طلسماتی چھڑی

2016 ,نومبر 30

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



 

فوجی کمانڈ میں تبدیلی بڑی خوش اسلوبی سے ہو گئی۔ جنرل راحیل شریف نے برضاورغبت طاقت کی چھڑی جس میں جادوئی اور طلسماتی قوت ہوتی ہے جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے کر دی۔ جنرل راحیل شریف کے کام اور کارکردگی سے پوری قوم مطمئن ہے۔ سوائے انکے جن کے خلاف بے رحمانہ کارروائیاں ہوئیں، جن کو ملک سے بھاگنا پڑا‘جو جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور پھانسیوں پر چڑھ رہے ہیں اور خصوصی طور پر ان کو جن کے من کی مرادیں پوری نہ ہوئیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میڈیا اور پوسٹرز کے ذریعے ان کو مشرف کی طرح آئین شکنی کی ترغیب دیتے رہے۔ ملک سے ناانصافی، ظلم، جرائم اور کرپشن کا خاتمہ فوج کا جزوقتی کام تو ہو سکتا ہے کل وقتی نہیں۔ اس کیلئے عدلیہ موجود ہے۔ وہ اپنا کردار ادا کرے تو فوج کی طرف کسی کو دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ عدلیہ پر زور نہیں دیا جاتا۔ یہاں کہہ دیا جاتا ہے ججوں میں جرأت نہیں، وہ بکے ہوئے ہیں۔ اگر ایسے ججز ہیں یا ہو گزرے ہیں تو ان کو معاشرے میں اس کا احساس کیوں نہیں دلایا جاتا۔ عدلیہ اتنی طاقتور ہے کہ وزیراعظم کو قانون پر عمل نہ کرنے پر گھر بھجوا چکی ہے اور ’’ایویں ای‘‘ حکومت ختم ہونے پر اسے بحال کرا چکی ہے۔ اتنی طاقت کسی اور کے پاس نہیں ہے۔

اب جنرل راحیل شریف بڑے تزک و احتشام اور عزت و احترام کے ساتھ گھر جا چکے ہیں۔ ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوہ جادوئی اور طلسماتی چھڑی سنبھال چکے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو اپنی لی گیسی پر یقین تھا یا وہ کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے جاں نشین کی سفارش کا آپشن بھی استعمال نہیں کیا۔ اس راز سے پردہ عرفان صدیقی صاحب نے اٹھایا ہے۔ وہ وزیراعظم کے کتنے قریب ہیں اس کا اندازہ اشک آباد ٹرانسپورٹ کانفرنس میں انکے وزیراعظم کے ساتھ ہال میں ہم نشست ہونے سے ہوتا ہے۔

پاکستان میں آرمی چیف کی تبدیلی کئی بار وجہ تنازع بنی۔ جنرل مشرف نے تو اپنی تبدیلی پر نواز شریف حکومت کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ جنرل راحیل شریف نے تو واقعی شرافت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے نہ صرف ٹیک اوور کرنے کی ترغیب دینے والوں کی بات پر دھیان نہیں دیا بلکہ توسیع کی خواہش بھی نہیں کی۔ دس ماہ قبل جب ان کو زیادہ ہی متنازعہ بنایا جارہا تھا تو انہوں نے کہہ دیا، وہ توسیع نہیں لیں گے مگر پھر بھی ان کی توسیع کے حوالے سے ایک ہیجان بپا کر دیا گیا۔ انہوں نے کسی کا اثر نہیں لیا، باعزت طریقے کے ساتھ ریٹائرمنٹ لے لی۔ جنرل راحیل نے تین سال میں دہشت گردوں، بلوچستان کے علیحدگی پسندوں، کراچی میں جرائم پیشہ عناصر اور ایل او سی پر بھارت کے خلاف جو کچھ کیا وہ اس سے قوم کے ہیرو اور محسن بن گئے۔ ان کو توسیع ملتی تو شاید ان کا وہ وقار باقی نہ رہتا۔ انہوں نے اپنے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد اچھا فیلڈ چنا۔ ’’شہداء فائونڈیشن کے لئے کام‘‘ اس سے ان کی عزت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ وہ سیاست سے دور رہے تو ہر پاکستانی کے دل کے قریب ہونگے۔ سوشل میڈیا پر ان پر اوچھے وار ہو سکتے ہیں، اس کا مسکت جواب ان کے چاہنے والے دیں گے۔ انہیں بہرحال ان عناصر سے خبردار رہنا ہے جن کا انہوں نے جینا حرام کر رکھا تھا۔وہ ان کے جانی دشمن ہیں اور جانی دشمن کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔

