2017 ,اگست 20
یہ 23 مارچ 1931 کا دن ہے ۔بھگت سنگھ کی پھانسی کی سزا پر عمل ہونا ہے مگرکوئی مجسٹریٹ بھگت سنگھ کی پھانسی کے وقت وہاں کھڑا ہونے اور موت کے سرٹیفیکٹ پر دستخط کرنے کیلئے دستیاب اور تیار نہیں۔یہ کام ایک آنریری مجسٹریٹ کے ذمے لگایا گیا۔ وہ مجسٹریٹ جس نے یہ ذمہ داری قبول کی محمد احمد تھے۔ جی ہاں! وہی جن کو ہم نواب محمد احمدخان قصوری کے نام سے جانتے ہیں۔انکے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی دی گئی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کو عالمی سطح پر بھی بڑی شہرت ملی تھی۔ بھٹو صاحب کورٹ کے اندر سخت رویہ جسے کُچھ لوگ رعونت آمیز بھی کہتے ہیں اورانکے وکلاء کی ضرورت سے زیادہ پُراعتمادی بھی بھٹو کو سزا کی وجہ بنی تھی۔ایسا ہی رویہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونیوالوں کا رہا۔ ریکارڈنگ میں بہت کچھ موجود ہیَ۔ بھٹو صاحب کو سزائے موت سنا دی گئی تو نظرثانی کی درخواست میں اگر یحییٰ بختیار سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے پر زور اور دلائل دیتے تو شاید کوئی صورت نکل آتی مگر یحییٰ بختیار کا زور سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے پر کم دیگرفروعات پر زیادہ تھا۔ یہ کیس ہائیکورٹ میں براہ راست چلایا گیا جس سے اپیل کا ایک فورم کم ہوگیا تھا۔میاں نواز شریف کو بھی ایک فورم کم ملا،کیس ہائی کورٹ میں جانا چاہیے تھا۔ مگر۔۔ 1993ء میں چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی عدالت نے وزیراعظم نواز شریف کی اسمبلی کی تحلیل کیخلاف درخواست براہِ را ست قابل سماعت قرار دے دی،اور یوں اس طرح کے امور میں ہائی کورٹ کی سیڑھی غیر ضروری ہو گئی۔
بھٹو صاحب نے اپنے خلاف قتل کیس میں غیرملکی وکیل بُلانے کا فیصلہ کیا تو پتہ چلا کہ خود بھٹو صاحب نے اپنے دور میں پاکستان میں مقدمات کیلئے غیرملکی وکیل کی خدمات حاصل کرنے پر پابندی کا قانون منظور کرایا ہوا تھا۔ رمزے کلارک جو امریکہ میں اٹارنی جنرل رہے‘ انکی بھٹو صاحب اپنے کیس میں خدمات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہی بھٹو کی سزائے موت پر کہا تھا۔
This was a mock trial in a kangroo court
بھٹو صاحب کو وہ قانون لے ڈوبا جو خود انہوں نے کسی اور کیلئے بنایا تھا۔ میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بھٹو صاحب کو غیرملکی وکلاء پر پاکستان میں آکر مقدمات لڑنے پر کیوں پابندی لگانا پڑی‘ ایک دو سینئرز سے بات کی۔ ایک ماہر قانون ریٹائرڈ جج صاحب کو فون کیا۔ انہوں نے جواب میں اوربھی بہت کچھ بتا دیا۔ حالیہ دنوں میں جے آئی ٹی کے روبرو پیشیاں اور گواہیاں ہورہی تھیں۔ انہوں نے ہی بتایا تھا کہ شریف خاندان کے بچنے کی اُمید نہیں ہے ۔سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ شواہد اور ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر آیاتاہم اسٹیبلشمنٹ اپنی جگہ برہم اور فیصلے کی حامی ہے۔