2020 ,مارچ 10
پٹرول ختم ہونے کے باعث جہاز کے لینڈ کرتے ہی ایک انجن بند ہو گیا۔ لینڈنگ میں تین منٹ کی تاخیر ہو جاتی تو بھارتی جہاز 191 انسانوں سمیت لاہور میں قہر اور قیامت بن کر گر جاتا۔ یہ آئی سی 814 رات سات بجے کٹھمنڈو سے اُڑنے والی پرواز تھی۔ سوا گھنٹے میں اس نے دہلی پہنچنا تھا مگر پانچ ہائی جیکروں نے جہاز لاہور لے جانے کا حکم دیا۔ پائلٹ نے اتنا تیل نہ ہونے کی چال چلی ،کہا صرف 15 منٹ کا فیول ہے۔ ہائی جیکر مان نہیں رہے تھے پائلٹ نے ہاتھ جوڑ دئیے۔ دو سو انسانوں کی زندگی کا واسطہ دیا۔ اسی کی تجویز پر ہائی جیکر جہاز ری فیولنگ کے لیے امرتسر اُتارنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی پائلٹ نے جہاز کی سپیڈ آخری حد تک کم کر دی تاکہ جہاز اور مسافروں کو بچانے کے لیے سیکورٹی فورسز کو زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے۔ جہاز کے اغوا کی خبر بھارتی سول ایوی ایشن حکمرانوں ، حکام تک پہنچی تو ان کی آنکھیں پتھرا گئیں اور چہرے اُتر گئے مگر امرتسر میں ری فیولنگ کے لیے اُترنے کی اطلاع پر فکر مندی کی جگہ ہشاشیت نے لے لی۔
وزیراعظم واجپائی کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس میں دہلی سے امرتسر کمانڈوز بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مقامی پولیس کو ائیر پورٹ جانے کی ہدایت کرتے ہوئے دہلی سے کمانڈوز کا انتظار کرنے کو کہا گیا۔ جہاز اُترتے ہی فیول بائوزر آ جانا چاہئے تھا، بھارتی انتظامیہ نے زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنے کے لیے بائوزر بھجوانے میں تاخیر کی ، آدھے گھنٹے میں بھی جہاز کو فِل کرنے کے آثار نظرنہ آئے تو ہائی جیکروں کو صورتحال کی گھمبیرتا کا یقین اور غصہ دوآتشہ ہو گیا۔ انہوں نے پائلٹ کو جہازاُڑانے کا حکم دیا۔ اس نے کہا اب تو پٹرول بالکل بھی نہیں، اُڑتے ہی جہازکریش ہو جائے گا۔ پائلٹ نے بیس منٹ پہلے کہا تھا جہاز میں صرف 15 منٹ کا فیول ہے ، اس کے بعد جہاز لینڈ ہوا اور اب تک سٹارٹ تھا۔ پائلٹ ایک بار پھر منتیں کرنے اور واسطے دینے لگا اسی دوران سٹاف نے ہانپتے کانپتے ہوئے کاک پٹ میں داخل ہوتے بتایا ہائی جیکروں نے مسافروں کو چاقوں سے ہلاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ پائلٹ کو اُڑان بھرتے ہی بنی۔ مسافروں کو چھڑانے کا آئیڈیل موقع تھا جو بھارتی اداروں نے اپنی حماقت سے ضائع کر دیا۔ جہاز اڑا اور اس کے کسی بھی وقت کریش کا پائلٹ اور عملے کو یقین تھا ، ہائی جیکروں کو بھی شاید ہو مگر وہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں مرنے کے بجائے کریش ہونے کو بہتر سمجھتے تھے۔ پائلٹ کو اپنی چال حماقت لگ رہی تھی مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ جہاز کا رُخ پاکستان کی طرف ہوا لاہور میں لینڈ کرنے کی اجازت طلب کی گئی۔ مشرف کو اقتدار میں آئے اڑھائی ماہ پورے نہیں ہوئے تھے۔ انکی طرف سے جہاز کو اُترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ پائلٹ کا خوف کے مارے دَم کے ساتھ شاید اور بھی کچھ نکل رہا ہو۔ اس نے زبردستی لینڈنگ کا فیصلہ کیا مگر ائیر پورٹ اور رن وے کی لائٹس بند ہونے کے باعث وہ کسی روڈ کی لائٹس دیکھ کر رن وے سمجھ بیٹھا۔ تھوڑا نیچے آیا تو اسے اپنی غلطی اور پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کو کریش کا احساس ہوا لہٰذا لینڈنگ کی اجازت دیدی ۔ ایک انجن لینڈ کرتے ہی اور دوسرا دو منٹ بعد بند ہو گیا۔ پاکستان نے صرف جہاز کو پٹرول ہی دیا اور چلے جانے کو کہا۔ اغوا کار جہاز افغانستان لے جانا چاہتے تھے مگر وہاں رات کو ان دنوں لینڈ کرنے کی سہولت نہیں تھی لہٰذا جہاز کا رُخ امارات کی طرف کر دیا۔ وہاں بچے عورتیں زخمی اور مرنے والوں کو اُتار لیا گیا۔ وہاں سے فیول لے کر جہاز کرسمس کے روز قندھار آ گیا۔
قندھار آ کر انکے پہلی بار مطالبات سامنے آئے۔ انہوں نے مولانا مسعود اظہر، عمر شیخ اور مشتاق زرگر کی رہائی ، ساجد افغانی کے تابوت کی حوالگی اور دو ملین ڈالر کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ طالبان نے تاوان اور تابوت کے مطالبات کو غیر شرعی قرار دیا جن سے ہائی جیکر دستبردار ہو گئے۔ 24 دسمبر کو جہاز کے اغوا کا ڈرامہ شروع ہوکر یکم جنوری کو مطالبات مانے جانے پر اختتام پذیر ہوا۔ اغوا کاروں نے بھارت پر دبائو ڈالنے کے لیے دس مسافروں کو ایک ایک کر کے ہلاک کرنے کے فیصلہ کا اعلان کیا تو طالبان نے کہا اگر ایک بھی مسافر کو مارا گیا تو جہاز پر دھاوا بول دیں گے یوں ہائی جیکر انتہائی اقدام سے باز رہے۔
طالبان پانچ سال اقتدارمیں رہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہی پانچ سال تھے جب افغانستان سے بادِسموم اور صرصر کی تپش اور حبس کے بجائے بادِ صبا کے جھونکے آنے لگے۔ جو انسانیت بھارت کے مغویوں کیلئے دیکھنے میں آئی ایسے کئی واقعات اور بھی دنیا کے سامنے آئے۔ دنیا میں شریعت کا اصل شکل کے قریب تر نفاذ اس دور میں یہیں نظر آیا۔ انکے کچھ اقدامات مروجہ جمہوری اصولوں کے معیار پر پورا نہیں اُترتے ہونگے۔ انکے کچھ اقدامات کو مہذب دنیا انکے اجڈ پن سے بھی تعبیر کرتی ہے مگرہمیشہ سے شورش کی آماجگاہ افغانستان میں امن تھا۔ کابل میں طالبان پولیس کے سات اہلکار قانون نافذ کرنے پر تعینات تھے۔ میرے دوست رانا الیاس خان دنیا گھومے ہیں۔ امریکہ کو آئیڈیل ملک قرار دیتے ہیں جو انہوں نے مشاہدہ کیا انکے بقول وہاں نہ جھوٹ بولا جاتا ہے نہ چوریاں ہوتی ہیں۔ ڈسپلنڈ قوم ہے۔
