پانامہ۔ نااہلیت سے عوام کو کیاسروکار؟

2017 ,مئی 7

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

پانامہ کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا اندازہ مشکل نہیں رہا۔ جن ججوں نے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھنے کیلئے سوا دو ماہ کا وقت دیا، انکے سامنے پھر وہی ذہنیت کارفرما تھی ۔سٹیٹ بنک اور سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سربراہان نے جے آئی ٹی کےلئے جو نام بھجوائے ان پر جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل بنچ نے برہمی کا اظہا رکیا۔تاہم اگلے روز جے آئی ٹی تشکیل پاگئی۔ پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والے بنچ کے دو ممبر جسٹس آصف لطیف کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد تو وزیراعظم نواز شریف کو فارغ کر چکے تھے تاہم اکثریتی فیصلے میں میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کم از کم سوا دو ماہ کے لئے بچ گئی جس پر میاں نواز شریف خود دیوانہ وار یہ کہتے ہوئے جھومتے نظر آئے کہ ہم سرخرو ہو گئے۔ اس کیس میں سب سے زیادہ مطعون ان تین ججوں کو کیا جا رہا ہے جنہوں نے اپنے سینئر کولیگز کے فیصلے سے اختلاف کرکے جے آئی ٹی کے ذریعے تفتیش کرانے پر قائل کر لیا۔ اسکے ساتھ ہی اختلافی نوٹ لکھنے والوں ججوں کے پیچھے بھی کچھ لوگ ہاتھ دھو کر پڑ گئے۔ قانون کو سمجھنے والے لوگ فیصلہ محفوظ کئے جانے کے بعد یہ کہتے سنے گئے ”سپریم کورٹ جوڈیشل کمشن بنا سکتی ہے یہ بھی کہا جا رہا تھا، جسٹس کھوسہ جرا¿ت مند اور نڈر جج ہیں وہ کسی دباﺅ میں آئے بغیر فیصلہ دیں گے۔ یہ الفاظ میں نے جسٹس (ر) ارشاد حسن خان، قیوم نظامی، سید فخرر امام اور بیگم عابدہ حسین کی زبانی سنے۔ بے لاگ فیصلے کا مطلب وزیراعظم کی نااہلی نہیں تاہم اکثر لوگ ایسا ہی سوچتے سمجھتے اور کہتے تھے۔

مسلم لیگ ن کے کچھ لیڈر متواتر کہتے رہے کہ پانامہ لیک کو پاجامہ لیک بنا دیں گے۔ یہ صرف ہنگامہ ہے۔ فیصلہ ہمارے حق میں آئے گا۔ اب مریم نواز شریف نے پانامہ کیس کو ردی اور کچرے کا ڈھیر قرار دیا ہے حالانکہ پورے فیصلے میں ایک لفظ بھی وزیراعظم کی حمایت میں نہیں لکھا گیا۔

جے آئی ٹی دیکھیں ان سوالوں کے جواب کہاں سے تلاش کرکے لاتی ہے جو فاضل جج حضرات کو نہ مل سکے۔ جس فیصلے پر وزیراعظم خود کو سرخرو سمجھتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری دکھانے اور جتانے والے جس طرح خوشیاں منا رہے ہیں وہ بھی اس فیصلے کے چند چیدہ چیدہ نکات پر ایک نظر ضرور ڈال لیں۔"یہ معاملہ حقیقت مندانہ انکوائری کا متقاضی ہے اور اس مقصد کیلئے آئین اور قانون کے مطابق آئینی اداروں پر مبنی ایک تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے اور جب حقائق بے نقاب ہو جاتے ہیں اور شہادتیں اکٹھی کر لی جاتی ہیں تو معاملہ مجازعدالت کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ آرٹیکل 10-A کے تحت حاصل حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے آئین و قانون کیمطابق فیصلہ کیا جاسکے۔ کسی کو مجرم قرار دے کرسزا سنانا تب ہی ممکن ہوتاہے جب قانون شہادت کے مطابق اس پر جرم ثابت ہو جائے۔ (سپریم کورٹ کے فیصلے کا صفحہ 483 ) لہذا عدالت نے ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم(JIT) بنانے کا حکم دیا ہے کیونکہ مدعا علیہان اپنی صفائی پیش کرنے میں ناکام رہے۔(واضح رہے یہ ججوں کے ریمارکس نہیں فیصلے کا حصہ ہے )مثلا:

٭ اس کہانی کے تانے بانے دو خطوط اور دو حلفیہ بیانات کے گرد بنے گئے ہیں اور ہماری نظر میں انکے مندرجات مشکوک ہیں جن پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔(پیرا نمبر 39)

٭ عدالت کے سامنے کوئی ثبوت یا بینک ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ مدعا علیہ نمبر 7 کے فاضل وکیل نے واضح الفاظ میں عدالت کو بیان دیا کہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے انکے پاس کسی قسم کا کوئی ریکارڈ، کاغذات یا شہادتیں نہیں ہیں کیونکہ جو افراد ان معاملات میں ذاتی طور پر ملوث تھے ان میں سے اکثر وفات پا چکے ہیں۔ (پیرا نمبر 42)

