آئیڈیل:بنگلہ بَندھو ۔۔۔۔۔ تحریر: فضل حسین اعوان ۔۔۔۔ نوائے وقت

فضل حسین اعوان
شفق
awan368@yahoo.com

مجیب الرحمٰن کے غدار ہونے میں کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی۔مجیب کی وجہ سے کتنی عصمتیں لٹیں،کتنی عزتوں کے جنازے اُٹھے،ملک دولخت ہوگیا،اس سے بڑابھڑوہ اور غدار کوئی کیا ہوگا۔خود مجیب اورا سکی بیٹی نے پاکستان توڑنے کی سازش کے راز طشت از بام کئے ۔
16جنوری 1972کو معروف برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے تسلیم کیا تھا ۔’’ میں 1948سے بنگلہ دیش کے قیام کیلئے کام کرتا رہا ہوں۔‘‘ چند برس قبل وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنے یوم آزادی پر کہا۔’’اکتوبر1969 میں پاکستان توڑنے کا جامع منصوبہ تیار کر لیا تھا، یہ منصوبہ لندن میں تیار ہوا اور وہ خود بھی وہاں موجود تھی۔ شیخ مجیب کے قریبی ساتھی اور بنگلہ دیش اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہنے والے کرنل ریٹائرڈ شاقات علی نے اگرتلہ سازش کیس کو سو فیصد درست قرار دیا جس کا اعلان شیخ مجیب نے کرنا تھا، پاکستانی حکام کو اس سازش کا بروقت علم ہوگیا اور یوں یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ ’’را‘‘ کے کچھ افسروں نے بھی کریڈٹ لینے کیلئے ذکرکیاکہ انہوں نے پاکستان توڑنے کیلئے شیخ مجیب کو کس کس طرح استعمال کیا، کب کب اور کتنے پیسے دئیے ۔ اگر گہرائی میں جانے کی فرصت نہ ہو تو اسکے چھ نکات میں بھی غداری اورعلیحدگی کی بدبو کے بھبکے اٹھتے ہیں۔
نااہلی کے غم میں ڈوبے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بڑے جوش اور ماورائے ہوش ایک گفتگو میں فرمایا ’’شیخ مجیب الرحمان محب وطن تھے لیکن انہیں باغی بنا دیا گیا، مجھے اتنے زخم نہ دو کہ میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں‘‘۔ ایسے بیانات عموماً عوامی مقبولیت کے زعم میں دیئے جاتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی طرح قائد متحدہ بھی ایسا ہی کرتے اور کہتے ہیں۔ مجیب الرحمن اور الطاف کی سیاسی کیمسٹری میں کئی حوالوں سے حیران کن یکسانیت ہے۔ سٹوڈنٹ لیڈر، بھارت سے قربت، اسکی ایجنٹی۔۔۔ اب کوئی اور کردار بھی اسی منزل کا راہرو ہے تو…مگر مجیب کا انجام ضرور مدنظر رکھنا چاہئے جس کی ایک جھلک مجیب کے قاتل کرنل فاروق کی زبان سے ملاحظہ فرمایئے۔ جسے حسینہ واجد نے اختیارات پر مکمل دسترس حاصل ہونے پر پھانسی دلوائی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کے حفاظتی دستے کے کمانڈرکرنل فاروق کا شمار مجیب کے قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا لیکن مجیب کی اصلیت سامنے آنے پر فوج کاایک حصہ مجیب کے خون کا پیاسا ہوگیا۔ کرنل فاروق کہتے ہیں: ’’ شیخ مجیب کے بیٹے جمال مجیب الرحمن نے پاک فوج سے مقابلے کیلئے ذاتی فوج ’’راکھی باہنی‘‘ کے نام سے تشکیل دی جس نے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی اور دوسرے فسادی گروپوں سے زیادہ تباہی مچائی۔ مجیب ایسا تنگ نظر سیاستدان تھا جس کیلئے ذاتی مفاد اور پارٹی ہی سب کچھ تھا۔ شیخ مجیب الرحمن تاحیات صدر رہنے (امیرالمومنین بننے) کا منصوبہ بنا چکا تھا۔ لوگ بھوک سے مر رہے تھے اور سارا سرکاری خزانہ اسکے بیٹے، بھائی اور خاندان کے دوسرے افراد لوٹ رہے تھے۔ بنگلہ دیش کو اس ناسور سے نجات دلانے اور بنگالیوں کو ’’راکھی باہنی‘‘ کے ظلم سے بچانے کیلئے تین ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ میری سربراہی میں ٹیم جب اسکی قیام گاہ تک پہنچی تو مجیب کے ذاتی محافظوں نے ہم پر فائرنگ کر دی جس سے آرٹلری کے کیپٹن شمس الاسلام جاں بحق ہوگئے۔ فوجیوں نے اپنے آفیسر کو مرتے دیکھا تومجیب کے محافظوں کو ہلاک کردیا۔ اسی اثناء میں مجیب کے دونوں بیٹے جمال اور کمال سٹین گنیں نکال کر مقابلے میں آگئے۔مجیب کو میجر محی الدین نے ایک کمرے سے پکڑ لیا۔ مرنے سے پہلے مجیب نے کہا ۔ ’’کیا تم مجھے قتل کرنا چاہتے ہو؟ یہ خیال دل سے نکال دو، مجھے تو پاک آرمی نہیں مارسکی تو تم کس کھیت کی مولی ہو‘‘ اس پر میجر نورالدین نے میرا اشارہ پا کر اسٹین گن کا برسٹ چلا دیا اور یوں مجیب اپنی کراہتوں سمیت انجام کو پہنچ گیا۔دراصل یہ بھارت کا ایجنٹ تھا پروانڈین تھا۔ بنگالیوں کو اسی نے میر جعفر کی طرح بھارت کو بیچ دیا تھا۔
