2017 ,جون 21
کاندید نے نواب کی بیٹی کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت کے جذبات دیکھ کر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، جوگوئندے نے والہانہ انداز میں تھام لیا مگر محبت کے پہلے زینے سے انکی ناکامی اور تنہائی کا سفر شروع ہو گیا۔ گوئندے کی ماں نے چلمن سے یہ تماشا دیکھا اور دونوں کو تماشا بنا دیا۔ بات نواب تک پہنچی تو کاندید کو لاتیں اور گھونسے مار کے محل سے نکال دیا۔ وہ ایک سے دوسرے ملک مارا مارا پھرتا رہا۔ ایک ملک میں اسے دشمن سمجھ کر سزائے موت سنا دی گئی۔ اسکے سامنے آپشن رکھی گئی کہ اسکے سر میں گولیوں سے سوراخ کر دیئے جائیں یا میدان میں دائرے میں کھڑے ڈنڈا بردار فوجیوں کے سامنے سے گزرے اور انکے ڈنڈوں سے مرنا پسند کرے۔ دوسرے آپشن میں زندگی کی موہوم سی امید تھی۔ فوجیوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ ڈنڈے پر ڈنڈا برسنے لگا۔ پہلے یہ فوجیوں کے سامنے سے گزر رہا تھا جب زخموں سے چور ہو کر گر پڑا تو فوجی اس پر ڈنڈے برسا کر گزرنے لگے۔ یہ تشدد اور تکلیف ناقابل برداشت ہوئی تو کاندید نے کہا مجھے پہلا آپشن قبول ہے۔ میرے سر میں بارود اتار دیا جائے۔ اس سزا پر عمل کا فوراً فیصلہ ہو گیا۔ فائرنگ سکواڈ نے نشانہ باندھا اور عین اس موقع پر قریب سے بادشاہ کا گزر ہوا، اس نے کاندید کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کا علاج معالجہ ہوا اور وہ صحت یاب ہو گیا۔ اگلے ملک میں اسکی ملاقات اپنے استاد اور اس محل کے مذہبی پیشوا پانگلوس سے ہو گئی جہاںسے کاندید کو نکالا گیا تھا۔ اس دانشور کو کاندید کی آنکھوں کے سامنے پھانسی دے دی گئی اس سے قبل وہ اسے آگاہ کر چکا تھاکہ محل پر دشمن نے حملہ کر دیا، گوئندے کی ماں، باپ، بھائیوں اور دوسرے لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ گوئندے کو قتل سے قبل زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
حیران کن طور پر گوئندے اور کاندید ایک تیسرے ملک میں مل جاتے ہیں۔ گوئندے اسے بتاتی ہے کہ دشمن کی فوج نے اس کا پیٹ کاٹ ڈالا تھا وہ اپنی طرف سے مجھے ہلاک کر چکے تھے تاہم اسکے سانس باقی تھے اور نئے آنیوالے فوجیوں نے اس کا علاج کرایا۔ گوئندے کو ایک ملک کا رئیس اور راہب بیک وقت پسند کرتے ہیں اور دونوں اسکے ساتھ شادی کر کے ہفتے کے دن بانٹ لیتے ہیں۔ کاندید دونوں کو قتل کرکے اسے لے کر فرار ہو جاتا ہے۔ گوئندے کو اسکی حیثیت کے مطابق ایک خادمہ دی گئی تھی جو اسکی انتہائی وفادار تھی۔ اس ملک سے بھاگتے ہوئے یہ ملازمہ بھی انکے ساتھ ہو لی تھی۔ اگلے ملک میں کاندید کو فوج میں کیپٹن بھرتی کرکے، اسکی تعیناتی دور دراز علاقے میں کر دی گئی۔ جہاں کئی دن کی سمندری مسافت سے پہنچنا تھا۔ جہاز میں دیگر مسافر بھی تھے۔ سفر کی اکتاہٹ کم کرنے کیلئے مسافروں نے کہا کہ ہر کوئی اپنا اپنا دکھ بیان کرے۔ گوئندے کی کنیز نے کہا کہ اسکی زندگی سب سے زیادہ عبرت کا نشان ہے۔ اسے کم از کم کاندید اور گوئندے نے غیر سنجیدگی سے لیا۔ یہ کنیز ان دونوں کی زندگی کے مصائب سے آگاہ تھی تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اپنے مصائب بیان تو کرے۔ وہ کہتی ہے ’’میں پولینڈ کی شہزادی تھی۔ میری شادی ہو رہی تھی۔ دلہا بھی شہزادہ تھا مگر مجھے کوئی اور پسند کرتا تھا وہ عین شادی کے موقع پر مجھے وہاں سے زبردستی اٹھا کے لے گیا۔ ہم جنگلوں بیابانوں میں بھٹکتے ہوئے رہزنوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ وہ زبردستی کرتے رہے۔ پھر سمندری قزاقوں کے ہاتھ بیچ دیا۔ وہاں بھی ستم ڈھایا جاتا رہا۔ میں کئی بار بکی اور ہر بار لٹتی رہی۔ بالآخر ایک فوجی دستے کے ہتھے چڑھ گئی۔ یہ فوج ایک قلعہ میں تھی اسکی فتوحات کا پہلے سلسلہ رکا پھر شکست ہونے لگی تو فوج کو قلعہ میں محصور ہونا پڑا۔ حملوں میں بہت سے فوجی مارے گئے صرف دس فوجی، 4 خواجہ سرا، ایک مذہبی پیشوا اور ہم دو لڑکیاں رہ گئیں۔ انکے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا تو فوجی خواجہ سرائوں کو باری باری ذبح کرکے کھا گئے۔ اب ہم دو لڑکیاں بچی تھیں فیصلہ کیا گیا کہ اب ان کو ذبح کیا جائے۔ مذہبی پیشوا نے ان کو صلہ رحمی کا درس دیا اور ہمدردی سے کام لینے کو کہا اور قائل بھی کر لیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ لڑکیوں کو ذبح کرکے کھانے کی بجائے انکے جسم کے حصے کاٹ کر کھائے جائیں ہو سکتا ہے اس دوران کوئی سبیل نکل آئے اور یہ بچ جائیں۔ اسکے بعد انہوں نے ہم دونوں کا ایک ایک کولہا کاٹ لیا۔ دوسرے کولہے اور جسم کے باقی حصوں کی باری آنے سے قبل وہاں دشمن کی فوج آن پہنچی جس نے ان سب فوجیوں کو قتل کرکے ہمیں ساتھ لیا اور علاج کرا لیا۔ میں اب آپ کے سامنے ایک کولہے کے ساتھ موجود ہوں‘‘۔ اس خاتون کی آپ بیتی سن کر ساتھی مسافروں کی آنکھیں پرنم ہو گئیں۔ والٹیئر کے ناول ’’کاندید‘‘ کی یہ مختصر سی تلخیص ہے۔ اس میں درس یہ ہے کہ عہدوں، دولت و دنیا کو ثبات ہرگز ہرگز نہیں۔ تقدیر کسی وقت بھی پلٹا کھا سکتی ہے۔ انسان ایک لمحے میں عرش سے فرش پر آ سکتا ہے۔ شاہ سے گدا اور عبرت کا نشان بن سکتا ہے۔ اسکی مثالیں جدید دور میں بھی دی جا سکتی ہیں۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا انجام دنیا کے سامنے ہے، انکی اولاد دنیا میں کہاں اور کس حال میں ہے، کسی کو علم نہیں؟ حسینہ واجد کا پورا خاندان قتل ہو گیا۔ ان خاندانوں کے دولت کے انبار، محلات کسی کام نہ آ سکے۔
ہمارے حکمران اور شہزادگان سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اللہ کی زمین پر خدا بن کے رہیں گے۔ دوسروں کا حق مار کے جیئیں گے۔ عبرت کی داستانیں انکی رعایا کیلئے ہیں۔ جنازے دوسروں کے اٹھتے ہیں مگر یہ سب دھوکہ ہے فریب ہے آنکھوں کا اندھیر ہے۔ اپنے بل بوتے پر کمائیں اور جتنا مرضی ہے کھائیں، اڑائیں یا لٹائیں قانون کو قانون رہنے دیں، ججوں کو ڈرائیں نہ قانون کو موم کی ناک بنائیں۔ راہِ راست پر آنے کے لئے سیف الاسلام کی طرح ٹھوکر کھانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔
سن دو ہزارمیں برطانیہ میں ٹونی بلیئر وزیراعظم تھے۔ ان کا 16 سالہ بیٹا ایان
امتحان میں کامیابی کی خوشی میں شراب میں بدمست ہو کر حواس کھو بیٹھا، کسی کے گلے پڑا نہ کسی پر تشدد کیا۔ گرائونڈ کے ایک کونے میں بے سدھ پڑا تھا پولیس آئی اسے اٹھایا اور اس قابل سمجھا کہ اسے ہسپتال لے جانے کی ضرورت نہیں۔ اسے تھانے لے گئی۔ پولیس نے اسے اٹھایا تو حواس بحال ہو گئے تھے۔ وزیراعظم کو پتہ چلا تو بغیر پروٹوکول کے جس طرح ہمارے وزیراعظم نوازشریف جے آئی ٹی کے سامنے بغیر پروٹوکول جا کر پیش ہوئے۔ ٹونی بلیئر بھی اپنی گاڑی میں پولیس سٹیشن چلے گئے۔ پولیس مین نے پہچان لیا اور خود سے کہا کہ جناب آپ بیٹے سے ملنا چاہتے ہیں؟ آئیے مل لیجئے۔ وہ وزیراعظم کو ساتھ لے کر حوالات میں گیا جہاں چھوٹا ٹونی کھڑا تھا۔ باپ نے اسے صرف یہ کہا کہ ’’تم نے مجھے رسوا کرا دیا‘‘۔ بیٹا سر جھکائے کھڑا رہا۔ وزیراعظم یہ ایک فقرہ کہہ کر واپس آ گئے۔ ایک دو روز میں قانونی کارروائی کے بعد ایان کو رہائی ملی۔ اس نے اپنے خاندان اور قوم سے معافی مانگی، اسکے بعد اس نے کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ یہ ہے جمہوری ملک میں اسکے وزیراعظم کا جمہوری رویہ! ہمارے ہاں بڑوں کی اولادیں باپ سے بھی بڑے کارنامے دکھا دیتی ہیں اوردیہاڑی دار ان ناہنجار اولادوں اور انکے بے وقار باپوں کی کاسہ لیسی حاشیہ برداری اور خوشامد میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ کرپشن کی دلدل میں گلے تک دُھنسے ہوئے ’’اکابرین‘‘ بھی کہتے ہیں ہمارے دامن پر کوئی کرپشن کا داغ تو دکھائو۔ …؎
دامن ہے داغ داغ مگر مانتے نہیں
دیتے ہیں تاثر کہ کچھ جانتے نہیں