ہم ٹھہرے مسافربے منزل کارواں کے

2022 ,اگست 18



 بطورِ قوم،  معاشرہ اور ملک ہمارا سفر بے منزل کاررواں کی طرح کٹ رہا ہے خانہ بدوشوں کے قافلے بے منزل ہوتے ہیں، صدیاں گزر جاتی ہیں یہ چلتے رہتے ہیں،پہلی بار جہاں سے چلے تھے وہیں گردشِ آفتاب کی طرح پہنچ کر پڑاؤ ڈالتے ہیں اور پھر روانہ ہو جاتے ہیں ہم معاشرے کے طور پر ایسے قافلے کے ہمراہی ہیں جس کی کوئی منزل نہیں،ہم ایٹمی قوت بن گئے، دنیا کی بہترین فوجوں میں پاک فوج شامل ہے وسائل کی صورت میں قدرت کاملہ نے پاکستان کو جس دولت سے مالا مال کیا ہے وہ ہر قوم اور ملک کے مقدر میں نہیں ہوتی،مگر لالچ، حرص، ہوس اورعدم برداشت نے ہمیں غربت کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان رکھ کرپسماندگی  کی پستیوں میں لا پھینکا ہے، جس رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم  تھا، اسے چھوڑا تو ہم آج نشیبوں کے قافلے کے بے وقعت مسافر بن گئے۔

گنوا دی ہے ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی 

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اختلاف رائے سیاسی مخالفتوں میں ڈھلتے ڈھلتے ذاتیات اور دشمنیوں تک پہنچ چکا ہے، سیاسی خانوادوں کوصعوبتوں جیل جلا وطنی اور پھانسیوں کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا، مجال ہے ان سے انہی خاندانوں ہی نے سبق سیکھا ہو سیاست میں نفرتوں کے پودے تو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی اُگنے لگے تھے۔ لیاقت علی خان ایسی ہی نفرت کا نشانہ بن گئے اس درخت کے زہریلے برگ وباراور کونپلیں ایوب خان کے دور میں نکلیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس پرعناد اور تعصب کا پھل بھی لگنے لگا، ضیاء الحق دور میں پورا درخت زہر آلود ہو گیا،بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، جن جماعتوں نے جنرل ضیاء کے ہاتھ مضبوط کئے اور ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے تھے۔ انہی کے دور میں وہ ضیاء صاحب سے دور ہونے لگے۔1988ء سے1999ء تک ہماری سیاست ایک ڈراؤنے خواب کا روپ دھار چکی تھی۔نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے کوٹِک کر حکومت نہ کرنے دی۔ ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے کے لیے  سازشیں کیں۔ ان لیڈروں کو غلطی کا احساس ہوا مگر جب پُلوں کے نیچے سے پانی بہہ کر جمہوریت کو ڈبو رہا تھا۔ جنرل مشرف سے نجات کے لیے 2006ء میں مفاہمت کی ایک لہر آئی،  میثاقِ جمہوریت ہوا۔ اس کے بعد پھر سے نفرتوں کی آندھیاں چلنے لگیں تاآنکہ عمران خان اقتدار میں آگئے، ان کے خلاف غیر اعلانیہ میثاق ہوا اس کو کوئی بھی نام دیا جا سکتا ہے عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے الگ کر دیا گیا ان کی جگہ پی ڈی ایم کی 9جماعتوں نے بشمول پانچ ان جماعتوں کے حکومت بنا لی جو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے آخری ہفتے تک اُن کے ساتھ تھیں۔ نفرتوں کے اس درخت کے سائے آج آسیب بن چکے ہیں، ان پر عناد، تعصب، بُغض، اشتعال،عدم برداشت اور بدگمانیوں کا پھل لگ رہا ہے۔