اسکی برہمی کی وجوہات میں سچن جندال کی پاکستان آمد بھی شامل ہے۔ وزیراعظم پاکستان اس جندال کی آئو بھگت کرتے ہیں جو اپنے ٹویٹ میں کہتا ہے۔’’ جب بھی پاکستان بھارت تعلقات بہتر ہونے لگتے ہیں پاکستانی ایجنسیاں دہشتگردی کرا دیتی ہیں جبکہ عین انہی دنوں مر یم نوازشریف ٹویٹ کرتی ہیں کہ سچن جندال وزیراعظم نوازشریف کے پُرانے دوست ہیں۔یہ باتیں بھی ہوئیں کہ جندال کلبھوشن کی رہائی کیلئے مودی کا پیغام لائے تھے۔ یہ صحیح ہے یا غلط؟ تاہم اسکے بعد ہی بھارت معاملہ عالمی عدالت میں لے گیا جہاں ہمارے وکیل نے دلائل کیلئے دیا گیا 90 منٹ کا ٹائم بھی پورا استعمال نہیں کیا‘ 50 منٹ میں اپنی بات ختم کردی جبکہ پانامہ کیس میں نوازشریف کے وکلاء کو ہفتوں کا وقت بھی کم نظر آتا ہے۔ فوج کو عافیہ صدیقی کے بدلے میں شکیل آفریدی کو رہا کرنے کی تجویز بھی ناگوار گُزری۔ مودی کی حلف برداری تقریب میں جانا اور ان کو خالصتاً فیملی سالگرہ اور شادی کی تقریبات میں مہمان خاص کی حیثیت سے بلوانا۔ ڈان لیکس میں فوج کی نیک نامی کا کیا کوئی پہلونکلتا ہے؟ حافظ سعید کو صرف بھارت ہی دہشتگرد قرار دیتا ہے۔ بھارتی پراپیگنڈے سے اسکے ہم خیال ممالک متفق ہیں،انہی کے دبائو پر حافظ صاحب کوحکومت نے نظر بندکردیا گیا۔ پاکستان بھارت تعلقات کشیدگی نہیں دشمنی کی انتہا تک ہیںمگر اس کے ساتھ تجارت جاری اور اسے من پسند ملک قرار دینے کے جنون میں کمی نہیں آرہی۔ مودی فخریہ پاکستان توڑنے میں کردار اداکرنیکا دعویٰ کرتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم ان کو دوست ہی سمجھتے رہیں! یہ عوامل کسی بھی محب وطن پاکستانی کیلئے تکلیف دہ ہیں۔ مقتدر قوتوں کے ہاں معافی کا خانہ نہیں ہوتا۔ عدلیہ کو مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت اپنے بیانات اور رویوں سے اپنے سامنے کھڑا کر رہی ہے‘ نیب میں ریفرنس جا رہے ہیں‘ جن میں ضمانت نہیں ہوتی۔میاں نوازشریف ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کچھ ماہ قبل ہی کہا تھا ’’عوام نے بھارت کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کا مینڈیٹ دیا ہے‘‘ ووٹ کے تقدس کی پامالی انکے رویوں سے بھی ہوتی ہے جو پارٹیاں ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے مینڈیٹ سے تجاوز یا انحراف کرتی ہیں۔
میاں نوازشریف اور بھٹو کیسز یکسر ایک جیسی نوعیت کے نہیں پھر بھی جس طریقے سے یہ لڑے گئے ان میں کئی مماثلتیں موجود ہیں۔ بھٹو صاحب کا غیر ملکی وکلاء پر پابندی کا قانون ان کیلئے مسئلہ بنا۔ میاں صاحب نے آرٹیکل باریسٹھ کے خاتمے کی بجا مخالفت کی تھی،وہ اب انکی سیاست اور وزارت عظمیٰ کیلئے پھندا بن گیا۔ اعلیٰ کردار اور اقدار کا تقاضا تھا کہ وہ 2010ء کی طرح اس آئینی شق کی حمایت جاری رکھتے مگر اب وہ اس ترمیم کو آئین سے نکلوانے کے جتن پُرفتن کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پی پی پی کی اقداراور کردار دیکھیں۔ باریسٹھ کی آئین میں موجودگی پر اب اس نے پلٹا کھا لیا ہے۔ اس کو میثاق جمہوریت بھی اب سرکنڈوں کا جنگل دکھائی دینے لگا ہے کیونکہ نوازشریف اب اسکے ذریعے اپنی سیاست کے گُلستان کو بچانا چاہتے ہیں۔ قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہے اسکے ہوتے ہوئے کسی میثاق کی ضرورت نہیں۔ اخلاقیات آپکو ایک دوسرے کی بے جا مخالفت، عدم برداشت کے رویوں سے روکتی ہیں۔ میاں نوازشریف کی طرف سے پانامہ فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی تین اپیلیں کی گئی ہیں جن میں بڑا جواز نااہلی کی مدت کو بنایا گیا ہے۔ یعنی سپریم کورٹ کو اب تعین کرنا ہوگا کہ میاں نوازشریف کب تک امین اور صادق نہیں ہیں‘ تب تک انکی نااہلیت برقرارہے۔ دوسرے لفظوں میں کب وہ صادق اور امین ہوجائینگے تو انکی اہلیت لوٹ آئیگی۔
میاں صاحب کا کیس انہی پانچ ججوں نے سننا ہے جنہوں نے انکی نااہلیت کا فیصلہ دیا اور ان پانچ ججوں کو لیگی قیادت لمبے ہاتھوں لے رہی ہے۔ اگر ان ججوں پر اپنے اوپر ہونیوالی تنقید،دھمکیوں اور دشنام کا کوئی اثر نہیں پڑتا تو ان کو دورِ عصر کا ولی تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ ایک دانشور نے کہا تھا کہ جب جنگ کا آخری معرکہ ہو‘ تیر تو کیا کمان ۔۔۔ تلوار تو کیا میان بھی اس میں جھونک دو۔ اسکے دو فائدے ہیں شکست کی صورت میں ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت نہیں اٹھانا پڑیگی اور جیت پر جشن مناتے ہوئے کوئی بوجھ ساتھ نہیں ہوگا۔
میاں نوازشریف لگتا ہے، جوشیلے اور غصیلے رفقاء کے کہنے پر کشتیاں جلا کر میدان میں نکل آئے ہیں… مگر مگر، کس کیخلاف؟ بھارت کیخلاف اٹھتے تو پوری قوم نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوتے سیسہ پلائی دیوار بن کر انکے شانہ بشانہ ہوتی، آپ تو عدلیہ پر برس رہے ہیں۔ چرچل کو چھوڑیں جس نے کہا تھا اگر ملک میں انصاف ہو رہا ہے تو ہمیں دُنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ حضرت علیؓ کے قول کو یاد کریں۔ آپؓ نے فرمایا ، کُفر کا معاشرہ چل سکتا ہے ظُلم کا نہیں۔انصاف نہیں ہوگا تو ظُلم روا رہے گا۔ کیا ہم ظُلمت کے اندھیروں میں ڈوبتے جا رہے ہیں؟ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ادارے نہ صرف موجود ہیں بلکہ مضبوط بھی ہیں جو معاشرے کو تاریکیوں کی طرف دھکیلنے والے ہاتھوں کو روکنے اور انجام تک پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں مگر یہ وہ پاکستان ہے جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے جہاں ظلمت ضیاء اور صر صر کو صبا‘ کرگس کو ہما کہنے والوں کی کمی نہیں۔ پاکستان معجزوں کی سرزمین ہے۔ نوازشریف مزید طاقتور ہوکر منصہ شہود پر نمودار ہوسکتے ہیں‘ آئین کو بدل سکتے ہیں مرضی کے قانون بناسکتے ہیں۔