2017 ,جون 25
سٹیفن آر کوئے اپنی کتاب ”سیون ہیبٹ آف ہائیلی ایفکٹِڈ پیپلز“ میں ایک دلآویز مثال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک آدمی نے ایک بزرگ کو درخت کاٹتے دیکھا جو بہت دیر سے درخت کاٹ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا آرا بہت کند ہے، اس نے بزرگ کو مشورہ دیا کہ وہ آرے کو تیز کر لے، اس سے وہ جلدی اپنا کام ختم کر لے گا، اس کی محنت بھی کم ہوگی۔ اس پر اس بزرگ نے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے پاس آرے کے تیز کرنے کا وقت نہیں ہے“۔ ہم بھی اپنی روزمرہ زندگی میں نماز نہیں پڑھتے، ورزش نہیں کرتے، وقت پر کھانا نہیں کھاتے اور یہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے جبکہ بیمار ہونے کی وجہ سے کہیں زیادہ وقت بستر پر گزار کر اپنی بُری خوراک کا اور ورزش نہ کرنے کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ہمارے پاس عبادت کا بھی وقت نہیں ہے لیکن جب بلائے ناگہانی کا سامنا ہوتا ہے پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ دراصل ہمیں زندگی کو خوبصورت بنانے اور اسے ترتیب سے گزارنے کے اصولوں کا تو علم ہوسکتا ہے مگر انہیں مشکل سمجھتے ہیں، اس لئے اپنانے سے گریز کرتے ہیں، ان کوعادت بنانے پر تیار نہیں ہوتے۔ سٹیفن آر کوئے نے مزید لکھا کہ ”ہم سوچ کے بیج بوتے ہیں تو عادت کو کاٹتے ہیں۔ عادت کو بوتے ہیں تو عمل کو کاٹتے ہیں۔ عمل کو بوتے ہیں تو کردار کو کاٹتے ہیں اور کردار کے بیج بونے پر ہی قسمت کو تشکیل دیا جاتا ہے۔ شخصیت کا پیڑ جن عادات کی بدولت تناآور اور بہترین بلندی پر پہنچتا ہے، وہ سات ہیں“۔
ان عادات پر پھر کبھی بات کرلیں گے۔ جہاں ایک خاتون کی عادت کے حوالے سے تحریر بھی چشم کشا ہے۔ ”بار بار جب انسان سوچ سمجھ کر غور و فکر کے بعد عمل کرتا ہے تو وہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔ عادت کے ذریعے ہم مشکل سے مشکل کام کو آسانی سے کر لیتے ہیں مثلاً مجھے کہانیاں لکھنے کا شوق ہے چونکہ مجھے دن میں بالکل وقت نہیں ملتا تو میں صبح تین بجے اُٹھ جاتی ہوں۔ تین گھنٹوں میں سے دو گھنٹے پڑھنے اور ایک گھنٹہ لکھنے میں صرف کرتی ہوں جبکہ دوسری طرف میری ایک دوست ہے وہ صبح نماز کے لیے ا±ٹھتی ہے اور پھر نماز پڑھ کر سو جاتی ہے۔ وہ مجھ پر حیران ہوتی ہے اور میں اس پر۔ میں اس لیے حیران ہوتی ہوں کہ اسے جاگ جانے کے بعد نماز پڑھ کر نیند کیسے آ جاتی ہے اور وہ مجھ پر حیران ہوتی ہے کہ کوئی اُلو کی طرح رات کو کیسے جاگ سکتا ہے۔ کئی لوگ تو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے، سوچ کے دھارے، پھر عمل اور عادت کی بات ہے۔ سوچ کا بیج بوئیں گے تو عمل اور عادت کی فصل اُگے گی۔ ہماری زندگیاں اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں کہ ایک فرد کے لیے جو کام مشکل ترین ہے دوسرے کے لیے وہی کام آسان ترین۔ آپ اگر بغور مشاہدہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی وجہ ہماری سوچ ہے، جو عادات کی تشکیل میں معاون ہوتی ہے۔“