پاک فوج ہماری جغرافیائی سرحدوں کی نگہبان کے ساتھ ساتھ قومی نظریات کی بھی پاسبان ہے اس کے خلاف کچھ حلقے نفرتوں کا زہر پھیلا دیتے ہیں، کچھ طبقے فوج کے وقار کا شملہ اونچا رکھنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور کبھی تو حد سے متجاوز ہو جاتے ہیں۔ توازن کا دامن  دونوں ہی چھوڑ دیتے ہیں پھر طرفہ تماشہ یہ کہ یہ دونوں طبقات اپنے اپنے مفادات کی عینک سے سب کچھ دیکھتے ہیں۔ آج ایک طبقہ فوج کی تعریف کر رہا ہے۔ کل اسے کچھ اقدات پسند نہ آنے کی صورت میں۔ جیسے بے ہودہ خیالات کا اظہار ہوتاہے۔ طبقات اور افراد وہی رہتے ہیں مگر خیالات بدلتے دیر لگتی ہے نہ خیالات کے اظہار میں تاخیرہوتی ہے۔جنرل سرفراز علی ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے اس پر کچھ لوگوں نے یاوہ گوئی کی تضحیک آمیز رویوں کا اظہار کیا، ایسا کرنے والے لوگ قابل گرفت ہیں۔ حکومت کی طرف سے فوج کے خلاف مہم چلانے والوں کو عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک  چھ رُکنی جے آئی ٹی بنائی گئی ہیجوائنٹ انکوائری  ٹیم کا دائرہ کار بڑھا کر انٹیلی جنس  ایجنسیز کے دو  افسر بھی ٹیم میں شامل کر دیئے  گئے۔ آئی ایس آئی کی جانب سے لیفٹیننٹ کرنل سعد اور انٹیلی جنس بیورو سے ڈپٹی ڈائریکٹر وقار نثار چودھری نمائندگی کریں گے۔ ایف آئی اے و انٹیلی جنس اداروں کی جے آئی ٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم محمد جعفر کی نگرانی میں تحقیقات کرے گی ہدف معین کر کے تحقیق کاروں کا تعین بھی بعض اوقات اصل چہرے سامنے لے آتا ہے، ایک انکوائری کمیٹی پنجاب حکومت نے بھی بنائی ہے جو 25مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں پر ہونے والے مبینہ تشدد میں رانا ثنا ء اللہ،عطاء اللہ تارڑ، ملک احمد  خان اور حمزہ شہباز شریف  سے  باز پُرس کرے گی، مرکزی حکومت کی تشکیل کردہ جے آئی ٹی اور پنجاب حکومت کی انکوائری کمیٹی کیا ایک دوسرے کے ردِ عمل میں بنائی گئی ہے؟

 تحریک انصاف کی طرف سے  اسلام آباد پنڈی میں 13 اگست کو ہونے والا جلسہ لاہور میں اس لئے منتقل کر دیا گیا کہ وہاں تحریک لبیک نے جلسے کے انعقاد پر اصرار کیا۔ان کا مؤقف تھا کہ انہوں نے پہلے جلسے کا اعلان کیا اور اجازت کے لیے درخواست دے رکھی تھی۔ پھر نذیر چوہان کے اہل خانہ نے شبیر گجر سے معافی طلب کی تو معاف کر دیا گیا۔ نذیر چوہان کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ سیاست میں ایسے رویوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ 

شہباز گل کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ان پر جو الزام ہے وہ عدالت میں ثابت ہونا ہے مگر ان کو جس طرح گرفتار کیا گیا، اس سے سیاست میں نفرتوں کوبڑھاوا ہی مل سکتا ہے۔ہم کس طرف جارہے ہیں اسی نوے کی دہائی میں چلے گئے ہیں؟مرکز میں بینظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ملک مختار وزیر تجارت تھے،پنجاب میں میاں نواز شریف وزیراعلیٰ تھے۔ملک مختار کراچی گئے ہوئے تھے۔ ان پر پنجاب میں مقدمہ درج کیا گیاان کو پنڈی ایئر پورٹ سے گرفتار کیا جانا تھاکیونکہ پنڈی پنجاب میں ہے،وہ کئی روز اسلام آباد ہی نہ آئیغالباًاُسی دور میں منڈی ڈھاباں سنگھ کا نام صفدر آباد رکھا گیا، ڈوگرصاحب ایم پی اے تھے ان کے بیٹے کو صبح پنجاب حکومت ترقی دیتی تو ساتھ ملانے کیلئے شام کو وفاقی حکومت گریڈ اپ کردیتی۔ بھٹو صاحب کے  دور میں چودھری ظہورالٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ بنا دیا گیا۔آج پھر مقدمہ بازی ہورہی ہے۔جان بچانے کے لئے ایک پارٹی کے لیڈر وفاقی دارالحکومت  اور دوسری کے پنجاب اور کے پی کے میں جائے پناہ کے متلاشی ہیں۔

خانہ بدوشوں کے قافلے بے منزل ضرور ہوتے ہیں،بے سمت نہیں ہوتے۔ہماری تو کوئی سمت بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کب تک، آخر کب تک ہم بے منزل کارواں کی طرح لا حاصل سفر جاری رکھیں گے؟

متعلقہ خبریں