یورپ تہذیب تمدن اصول و ترقی میں امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔ امریکہ میں آپ کو خلافت راشدہ کے دور کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔ یہی کچھ افغانستان میں تھا جو مہذب دنیا کو ’’غیر مہذب‘‘ لوگوں کے ہاتھوں سے نفاذ کے باعث گوارہ نہ ہو سکا ایک زبانی حکم نامے پر پورے ملک سے ہیروئن کی کاشت ختم ہو گئی تھی۔ حکمرانوں کی نیک نیتی پر عوام کو یقین تھا چنانچہ رضاکارانہ تعاون پر تیار ہو گئے۔ طالبان کے دورِ میں کچھ معاملات میں تجاوز بھی ہوا مگر اس کا مطلب انکے وجود کو لاوجود کرنا نہیں ہو سکتا ، ایسی کوشش کی گئی جو خاک میں مل گئی۔ کل کے دہشتگردوں سے آج امریکہ نے مذاکرات کئے۔ یہ صدا سے دہشتگرد نہیں ہیں‘ کل امریکہ کے مجاہدین تھے۔ انہوں نے پہلے روس اور اب امریکہ کے غرور کا سر چکنا چور کر دیا۔ کیا ان گنواروں کے غیر مہذب رویوں کے باعث ایوان ریڈلی نے اسلام قبول کیا؟؟ امریکہ اور نیٹو کے ’’حسنِ سلوک‘‘ سے کتنے لوگ عیسائی ہوئے؟
امریکہ نے افغانوں کی تاریخ پڑھے بغیر یلغار کر دی ، شکر کرے معاہدے کے بعد صحیح و سالم جا رہا ہے اور کچھ عزت بھی پلے رہ گئی ہے مگر اشرف غنی اور مودی اپنے اپنے مفاد کیلئے امریکہ کو افغان دلدل میں دھنسائے رکھنے کیلئے سازشوں کے جال بننے سے باز نہیں رہیں گے۔امریکہ اشرف غنی کے اقتدار کا طوطا اور مودی کیلئے پاکستان میں دہشتگردی کیلئے افغانستان میں انتشار اور بدامنی آئیڈیل ہے مگر کب تک؟ اب تو امریکہ کے پرامن انخلا سے طالبان اشرف غنی کے ساتھ چلنے یا ان کو اپنے ساتھ چلانے پر تیار ہیں۔ معاہدہ ختم ہوتا ہے تو بھی امریکہ کو افغانستان چھوڑنا ہی پڑیگا اور پھر شاید یونائٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے بجائے صرف "واشنگٹن امریکہ" رہ جائے ۔ اشرف غنی اورانکے حواری نجیب اللہ کی طرح خاک اور خون میں لوٹتے نظر آئیں۔
ہم نے "افغان طالبان" کے حوالے سے انسانیت کی بات کی ہے۔ ان جیسا سمجھ کر کچھ لوگوں کو پاکستان میں عزت دی گئی مگر وہ انسانوں کے روپ میں حیوانوں سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔ کرنل امام اور خالد خواجہ کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیکر بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ پاک فوج اور پاکستان کے دفاع کو بھارت سے زیادہ نقصان دہشتگردوں نے پہنچایا۔ انکے بھارتی ایجنٹ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ پاک فوج کے سپوتوں کے سرقلم کر کے فٹ بال کھیلتے تھے۔
پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان جانیوالوں کو پناہ افغان طالبان نہیں، افغان حکمرانوں نے دی۔ بھارت ان کو پاکستان کیخلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ جس خطے کے لوگ کبھی پاکستان کا بازوئے کشمیر زن ہوا کرتے تھے ، اس خطے پر دشمن کے کان اور آنکھیں بن کر کچھ بدیشی، مقامی لوگوں کو گمراہ کر کے قابض ہو گئے تھے۔یہ ناسور بڑی قربانیوں کے بعد پاک فوج نے کاٹ ڈالے۔ آج افغانستان میں طالبان کی ریوائیول ہو رہی ہے۔ اللہ اس نشاۃ ثانیہ کو پاکستان اور خطے کے امن کیلئے بابرکت بنائے۔