میاں نواز شریف کو اللہ نے تین بار وزارتِ عظمیٰ کے عظیم ترین منصب سے سرفراز فرمایا،تیس سال کسی نہ کسی طرح اقتدار میں شریک چلے آرہے ہیں، سوائے پانچ چھ سال سے سعودی عرب میں جلاوطن رہنے کے۔ کسی بھی لیڈر کے میچور ہونے کیلئے اقتدارپر اتنے عرصے فائز رہنا کافی ہے۔ اتنے عرصے میں مشکلات کا خم ٹھونک کر سامنا کرنا انسان سیکھ جاتا ہے۔ میاں صاحب‘ اپنے نوازش یافتہ اور پروردہ دانشوروں کے ایسے زریں خیالات پر کہ آپ مدبراعظم ہو گئے، قائداعظم ثانی، لی جنڈ، جنیئس اور نابغۂ روزگار ہیں، یقین کرنے کے بجائے سوچیں کہ آپ سیاست میں کس مقام پر ہیں۔ نہ جانے کس نے کان میں پھونک دیا کہ آپ ایک نظریہ ہیں ایک فلسفہ ہیں، آپ نے سنا، مانا اورجلسے میں اعلان کر دیا۔ ’’نواز شریف ایک نظریہ ہے‘‘۔ ایسا کبھی اپنے لئے قائد واقبال نے بھی نہیں کہا۔ اپنے خلاف فیصلہ آیا تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اپنے ہی اداروں کی تضحیک ور تذلیل کی جا رہی ہے۔ دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ نااہل ہوئے تو چاہتے ہیں ساری دنیا نااہل ہو جائے یا جج خائف ہوکر فیصلہ واپس لے لیں، فرسٹریشن کابُری طرح شکارہیں۔ جس سیاسی عروج اور عظیم ریاستی منصب پر پروردگار نے پہنچا دیا اس کا خود کو اہل ثابت کریں، اس مقام پر آئے ہیں تو پہاڑ جیسا جگرا اور حوصلہ ہونا چاہئے، پہاڑ کبھی روتے نہیں ہیں، آپ کا ماتم ختم ہونے کو نہیں آرہا، مشرف سزائے موت دلانا چاہتا تھا، آپ نہیں ڈرے مگر اسی عدالت میں اہلیہ محترمہ کے دوپٹے سے آنسو پونچھنے کے بھی کچھ لوگ راوی ہیں۔ ملک میں آپکی طاقت کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے ۔ نہ جج، نہ جرنیل، نہ بیوروکریسی مگر اللہ کے سامنے فرعون اور شدادکی حیثیت بھی چیونٹی سے زیادہ نہیں۔ اپنے اعمال کا جائزہ لیں، کونسا عمل اللہ کی پکڑ کا باعث بنا؟ ڈیڑھ سال میں تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ آیا اسے سلیکٹوّ اورتیز رفتار فیصلہ کہا جارہا ہے، یہ سوال بھی بجا کہ پاناما لیکس میں 235 لوگوں کے نام ہیں، باقیوں سے صرف نظر، سزا کیلئے صرف نواز شریف کیوں؟۔ ملک میں سزائے موت کے کتنے قیدی ہیں اور کئی کئی سال سے جیلوں میں پڑے ہیں۔ توہین رسالت میں بھی کئی کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ ممتاز قادری ہی کی سزائے موت کی جلدی کیوں کی گئی۔ ممتاز قادری کو 29 فروری 2016ء کو پھانسی دی گئی۔ انکے جنازے میں جمِ غفیر سے ناموس رسالتؐ کیساتھ بے پایاں محبت اظہار ہوتا ہے۔ کئی لوگوں سے سنا، نواز شریف کا کائونٹ ڈائون شروع ہوگیا۔ عمران کے دھرنے کی دھول اس واقعہ سے ایک سال قبل بیٹھ چکی تھی، جسٹس ناصرالملک نے 2013ء کے انتخابات کو شفافیت کی سند دے کر عمران کی کسی بھی ممکنہ تحریک کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔ نواز حکومت کیلئے راوی سُکھ ہی سُکھ اور چین ہی چین لکھ رہا تھا مگر قادری کی پھانسی کے ساتھ ہی بدقسمتی کا آغاز ہو گیا جس کااختتام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پھانسی کے کچھ دنوں بعد ہی پاناما لیکس سامنے آئیں اور پھر جو کچھ ہوا سامنے ہے اس میں مزید اضافہ حلف نامے میں ترمیم کر کے کر لیا۔حکومت آپکی ہے، کل چکوال میں الیکشن جیتا، عوام آپکے ساتھ ہیں مگر سکون نہیں، چین نہیں، بے بسی ہے، بے کسی ہے۔
اپنی نااہلیت کا دکھ اور عمران کو نااہل قرار نہ دینے کا صدمہ شاید دماغ پر اثر کرگیا کہ اپنے آپ کوغدار اعظم مجیب کی پوزیشن پر لے آئے ۔اس جیسے انجام سے پناہ مانگیں۔اپنے کام کارکردگی اور کمالات کا جائزہ لیں،مودی جندال سے دوستی پر لعنت بھیجیں،یہ جج جرنیل آپکے تراشے ہوئے صنم ہیں،آپکو آنکھیں نہیں دکھا سکتے تھے۔حواس باختہ اور مشتعل نہ ہوںاللہ کی کرم نوازی بہترین گوشۂ عافیت ہے۔ہم سب اس میں پناہ لیں۔۔۔ توبہ اللہ کی آغوش ہے۔