کلبھوشن کے لیے نرم گوشہ۔۔۔۔۔۔ بیمار ذہنیت

فضل حسین اعوان
شفق
awan368@yahoo.com

آ ئیے ذرا 1989 ء میں چلتے ہیں۔ پنجاب میں میاں نوازشریف وزیراعلیٰ ،مرکز میں بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ان دنوں اتفاق فاﺅنڈری کیلئے سکریپ لانے والے جہاز کو بینظیر حکومت کے کراچی بندرگاہ پر اس شپمنٹ کیلئے درکار ضروری ڈاکومنٹیشن دستیاب نہ ہونے پرکسٹم حکام نے روک لیا۔ یہ جہازکئی ماہ بندرگاہ پر لنگر انداز رہا۔ اس دوران ہر روزقومی اخبارات میں پانچ بائی آٹھ انچ کا اشتہار فرنٹ پیج پر چھپتا رہاجس کا مقصدبینظیر کے ظلم اور اپنی مظلومیت کااظہار اورپرچار تھا۔کہا جاتا ہے کہ اشتہارات کی ادائیگی پنجاب حکومت کے کھاتے سے ہوتی رہی۔اسے الزام برائے الزام کہا جاسکتا ہے۔جب مطلوبہ ڈاکومنٹس پیش کردیئے گئے تو بینظیر حکومت نے سکریپ کی لاہور منتقلی کیلئے مال گاڑی دینے سے انکار کردیاتھا۔ میاں نواز شریف کو بینظیر کے اس اقدام سے جتنا مالی نقصان ہوا اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ سیاسی فائدہ بھی ہوا جو میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عظیم منصب تک لے گیا۔جس جہاز کو کراچی پورٹ پر کئی ماہ روکے رکھاگیا اس کانام جو ناتھن تھا مگر آج اس جوناتھن پر اتنا ہی ہم جوناتھن لوپارڈ کی بات کریں گے۔ جوناتھن لوپارڈ امریکہ میں پیدا ہوا وہیں سرکاری ملازم تھا اسے اسرائیل کیلئے جاسوسی کے الزام میں 21 نومبر 1985ءکو گرفتار کیا گیا۔ امریکی قوانین کے مطابق اس پر مقدمہ چلا اور مارچ 1987ءکو اسے عمر قیدکی سزا سنا دی گئی۔ اس نے اسرائیل کو امریکی راز فراہم کئے تھے۔ اس نے ایسے لوگوں کی فہرست بھی اسرائیل تک پہنچائی جو امریکی انٹیلی جنس سے تعاون اوراس کے لئے کام کرتے تھے۔ ان افراد میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ اسرائیل نے اپنے وفادار اور اس کے مادر وطن کے غدار کی رہائی کیلئے ہر حربہ آزمایا اسے اسرائیل کی شہریت بھی دیدی گئی۔ یہ بھی کہا کہ وہ بقیہ سزا اسرائیل کی جیل میں کاٹ لے گا مگر امریکہ نے اپنے بغل بچے کی کوئی پیشکش قبول نہ کی اس کا باپ بیمار ہوا مگر بیمار پرسی کی اجازت نہیں دی گئی بات فوت ہوا تو بھی امریکہ کا جذبہ انسانیت ہمارے حکمران طبقے کی طرح نہ جاگ سکا۔ جوناتھن کے بدلے روس میں قید امریکی جاسوس کو رہا کرانے ،اسرائیل میں قید کلنگ برگ نامی جاسوس کو رہا کرنے کی پیشکش ہوئی۔ یوسف امیت نامی اسرائیلی فوجی کو امریکہ کی جاسوسی کے الزام میں 12 سال کی سزا سے رہا کرنے کی آفر کی۔ نوٹرڈیم یونیورسٹی کے بااثر سابق صدر اور پولارڈ فیملی کے دوست تھیوڈرہیس برگ نے کوشش کی کہ جوناتھن اسرائیل نہیں جائے گا اور امریکی شہریت بھی ترک کردے گا، کسی تیسرے ملک مثلاً فرانس میں چلا جائے گا لیکن اس تمام عرصہ میں امریکہ میں بدلتی حکومتوں نے امریکہ اسرائیل اتحاد و تعلقات کے باوجودکسی ایک آفر کو بھی منظور نہیں کیا۔