بھی۔ اگلی دنیا میں جو صلہ یا جزا ملتی ہے اس پر ہمیں بن دیکھے ایمان لانا ہوتا ہے تاہم اس واقعہ میں ناقابل یقین درس موجود ہے۔ یہ واقعہ رئیس امروہوی کی کتاب عالمِ برزخ میں درج ہے۔
غلام رسول، کالج چوک راولپنڈی، لکھتے ہیں
 ہمارا گاﺅں پنڈی سے شمال و مغرب میں بیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
مستری ادھیڑ عمر میں فوت ہو گیا تھا گاﺅں کے لوگ اکٹھے ہوئے مستری کے اعزاءبھی جمع ہوئے عورتیں رونے دھونے میں مصروف تھیں جب غسل کی تیاری کی جا رہی تھی تو مردہ اٹھ کر بیٹھ گیا کلمہ طیبہ پڑھا وصیت کی، لیٹ گیا اور پھر نہ اٹھا۔ دوبارہ موت وارد ہونے سے پہلے اس مستری نے جو کچھ کہا تھا اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ میرا مال و اسباب اس گھر میں موجود ہے وہ سب خدا کے نام پر بانٹ دو۔ میری بیوی اور بچوں کیلئے اس گھر میں کچھ نہیں ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ تو اس نے کہا میں اگلے جہاں سے صرف وصیت کرنے واپس آیا ہوں وہاں سب لوگ اچھے اچھے کھانے پھل اور میوہ جات کھا رہے تھے جب مجھے بھوک لگی تو مجھے باسی لسی پینے کو ملی۔ جس میں چیونٹیاں پڑی ہوئی تھیں۔ جب میں نے شکوہ کیا کہ میرے لئے صرف کھٹی (ترش) لسی رہ گئی ہے حالانکہ لوگ بڑے اچھے اچھے کھانے کھا رہے ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ توجواب ملا کہ تم نے ساری زندگی میں صرف یہی چیز (لسی) اللہ کی راہ میں دی تھی۔ لہٰذا یہی چیز تمہیں ملی۔(عالم برزخ صفحہ150)

 

 

متعلقہ خبریں