قائداعظم، مریم جناح اور دینا

2017 ,نومبر 15



چودھری پرویز الٰہی کے والد چودھری منظور الٰہی خالق حقیقی سے ملنے سے قبل طویل عرصہ کومے میں رہے۔ پرویز الٰہی روزانہ صبح ان کے کمرے میں جاتے جہاں مشینوں کے ذریعے ان کی سانسیں بحال رکھی گئی تھیں۔ وہ وہاں کچھ دیر حاضری سے اپنے دن کا آغاز کرتے۔ یہ باپ سے محبت اور فرمانبرداری کی عمدہ مثال تھی۔ مونس الٰہی اپنے والد کے اتنے ہی فرمانبردار ہیں چودھری شجاعت ظہور الٰہی پر جان چھڑکتے تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء کا چودھری ظہور الٰہی کو عنایت کردہ قلم حرزِ جاں بنایا ہوا ہے جس قلم سے جنرل ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکمنامے پر دستخط کئے تھے۔

اسفند یار ولی اپنے والد کے اثاثے کے ان سے بھی بڑھ کر نگہبان نکلے۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت، افغانی ہونے پر فخر، کے پی کے اور افغانستان کے درمیان سرحدی دیوار گرانے اور لکیر مٹانے کو والد کا ادھورا مشن سمجھ کر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ آصف علی زرداری کی اپنے والد سے محبت اور ان کے بزنس کو منتہائے مقام تک لے جانا انہی کا کارنامہ اور کمال ہے۔ بینظیر بھٹو نے بھی اپنے والد سے محبت اور ان کے مشن کی تکمیل کا اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر حق ادا کر دیا۔ جنرل مشرف کی والدہ سے محبت کے قصے بھی زبان زد عام ہیں۔ میاں نواز شریف کی اپنی والدہ اور والد سے محبت عقیدت تک پہنچی ہوئی ہے۔ 90ء کی دہائی میں نواز شریف دو بار وزیراعظم بنے اور اس دور میں کہا جاتا تھا کہ اگر میاں شریف کہہ دیں کہ استعفیٰ دیدو تو میاں نواز شریف ایک لمحے سے قبل حکم کی تعمیل کر دیں گے۔ مریم نواز اور ان کے بھائی حسین اور حسن نواز اپنے والدین سے اتنی ہی محبت کرتے اور عقیدت رکھتے ہیں جتنی نواز شریف کی اپنے والدین کے لئے رہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اور بھی والدین کی انتہائی فرمانبردار اولادیں موجود ہیں۔ 

قائداعظم محمد علی جناح اپنے والدین کے فرمانبردار رہے مگر ان کی بیٹی دینا نے قائداعظم کی مرضی و منشاء کے برعکس اپنی پسند کی شادی کی۔ قائداعظم نے اپنے لخت جگر کے اس فیصلے کو اکلوتی اور لاڈلی اولاد بیٹی ہونے کے باوجود کبھی تسلیم نہیں کیا۔ دینا واڈیا 98 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں جو بہت سے اوصاف سے متصف تھیں مگر دیناکی کہانی سے قبل ان کی والدہ مریم جناح کا تذکرہ ضروری ہے ۔نکاح سے قبل ان کا نام رتن بائی تھا۔

قائداعظم محمد علی جناح رتن کے والد سر ڈنشا پیٹٹ کے دوستوں میں سے تھے۔ممبئی کے رئیس پارسیوں میں اہمیت کے حامل ڈن شاپٹیٹ کی اکلوتی اور حسین بیٹی رتن بائی کو انگریزی شعرو ادب سے گہرا شغف تھا۔ ڈن شا کے مالا بار ہل پر واقع شاندار بنگلے پرقوم پرست ہندوستانی لیڈروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان میں بیرسٹر محمد علی جناح بھی تھے۔سترہ سالہ رتن کو جنہیں گھر کے لوگ پیار سے رتی کہہ کر پکارتے تھے۔لمبے قد کے صاف رنگت والے چھریرے جسم کے سوٹڈ بوٹڈ جناح کی پر مغز بحثوں نے اتنا متاثر کیا کہ وہ انہیں پسند کرنے لگیں۔ جناح کو چھوئی موئی سی رتی پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی۔ان کی شخصیت نے رتن عرف رتی کو اس قدر متاثر کیا کہ ان کی دوستی قربت اور پھر قربت محبت میں بدل گئی۔ 1917ء کی ایک شام جب قوم پرستی پر گفتگو کے دوران رتن کے والد ڈن شا نے یہ خیال ظاہر کیا کہ جب تک ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم نہیں ہوتی تب تک فسادات ہوتے رہیں گے اس لئے بین المذاہب شادیاں ہونی چاہئیں۔

عمر کی چالیس منزل پار کر چکے جناح کو ڈن شا کے اس خیال نے حوصلہ دیا اور انہوں نے ان کی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا۔بس پھر کیا تھا ، آتش پرست ڈن شا پیٹیٹ کا خون کھول اٹھا اور وہ رات ایک تلخ یاد میں بدل گئی۔ ڈن شا نے رتی کے جناح سے ملنے جلنے پر پابندی لگادی تو جناح نے عدالت کے دروازے پر دستک دی۔