امریکہ نے فقط یہ احسان کیا کہ 2002 ءمیں اسرائیلی موجودہ وزیراعظم کو امریکہ کی جیل جاکر جوناتھن پولارڈ سے عام قواعد و ضوابط کے مطابق ملاقات کی اجازت دیدی۔ 2015ءمیں جوناتھن پولارڈ کی عمر قید کی سزا ختم ہو گئی تو اسے پے رول پر رہا کر دیا گیا۔ قانون کے مطابق اسے رہائی کے بعد پانچ سال سے قبل ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں۔ پولارڈ نے اسرائیل کے لئےجاسوسی ضرور کی مگر اس کے اقدام سے امریکہ میں کوئی کلنگ نہیں ہوئی کوئی دھماکہ اور دنگافساد نہیں ہوا۔ کلبھوشن یادیو ہزاروں افراد کو قتل اور دھماکوں میں گھائل کرنے کا ذمہ دار ہے اس نے اپنے سنگین جرائم کا اعتراف کیا۔ کلبھوشن نے ایک بار پھر اپنے جرائم کا اعتراف اس وقت کیا جب اس کی والدہ اور بیوی اسے ملنے آئی تھی ۔ کلبھوشن کی ان سے ملاقات خصوصی طور پر تیار کرائے گئے کنٹینر میں کرائی گئی جس کے تین کیبن بنائے گئے تھے شیشے کی دیواروں سے بنے ایک کیبن میں کلبھوشن، دوسرے میں اس کی والدہ اور بیوی جبکہ تیسرے میں بھارتی ہائی کمشنر اوردفتر خارجہ کی عہدیرا فارحہ تھے۔ ایسی ملاقات کی اب تک کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی کلبھوشن کا اپنی ماں اور بیوی کا براہ راست نہیں انٹر کام کے ذریعے رابطہ تھا۔ وزارت خارجہ میں رکھے کنٹینر میں ملاقات کا اہتمام بڑی سوجھ بوجھ سے بعد کیا گیا۔ شیشے کے کیبن بناکر ملاقات کا تصور کسی کے سان گمان میں بھی نہیں تھا مگر انٹیلی ادارے بھارت کی فطرت خبیثہ سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ کلبھوشن کی اہلیہ ہاتھ میں ایک بوتل بھی اٹھائے پھرتی تھی یہ سر پر بال اگانے والا کوئی لوشن تو نہیں ہو سکتا۔ اس کے مشکوک جوتے اتروائے گئے جس میں میٹل چپ لگی ہوئی تھی براہ راست ملاقات ہوئی تو کوئی تماشہ ہو سکتا تھا کوئی انہونی ہو سکتی تھی۔سلو یا فاسٹ پوائزننگ کی جاسکتی تھی ایسا آ ج کے جدید دور میں ممکن ہے۔کلبھوشن اس وقت پھڑک کے گر جاتا یا سلو پوائزننگ سے سے دھیرے دھیرے اوپر چلا جاتا تو آج غیر انسانی طریقے سے انسانیت کا کہرام مچانے والا بھارت دنیا میں پاکستان کیخلاف طوفان اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا۔ا یسے خدشات کے پیش نظر کیبن بنائے گئے اور وزارت خارجہ کے آفس کے باہر کی سڑکیں بھی بند کر دی گئیں ۔ مہمان خواتین کا لباس بھی سکیورٹی وجوہات پر تبدیل کرایا گیا۔ کلبھوشن کے ملاقات سے قبل ریکارڈ کیا گیا بیان ملاقات کے بعد جاری کیا گیا جس میں اس نے کہا کہ ”میں نے پاکستانی حکام سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر میں، کام کا شکر گزار ہوں۔ حکومت پاکستان نے کلبھوشن سے اس کی والدہ اور بیوی کی ملاقات بظاہر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کرائی ہو سکتا جندل کی دوستی اس ملاقات کی وجہ بنی ہو۔ مودی اور جیدل کسی کے ذاتی دوست ہو سکتے ہیں مگر وہ اول و آخر پاکستان کے دشمن ہیں۔ ان لوگوں سے انسانی ہمدردی کیسی جن کے قریب سے انسانیت ہی نہ گزری ہو۔ بھارت کی انسانیت دیکھ لی گئی ہے،عام پاکستانیوں کو بھارت میں بلا وجہ قید کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جرم صرف پاکستان سے نفرت ہے،جب یہ لوگ قیدیوں کے تبادلے میں واپس آتے ہیں تو اکثر کے اعضا سلامت نہیں ہوتے،ذہنی مریض تو سب کو بنا دیا جاتا ہے۔اس ظالم کو انسانیت سے کیا واسطہ؟ ایک باز کو شکاری کی گولی لگی وہ دور جاکر گرا جہاں اسے ہرن نے دیکھ کر جھاڑیوں میں چھپا دیا،باز اس پر ہرن کا بڑا ممنون ہوا،ہرن نے کہا یہ میرا تم پر احسان تھا تو بھی کسی کی اسی طرح جان بچا کر احسان کرنیکی کوشش کرنا۔ایک روز باز شکار کی تلاش میں تھاشکار تو نظر نہ آیا لیکن باز کی نظر دریا میں ڈوبتے ہوئے ایک چوہے پر پڑ گئی ، باز ، کو ہرن کی احسان کرنے والی بات یاد آگئی وہ احسان کرنے کے لئے زمین کی طرف آیااور چوہے کو پانی سے نکالا۔چوہا سردی سے تھر تھر کانپ رہا تھا بازنے اسے اپنے پروں میں چھپا کر سردی سے بچانے کی کوشش کی۔’’ مودی ‘‘کو ہوش آیا تو اس نے باز کے پر کاٹنے شروع کردیئے۔تھوڑی دیر بعد باز نے اڑنے کی کوشش کی تو پر کٹ چکے تھے،ہرن سے ملاقات ہوئی توباز نے احسان کا واقعہ اور جو خمیازہ بھگتا سارا ماجرا کہہ سنایا۔ ہرن نے جواب دیا احسان بھی ذات اور نسل کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ حکام کا کلبھوشن کیلئے جو جذبہ ترحم نظر آیا اور جس طرح دفتر خارجہ نے کہا کہ کلبھوشن کو پھانسی پاکستان کے مفاد میں نہیں،جو کچھ کلبھوشن نے کیا وہ پاکستان کے مفاد میں تھا؟؟؟،اس کے ساتھ کیا کرنا ہے ان لوگوں سے بھی پوچھ لیں جن کے پیارے کلبھوشن کی دشتشگردی کا نشانہ بنے۔۔وزیرخارجہ کہتے ہیں اسے قونصلر رسائی دینگے یہی وزیرصاحب کلبھوشن کے خالد خراسانی کے ساتھ کلبھوشن کے تبادلے کا افغانستان کا پیغام قوم کو. سنا چکے ہیں اس سے لگتا ہے کہ حکومت کیلئے کلبھوشن کسی دبائولالچ یا یاری دوستی کے باعث چھچھوندر بن گیا ہے۔کلبھوشن مودی۔جندل اور سشما سمیت شدت پسند ہندوئوں کا کشمیر سنگھ کی طرح ہیروہے۔ کلبھوشن کیلئے نرم گوشہ جندل مودی یار،بیمار اور چمارذہنیت کا شاخسانہ ہو سکتا ہے مگروہ ہمارے لئے دہشتگرد اور ستمگر ہے،اس کیساتھ وہی کیا جائے جس کا وہ حقدار ہے۔عالمی عدالت میں بھی اس کیساتھ نرمی نہ دکھائی جائے جیسا کچھ کاروباری لوگوں کی خواہش نظرآرہی ہے جس کا اظہار بھارت نواز وکیل کی خدمات حاصل کرکے پہلے بھی کیا جاچکا ہے۔جب ہمارے وکیل نے عالمی عدالت میں نونے منٹ اپنے موقف کے حق میں دلائل دینا ناممکن ہوگیا اور پچاس منٹ میں ہاتھ کھڑے کردیئے۔