بعض دفعہ زندگی میں ایسا کچھ ہوجاتا ہے کہ سوچ بدلتی ہے، عادتیں بدلتی ہیں اور کبھی تو زندگی ہی بدل جاتی ہے، تقدیر اور مقدر بدل جاتا ہے۔ کایا پلٹ جاتی ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر ایسا چلتا پھرتا کردار بلکہ اشتہار نظر آتا ہے۔ موٹر بائیک پر مائیک کے ذریعے انسانوں کو راستی اور مسلمانوں کو قبلہ درست کرنے کا درس دیتا ہے، انسانیت کی خدمت کا زبان اور بائیک پر خطاطی کے اعلیٰ نمونوں کی تحریر کے کتبوں کے ذریعے۔ جہاں کہیں خواتین ہوں ان کو پردے کی تاکید اور خاتونِ جنت کے اسوہ کواپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ شخص کون ہے؟ جو بھی ہے ساغر صدیقی کی طرح خوددار ہے، کسی سے ایک دھیلے کا بھی روادار نہیں۔ یہ پشتو فلموں کے کبھی معروف اداکار تھے۔ وہی گلیمرس زندگی جو فلمی دنیا کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کی زندگی میں انقلاب کیسے آیا؟ کایا کیسے پلٹی، روایتی عادتیں کیسے احسن عادتوں میں ڈھل گئیں! یہ بڑی عجب داستان ہے۔ انہیں دو نوجوان ملنے آئے۔ بیٹھے بیٹھے ان میں توتکار ہوئی،بات لڑائی ہاتھاپائی تک جاپہنچی تو ایک نے پسٹل نکال کر فائر کردیا جو بیچ بچاﺅ کرانے والے میزبان کے سینے کے بائیں جانب عین دل میںسوراخ کرگیا۔ باہم دست و گریباں نوجوانوں کو اپنے استاد کی پڑگئی۔ انہیں اٹھایا، فوری طور پر شیخ زاید ہسپتال گئے۔ ہسپتال والوں نے پولیس کیس قرار دے کر علاج کرنے سے انکار کردیا۔ وہاں سے دوسرے ہسپتال لے گئے، اطلاع ملنے پر وہاں ایکٹر عجب گل پہنچ چکے تھے، ان کے کہنے سننے پر جعفری صاحب کو داخل کرلیا گیا۔ دل میں سوراخ ہو، انسان زندہ رہ جائے، ایسا ممکن نہیں، اگر ایسا ہوجائے تو یہ معجزہ ہے۔ آج بشیر جعفری کی زندگی ایک مجسم معجزہ ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں کہ جس دوران ان کو ہسپتال لے جایا رہا تھاوہ کسی دوسری دنیا کا مشاہدہ کررہے تھے۔ انہیں جہنم نظر آئی جس میں لوگوں کے ساتھ وہی کچھ ہورہا تھا جو قرآن و حدیث میں فرمایا گیا ہے۔ انہوں نے آگ کی شدید تپش خود محسوس کی۔ انہیں زندگی کے ریگزاروں کے ایک ایک پل کی فلم چلتی محسوس ہوئی اور جہنم زاروں سے پناہ کی دعا کی۔ اللہ کے حضور دنیا میں جانے کے ایک موقع کی استدعا۔ وہاں جاکر کوئی انسان لوٹتا نہیں مگر قدرتِ کاملہ سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ ہوسکتا ہے وہ اگلے جہان نہ پہنچے ہوں، سب کچھ ان کو راست پر لانے کیلئے دکھایا جارہا ہو۔ بہرحال علاج سے وہ صحت یاب ہوگئے۔ اس کے بعد پھر کبھی فلمی دنیا کا رُخ نہیں کیا۔ یکسر سب عادتیں بدل گئیں۔ نماز روزے کے عادی ہوگئے۔ تعصبات سے عاری ہیں، تفرقوں سے دور ہیں، تبلیغ کو مشن بنا لیا۔ ایک معمولی سے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ فنِ خطاطی میں مہارت ہے، نوجوانوں کو یہ فن سکھاتے ہیں، ضروریات محدود ہیں گزارا ہورہا ہے۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔
اپنے مشن کے دوران جہاں نماز کا وقت ہوا وہیں قریبی مسجد میں نماز ادا کرلی۔ ایک مرتبہ علامہ اقبال ٹاﺅن میں ایک مسجد میں نماز کیلئے گئے، اس مسجد کاخوش الحان اورخوبصورت نوجوان امام ان سے پُرتپاک طریقے سے ملا۔ یہ جب بھی وہاں جاتے وہ بڑی قدر کرتا، عزت و احترام سے پیش آتا۔ بشیر جعفری کہتے ہیں کہ ایک دن ان کو مسرت شاہین نے فون کرکے کہا کہ ان کی ساتھی اداکارہ سنیتا خان کی بھی دنیا بدل گئی ہے، وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔ مگر ملاقات کی سبیل نہ نکل سکی۔ پشتو فلموں کے بڑے اداکاروں میں طارق شاہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ان کا انتقال ہوگیا تو جعفری صاحب وہاں گئے۔ وہ نوجوان امام جہاں مہمانوں کی تواضع میں مصروف تھا، اسے دیکھ کر بشیر جعفری حیران ہوئے۔ مسرت شاہین بھی لاہور آئی ہوئی تھیں۔ وہ جعفری صاحب کو خواتین والے حصے میں لے گئیں، جہاں ایک خاتون چہرہ مہرہ لپیٹے بیٹھی تھیں۔ مسرت شاہین نے بتایا کہ یہ سنیتا خان ہیں۔ سنیتا خان نے اپنی کایا پلٹنے کی داستان سنائی کہ کس طرح ان کے بیٹے پر مولانا طارق جمیل کا سحر طاری ہوا۔ اس نے دنیا کے جھمیلے چھوڑ کے دین کی راہ اپنا لی۔ اس بیٹے نے ماں سے فلم انڈسٹری چھوڑنے کو کہا مگر وہ مان کر نہ دیں کہ کھائیں گے کہاں سے؟ بیٹے نے کہا دنیا بڑی وسیع ہے اللہ کوئی سبب بنا دے گا مگر سنیتا نے بیٹے کی ایک نہ سنی۔ آخرکار بیٹے نے کہا کہ آپکو فلموں اور بیٹے میں سے ایک کو چھوڑنا ہوگا۔ اس نے سوچنے کیلئے تین دن دیئے۔ تیسرے دن سنیتا کا ذہن، پیشہ اور عادتیں سب بدل چکی تھیں۔ بشیر جعفری نے پوچھا کہ وہ بیٹا کہاں ہے۔ اس نے اسی نوجوان کی طرف اشارہ کیا جو مہمانوں کی آﺅ بھگت کررہا تھا، وہی خوبصورت اور خوش الحان امام مسجد۔ عادتیں بدل سکتی ہیں، کایا پلٹ سکتی ہے، کامیابیاں در پر ہاتھ باندھے کھڑی ہوسکتی ہیں، تھوڑی سی محنت اور جذبے کی ضرورت ہے۔ رمضان میں لوگ عبادات کو زیادہ وقت دیتے ہیں، صدقہ و خیرات دیتے ہیں، ناداروں کی مدد کرتے ہیں، بے نواﺅں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ مگررمضان کے بعد عید کے ساتھ ہی یہ باب بند ہونے لگتا ہے۔کیا بے وسیلہ لوگوں کو عید کے بعد بھوک نہیں لگتی؟ ان کے مسائل حل ہوجاتے ہیں؟ عبادات کی ضرورت نہیں رہتی؟؟؟