عدالت نے رتن کے بالغ ہونے تک اس سے ملاقات پر پابندی لگادی لیکن اس فیصلہ میں یہ کہہ دیا کہ بالغ ہونے کے بعد رتی اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کی مختار ہوگی۔جناح نے بھی تقریبا ایک سال تک صبر و سکون کے ساتھ انتظار کیا اس دوران جناح اور رتی کے بیچ پل کا کام جناح کے دوست اور سکریٹری کانجی دوارکا داس کرتے رہے۔ 20 فروری 1918ء کو پیٹیٹ خاندان میں رتن کی اٹھارہویں سالگرہ خوب دھوم دھام سے منانے کی تیاریاں چل رہی تھیں کہ اسی دن رتی خاموشی سے اپنے گھر کو چھوڑ کر جناح کے گھر چلی آئیں۔ ڈن شا اپنی بیٹی کی ضدی طبیعت سے تو واقف تھے لیکن انہیں اس سے اتنا بڑا قدم اٹھانے کی توقع نہ تھی۔ بیٹی کی بغاوت پر برہم ڈن شانے مقامی اخبارات میں اپنی اکلوتی بیٹی کی موت کی خبر شائع کرادی۔ اس کے بعد ڈن شا نے رتی کی موت تک کوئی رشتہ نہیں رکھا۔

18 اپریل 1918ء کو رتی نے بمبئی کی جامع مسجد کے امام مولانا نذیر احمد کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ ان کا اسلامی نام مریم رکھا گیا، اگلے دن وہ قائداعظم محمد علی جناح کے عقد میں آگئیں۔ ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔ 19 اپریل 1918ء کے روزنامہ اسٹیٹ مین میں رتی کے قبول اسلام کی خبر کے ساتھ جناح سے ان کے نکاح کی خبر شائع ہوئی۔

جناح اور مریم کی محبت کی نشانی ان کی اکلوتی بیٹی 14 اگست 1919ء کو پیدا ہوئی اور 28 سال بعد ٹھیک اسی تاریخ کو پاکستان کا جنم ہوا تھا۔ جناح ایک کامیاب وکیل ہی نہیں کانگریس کے سرکردہ لیڈر بھی تھے اور ان کا زیادہ وقت وکالت کے علاوہ سیاسی سماجی مصروفیات میں گزرتا تھا۔بے حد نازک مزاج اور شعر و ادب کی دلدادہ لڑکی نے اسے شایدجناح کی بے التفاتی تصور کیا۔شادی کے دس سال بعد تو مریم نے جناح سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور وہ تاج محل ہوٹل میں ایک سویٹ بک کرکے وہاں مستقل سکونت کے لئے منتقل ہو گئیں۔ تنہائی اور فکر ان کے جسم و جاں کا آزار بن گئے۔ انہیں آنتوں میں سوزش اور پھر ٹی بی ہو گئی۔ رتی کی ماں نے ان کا علاج یورپ لے جا کر کرایا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی غرض کہ رتی نے جس مہینے اور جس تاریخ کو جنم لیا تھا اسی مہینے اسی تاریخ کو وہ موت سے ہم آغوش ہو ئیں۔

ملک کے سب سے مہنگے وکیل اور کانگریس کے سب سے اہم قائد کی نازک اندام بیوی نے جس وقت دم توڑا اس وقت جناح ان کے قریب نہیں تھے۔بتایا جاتا ہے کہ ان کی موت کے بعد جناح جب بھی ممبئی میں ہوتے تو وہ ہر جمعرات کو اپنی بیوی کی قبر پر حاضر ہوتے تھے۔پہلی مرتبہ قائد اہلیہ کی قبر پر گئے تو زار و قطار رو دیئے، ان کو اس طرح روتے کبھی پہلے دیکھا گیا نہ بعد میں۔مریم کاجناح کے نام آخری خط ایک یادگاراور امر بن گیا:

’’پیارے ! تم نے (میرے لیے) جوکچھ کیا، اس کا شکریہ۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کی غیر معمولی حِسّوں نے میرے رویّے میں اشتعال انگیزی یا بے رحمی پائی ہو۔ آپ یقین رکھیں کہ میرے دل میں صرف شدید محبت اور انتہائی درد ہی موجود ہے… پیارے ایسا درد جو مجھے تکلیف نہیں دیتا۔ دراصل جب کوئی حقیقت زندگی کے قریب ہو (اور جو بہرحال موت ہے) جیسے کہ میں پہنچ چکی، تو تب انسان (اپنی زندگی) کے خوش کن اور مہربان لمحے ہی یاد رکھتا ہے، بقیہ لمحات موہومیت کی چھپی، اَن چھپی دھند میں چھپ جاتے ہیں۔ کوشش کرکے مجھے ایسے پھول کی حیثیت سے یاد رکھنا جو تم نے شاخ سے توڑا، ویسا نہیں جو جوتے تلے کچل دیا جائے۔

’’پیارے! (شاید) میں نے زیادہ تکالیف اس لیے اٹھائیں کہ میں نے پیار بھی ٹوٹ کر کیا۔ میرے غم و اندوہ کی پیمائش (اسی لیے) میرے پیار کی شدت کے حساب سے ہونی چاہیے۔ ’’پیارے! میں تم سے محبت کرتی ہوں… مجھے تم سے پیار ہے… اور اگر میں تم سے تھوڑا سا بھی کم پیار کرتی، تو شاید تمھارے ساتھ ہی رہتی…جب کوئی خوبصورت شگوفہ تخلیق کرلے، تو وہ اسے کبھی دلدل میں نہیں پھینکتا۔ انسان اپنے آئیڈیل کا معیار جتنا بلند کرے، وہ اتنا ہی زوال پذیر ہوجاتا ہے۔ ’’میرے پیارے! میں نے اتنی شدت سے تم سے محبت کی ہے کہ کم ہی مردوں کو ایسا پیار ملا ہوگا۔ میری تم سے صرف یہی التجا ہے کہ (ہماری) محبت میں جس اَلم نے جنم لیا، وہ اسی کے ساتھ اختتام پذیر ہوجائے۔

’’پیارے شب بخیر اور خدا حافظ۔ 

متعلقہ خبریں