باسط کی باتیں:نواز،اجتناب اور شراب

2020 ,اپریل 24



حجاج بن یوسف نے قرآن کے اعراب لگا کر عجمیوں کیلئے قرأت آسان بنا دی۔ یہ کارنامہ سنہری الفاظ میں لکھا جانے والا ہے مگرایسا بھی بہت کچھ جو اس نے کیا،سیاہ کاریوں کی داستاں ہے۔ صحابی رسول عبداللہ بن زبیر سمیت کئی برگزیدہ ہستیوں کو بھیانک تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کیا گیا۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ پر سنگ باری کی گئی۔ قدرت نے اسے دیدہ عبرت بنا دیا۔ شدید ٹھنڈک کی بیماری نے لپیٹ میں لے لیا۔ آگ کے اتنا قریب بیٹھتا کہ جسم جل جاتا مگر سردی دور نہ ہوتی۔ جسم اندر سے جلتا رہتا۔ ایک بڑے حکیم نے دھاگے سے باندھ کر روئی حلق کے اندر کسی ٹیسٹ کیلئے ڈالی، نکالی تو خون آلوداور کیڑے چمٹے ہوئے تھے۔ لاہور میں کا لامقصودکالاپھانسی کیس مشہور ہوا۔ مقصود کو سزائے موت ہوگئی تھی۔ ایک بڑی شخصیت جیل آئی، اسکے سامنے بے گناہی کا واویلا کیا۔ اتفاق سے ایف آئی آر درج کرنیوالا تھانیدار بھی گرفتار ہو کر آگیا۔ اس نے مقصودپر خانہ پوری کیلئے ایف آئی آر درج کرنے کااعتراف کیا۔ معاملہ میڈیا میں آیا۔ وزیراعظم ملک معراج خالد اور صدر فاروق لغاری تھے، سزا معاف ہوگئی۔ گویا بے گناہ کو انصاف مل گیا مگر حالات نے ایساپلٹا کھایا، اس کی سزا بحال ، بلیک وارنٹ جاری ہوگئے۔پھانسی سے چندگھنٹے قبل بھی اس کیس میں بے گناہ باور کرایاتاہم یہ کہہ کرسب کو ششدر کر دیا ، اس نے ایک اور قتل ضرور کیا تھا۔ راہ چلتی خاتون کو ڈکیتی میں مار ڈالا جس کے غریب اور بے بس لواحقین نے کیس کیا نہ قاتل کو تلاش کرنے کی کوشش کی،یہ اُسی جرم کی سزا ہے۔ جرم چھپ سکتا ہے مگر اسکی سزا سے بچنا ممکن نہیں۔

وزارت خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم نے انٹرویو میں دعویٰ کیا۔’’ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزارت خارجہ کو بھارت کیخلاف کوئی بات نہ کرنے کی ہدایات تھیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا نام نہ لینے کی بھی ہدایت تھی۔ اس بیان کی میاں نواز شریف کی طرف سے کوئی وضاحت یا تردیدنہیں کی گئی۔ تاہم نیم اعلیٰ لیگی قیادت ضرور اشتعال میں پھنکارتی دکھائی دی۔

تسنیم اسلم کی بات کو سابق سفارتکار عبدالباسط نے آگے بڑھایا بلکہ زیادہ ہی آگے بڑھا دیا۔ عبدالباسط دہلی میں بھی ہائی کمشنر رہے۔ عبدالباسط اپنے یوٹیوب چینل پر کہتے ہیں: میاں نواز شریف کی بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خواہش رہی ہے، بھلے اس سے کشمیرکاز کو نقصان پہنچ جائے۔ان کا خیال تھا مودی کیساتھ ذاتی مراسم سے پاکستان بھارت تعلقات بہتر ہونے کے چانسز زیادہ ہیں، یہ انکی سوچ اور اپروچ تھی۔ اس پر میرے نواز شریف سے اختلافات رہے۔ میرا ہمیشہ سے خیال رہا کہ آپ جموں و کشمیر کو پس پشت نہیں ڈال سکتے۔میری کوشش حریت کانفرنس سے رابطے رکھنے کی تھی۔ مجھے کبھی ان سے تعلقات نہ رکھنے کے بارے میں تحریری طور پر نہیں کہا گیا۔ زبانی بہت کچھ کہا گیا‘ جو میں نے مانا نہیں۔ جہاں تک ان کے کاروباری مفادات کا تعلق ہے، شوگر ملز کیلئے انجینئرز بھارت سے آیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے سلمان شہباز کا ہر ماہ ایک بار تو فون لازمی آتا تھا۔میاں نواز شریف کی سجن جندال سے دوستی تھی،انکی خواہش تھی، سجن جندال پاکستان کی کول(کوئلہ) انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں۔2 جنوری 2016ء کو پٹھانکوٹ واقعہ ہوا، قبل ازیں25دسمبر 2015ء کو مودی پاکستان آئے تھے۔ 2ہفتے بعد نواز شریف 6جنوری کولمبو گئے ۔ کولمبو سے دہلی میں مودی سے بات کی۔ واپسی پر پٹھانکوٹ حملہ کی گوجرانوالہ میں ایف آئی آر کاٹ دی گئی ۔ کلبھوشن کے معاملے میں نواز شریف کیساتھ وزارت خارجہ کے عہدیدارانکی باتیں آگے بڑھاتے تھے۔ ڈان لیکس بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔

جندال بھارت کے دوسرے بڑے سٹیل ٹائیکون ہیں۔ وزیراعظم مودی کی حلف برداری تقریب میں شرکت کیلئے نوازشریف بھارت آئے توجندال ائیر پورٹ پر موجود تھے۔نواز شریف اور جندال میںدوستی اور فیملی ریلیشن شپ ہے۔( مریم نواز کا جندال کے ساتھ خاندانی دوستی کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔) 26 اپریل2017ء کو سجن جندال پاکستان آئے تھے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ بغیر ویزے کے آ گئے۔باسط کے مطابق جندال اور ساتھیوں کیلئے مجھے وزارتِ خارجہ نے ویزہ جاری کرنے کی ہدایات دی تھیں۔صرف لاہور اور اسلام آباد کا ویزہ تھالیکن وہ مری پہنچ گئے۔ وہیں نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ 10اپریل کو کلبھوشن یادیو کو سزائے موت ہو چکی تھی۔ میں بڑا پریشان تھا، جندال نواز شریف سے کیوں ملنے گئے ؟ کئی باتیں چل رہی تھیں۔ خاص طور پر کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہ دینے کا مودی کا پیغام لے کر گئے تھے ۔سجن جندال ممبئی واپس آئے تو میں نے فون کیا،انہوںنے کہا جب میں دہلی آؤنگا تو آپ سے ضرور ملاقات کروں گا لیکن وہ ملاقات سے گریزہی کرتے رہے۔واللہ اعلم اس میٹنگ میں کیا ڈسکس ہوا۔

جب نواز شریف صاحب انڈیا آئے تھے تو سجن جندال انہیں گھر بلانا چاہتے تھے۔ میں نے کہاانکے گھر جانا مناسب نہیں۔وہ ائر پورٹ پہ آ جائیں یا انکی فیملی چاہتی ہے تو ہوٹل میں مل لیں ۔ خیر جب وزیر اعظم جانے لگے تو مجھے کہا، آپ یہیں رُک جائیں ۔ یہ ہماری پرائیویٹ میٹنگ ہے۔۔وہاں کیا ہوا، کچھ نہیں پتہ۔ شاید اس وقت دہلی میں موجود فارن آفس کو بھی وہ باتیں معلوم نہ ہوں جو مری میں ان کے درمیان ہوئیں۔ جندال مری کیوں چلے گئے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

میاں نوازشریف اگر سب کچھ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر نیک نیتی اور قوم و ملک کی بہتری کیلئے کرتے رہے تو ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ وہ چوتھی پانچویں بار بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں قدرت کے انتقام سے بچنے کی دعا کریں۔پاکستان کو دولخت کرنے والے کردار بھیانک انجام سے دوچار ہوئے۔ اندرا گاندھی،شیخ مجیب اور بھٹو خاندان دنیائے سیاست میں عبرت کا نشان ہیں۔ سجن جندال کے ساتھ ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو سے عبدالباسط صاحب آگاہ نہیںتو کوئی فکر و پریشانی والی بات نہیں۔ وہ جہاں تک پہنچ جانی چاہئے تھی پہنچ چکی ہو گی۔ جے آئی ٹی کے والیوم ٹن(10) کی پٹاری کھلے گی تو انکشافات کے اژدہے پھنکارتے کئی کو ڈسیں گے۔ راجیو گاندھی کی پاکستان کے دورے کے موقع پر وزیراعظم آفس کی کلیئرنس ’’را‘‘نے کی تھی، آفس کو اپنی طرف سے مکمل طور پر ڈی بگ (DEBUG) کر دیا گیا تھا مگر کہا جاتا ہے رات کو گفتگو کی کیسٹ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے صدر اسحاق خان کی میز پر رکھ دی تھی۔حکومت بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خاتمے کی ایک وجہ یہ ملاقات بھی بتائی جاتی ہے۔ایسی ریکارڈنگز کرنے والی ’’خلائی مخلوق‘‘ سے ہمارے سیاستدان خائف رہے اور میثاق جمہوریت میں اسے بوتل میں بند کرنے کی بے پایاں خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ شق 17تو بہت کچھ عیاں کردیتی ہے ۔اس میں بھارت کیساتھ تعلقات کا ہر صورت خبط اور جنون نظر آتاہے۔ عبدالباسط۔ یہ بھی کہتے ہیں، پاکستانی سفارتخانوں میں آج بھی تقریبات میں شراب پیش کی جاتی ہے۔وہ خود بھی ایسا کرتے رہے تاہم سفارتکاری کے آخری برسوں یہ سلسلہ قطعی منقطع کردیا تھا۔ریاست مدینہ کی تشکیل کا اولین تقاضا شراب پر پابندی ہے۔

متعلقہ خبریں