2017 ,فروری 22
امریکہ کو دنیا میں جہاں کہیں بھی اپنے مفادات کیخلاف کام کرنے والے عناصر کی موجودگی کا شبہ ہوتا ہے وہ انکی بیخ کنی کیلئے وہاں جا پہنچتا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں ڈرونز کے ذریعے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگارہا ہے۔کوئی ملک اپنی خود مختاری کا لاکھ واویلا کرے امریکہ کو اسکی کبھی پروا نہیں رہی تاہم وہ کسی بھی کارروائی سے قبل ممکنہ ردعمل کا اندازہ ضرور کرلیتا ہے۔اس نے ایران کے گھیرائو کا کئی بار قصد کیا ،بحری ناکہ بندی کی کوشش کی مگر ایک حد سے آگے بڑھنے سے گریز کیا جبکہ عراق،افغانستان اور لیبیاکو ملیا میٹ کردیا۔روس کے ساتھ براہِ راست کبھی جنگ کے آپشن کو بروئے کار نہیں لایا لیکن پاکستان کے کندھے پر بندوق رکھ کر اسکے ٹکڑے کرنے کی کامیاب حکمت عملی ضرور اختیار کی۔ امریکہ آج تک اپنی جنگ بھی اپنے ملک سے دور میدانوں میں لڑتا چلا آیا ہے۔جاپان نے پرل ہاربرپر حملہ کرکے امریکہ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ کر شامل کرلیا،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اتحادیوں کی جاسوسی کے کمال نے جاپان کو پرل ہاربر پریہ باور کراکے حملے کیلئے آمادہ کیا کہ امریکی بیڑے جاپان پر حملے کی تیاری کررہے ہیں۔حالات بہرحال جو بھی تھے دوسری جنگ عظیم امریکہ نے تیسرے براعظم میں آکرلڑی جس میں وہ اور اتحادی کامیاب ٹھہرے۔ جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کیلئے امریکہ نے دو ایٹم بم گرائے۔یہ سوال کئی بار ہوچکا ہے ،اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو کیا پھر بھی امریکہ اسی سفاکی اور بربریت سے ناگی ساکی اور ہیرو شیما میں انسانیت کو بھسم کردیتا؟اس سوال میں مزید تھوڑا سا اضافہ کرلینا چاہیے کہ عراق،افغانستان اور لیبیا کا دفاع بھی امریکہ کی ٹکر کا ہوتا تو کیا امریکہ ان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بارے میں سوچ سکتا تھا؟ اس کا جواب امریکہ کا روس کے ساتھ براہِ راست جنگ اورایران کیخلاف جارحیت سے گریز ہے‘ ایران کے پاس امریکہ کے مفادات کو پوری دنیا میں ٹارگٹ کرنے کی صلاحیت ہے۔ایران امریکہ کے اپنی حدود میں گھسنے والے تین ڈرونز گرا چکا ہے۔مضبوط دفاعی صلاحیت کیساتھ دلیر اور غیرت مند قیادت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کا ہمارے ہاں کبھی فقدان رہااور کبھی قومی مفادات پر ذاتی مفادات غالب آتے رہے،اسی لئے مسئلہ کشمیر پر قائد اعظم جیسی کمٹمنٹ کسی بھی حکمران کے اندر نظر نہیں آئی۔ڈرون تو ڈرون امریکی ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کو قتل کرکے اسکی لاش بھی لے گئے۔اگر اس پر مصلحتاً کارروائی نہیں کی گئی تو پھر پاکستان کے ناقابل تسخیر دفاع کے دعوے نہ کئے جائیں۔ پاکستان کے پاس امریکی ہیلی کاپٹرز کو روکنے کی پوری صلاحیت تھی اس کو بروئے کار نہ لاکر اس وقت کی فوجی قیادت نے اپنی ذمہ داری سے انحراف کیا جس کی فوجی ایکٹ میں سزا موجودہے ۔اس دور کی سیاسی قیادت نے صدر اوباما کوکامیاب اپریشن پر مبارک باد دی۔ ایسی قیادتوں سے آپ قومی غیرت کی کہاں تک توقع رکھ سکتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف شریف نے قومی غیرت کے حوالے سے وہ قرض ضرور اتارنے کی کوشش کی جو ان پر فرض بھی نہیں تھے تاہم سیاسی قیادت کی سوئی ابھی تک وہیں پر پھنسی ہوئی ہے جہاں زرداری حکومت کی تھی۔