٭ تاہم سوائے من گھڑت باتوں اور عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے کے ہمیں نہ توکوئی تسلی بخش جواب ملا اور نہ ہی عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مدعاعلیہان نے پانامہ لیکس کے حوالے سے سامنے آنے والی اطلاعات کی کوئی تردید بھی نہیں کی۔ (پیرا نمبر 48)

٭ ہر قسم کے ہتھکنڈے اور ترکیبیں استعمال کرتے ہوئے معاملے کو دبانے اور دستاویزات اور کاغذات کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے جو ملک کی سب سے اعلی عدالت کیلئے شفاف تحقیقات کرنے اورکسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے ضروری تھیں۔ (پیرا نمبر 51)

٭ غیر آئینی طریقے سے دولت کی بیرون ملک منتقلی، کرپشن، حد سے زیادہ اثاثوں کی ملکیت اور ناجائز ذرائع سے اثاثے بنانے جیسے اہم الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ (پیرا نمبر 85)

٭ ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائزشخص ’ یعنی مدعا علیہ نمبر 1 کیلئے ضروری تھا کہ وہ تمام معلومات، دستاویزات اور ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرتے تاکہ انکی اور انکے خاندان کی پوزیشن واضح ہوتی۔ (پیرانمبر 88)

٭ مدعا لیہ نمبر 1 کی جانب سے ایسا نہیں کیا گیا اور اس موقع کو ہوا میں اڑا دیاگیا، جس کی وجہ وہ خود ہی جانتے ہیں کہ مبہم، مشکوک اور تکنیکی بہانوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی گئی ہے۔ (پیرا نمبر 88)

٭ مقدے سے متعلق ثبوت کے ساتھ مواد کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ کثیر تعداد میں اہم سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ (پیرا نمبر 51)

لہذاعدالت عظمیٰ نے محسوس کیا ہے کہ مدعا علیہ نمبر 1سمیت تمام مدعا علیہان کی جانب سے عدالت کو فراہم کی جانے والی متضاد، مبہم اور غیر واضح تشریحات، ہمارے لئے لغو، خیالی اور مضحکہ خیز ہیں۔ (پیرا نمبر 51)

مندرجہ بالا بیان سے جواہم سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اوپر بیان کئے گئے تجزیے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مدعا علیہ نمبر 1 ’ صادق اور امین نہیں رہے اور انکے خلاف قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہلی کی کاروائی شروع کی جاسکتی ہے۔(پیرا نمبر 52)۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ NAO کے تحت ایک محتسب عدالت شہادتیں اکٹھی کرے اور ملزم کو حاصل آئینی حق کی پاسداری کرتے ہوئے ان کیخلاف باقاعدہ کاروائی شروع کرے۔ (پیرا نمبر 58)۔ ان سوالات کے جوابات باقاعدہ تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ ایسی کارروائی کی بنیاد پر جب ہمارے سامنے کافی مواد موجودہوگا تو ہمارے لئے اس نتیجے پر پہنچنا ممکن ہو گا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ہم اپنے اختیارات کا استعمال کر سکیں۔(پیرا نمبر 68) لہذا عدالت عالیہ ایسا حکم جاری کرنا ضروری سمجھتی ہے جس کے تحت حقائق تک پہنچنے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جاسکیں جن کاجاننا پاکستانی عوام کا حق ہے کہ انکے حکمران آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے ان پر حکمرانی کر رہے ہیں یا نہیں۔ لہذا بادی النظر میں ایسا کافی مواد موجود ہے جس سے اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم اور انکے دونوں بیٹوں کو مجرم قرار دیا جا سکے۔ لہذا ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا ہے جو شہادتیں اکٹھی کرکے اس امر کا تعین کر ے گی کہ آیا یہ مجرم ہیں یا نہیں۔

(واضح رہے یہ ججوں کے ریمارکس نہیں فیصلے کا حصہ ہے ) یہ نکات جنرل اسلم بیگ کے انگریزی فیصلے سے کشیدہ ہیں ان میں سے ایک ایک نکتے پر جے آئی ٹی کو تفتیش کرنی ہے جس کی روشنی میں بنچ فیصلہ کرےگا کہ آیا وزیراعظم صادق اور امین رہے ہیں یا نہیں رہے۔کسی ایک نکتے میں بھی سرخرو ہونے کا راستہ ہے؟؟؟میاں نواز شریف کی نااہلیت سے انکے مخالفین اور اہلیت برقرار رہنے سے حامیوں کو خوشی اور دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اس سے یقیناً قانون کی حکمرانی کا تاثر قوی ہو گا مگر ملک اور عوام کو کیا ملے گا؟ کوئی نااہل ہو کر گھر جائے، جیل جائے یا دیانت اور صداقت کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرکے دولت کے انباروں کو چارسو چاند لگائے۔ کرپشن کی ایک ایک پائی قومی خزانے میں واپس آنی چاہئے۔ نواز شریف کے ساتھ آصف زرداری سے بھی انکے اثاثوں، لندن میں سرے محل اور فرانس میں وائٹ کوئین محل کی ٹریل مانگی جائے۔ سلسلہ اوپر سے نیچے مشتاق رئیسانی ، شرجیل میمن اور پنجاب کے رانوں مہارانوں تک لایا جائے۔

 

متعلقہ خبریں