بات جنرل راحیل کے ہیرو کے کردار کی ہو رہی ہے۔ انکی طرح جنرل میسروی بھی پاکستان کے ہیرو اور محسن ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل سر فرینک والٹر میسروی کو قائم مقام فور سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دیکر پاکستانی فوج کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا۔ انہی کے دور میں 22 اکتوبر 1947 کو آپریشن گلمرگ شروع ہوا۔ پاکستانی قبائلی لشکر پیش قدمی کرتا ہوا سری نگر کے مضافات تک پہنچ گیا۔ جنگِ کشمیر یکم جنوری 1949 کو ’جو جہاں ہے وہیں رک جائے‘ کے اصول کے تحت اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے تھمی۔ تاہم جنرل میسروی کی 35 سالہ فوجی ملازمت کی میعاد دس فروری 1948 کو دورانِ جنگ ہی ختم ہوگئی۔ بھارتی گورنر جنرل مائونٹ بیٹن اور کمانڈر انچیف سر روب لاک ہارٹ جنرل میسروی سے خوش نہیں تھے کیونکہ میسروی نے انھیں قبائلیوں کی پیش قدمی کے بارے میں بروقت آگاہ نہیں کیا تھا۔ جنرل میسروی کا موقف تھا کہ وہ ایسی رازدارانہ معلومات صرف پاکستانی گورنر جنرل اور حکومت کو دینے کے پابند ہیں۔

جنرل راحیل شریف نے معاملات جہاں چھوڑے ہیں وہاں سے آگے لے جا کر اور ان کو حتمی انجام تک پہنچا کر نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ قوم کے تیسرے ہیرو ہوسکتے ہیں۔ یہاں پاکستان کے ایک مظلوم آرمی چیف جنرل گل حسن کا تذکرہ بھی برمحل ہوگا۔’’سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو، آرمی چیف جنرل گل حسن کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ گل حسن کو جی ٹی روڈ کے ذریعے کار پر لاہور روانہ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک اعلیٰ اجلاس میں شرکت کرنی ہے اور پیشکش کی گئی کہ گورنر اور ایک وزیر کے ساتھ لاہور چلے جائیں۔ یہ 3 مارچ 1972ء کا دن تھا، پنجاب کے گورنرغلام مصطفی کھر تھے۔ کار میں یہ دونوں صاحبان جنرل کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ ایک گھنٹے تک گل حسن کو پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ جبری حراست میں ہیں۔ جب شک کا اظہار کیا تو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں نے انکی پسلیوں پر پسٹل رکھ دئیے۔

سی این سی کی کار جونہی پنڈی سے لاہور کی طرف روانہ ہوئی عین اس وقت وزیر خزانہ مبشر حسن کو لے کر ایک ہیلی کاپٹر اوکاڑہ کی طرف محوِ پرواز ہوگیا۔ اوکاڑہ سے جی او سی جنرل ٹکا خان کو ساتھ لیا اور جنرل گل حسن کے لاہور پہنچنے سے قبل ٹکا خان اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ ٹکا خان پر اپنی طلبی کا مقصد اس وقت واضح ہوا جب انکے کندھوں پر آرمی چیف کے کرائون لگائے جا رہے تھے۔

پاکستان کے ظالم ترین آرمی چیف کی بات کی جائے تو یہ اعزاز جنرل ضیاء الحق کے کم از کم آج تک حصے میں رہا ہے،انہوں نے خود کو اس اعلیٰ ترین منصب پر پہنچانے والے شخص ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا کے دم لیا۔

جنرل راحیل شریف خدا حافظ، جنرل قمر جاوید باجوہ ویلکم۔ جنرل باجوہ کی یہ ادا بہت سے لوگوں کو پسند آئی کہ انہوں نے آرمی چیف کی دوڑ میں شامل اپنے سینئرز کو ریٹائرمنٹ لینے سے روک لیا۔

 

متعلقہ خبریں