اپ سیٹ

2017 ,ستمبر 13

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



لاہور کے حلقہ این اے 120 میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ کس کے درمیان؟ عمومی رائے میں یہ مقابلہ مسلم لیگ ن کی سابق خاتونِ اول محترمہ کلثوم نواز اور میڈم یاسمین راشد کے درمیان ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اسے فاروق میر بمقابلہ تمام پارٹیاں باور کرا رہی ہے۔ مشرف کی مسلم لیگ نے پری پول دھاندلی کا الزام لگا کر اپنے امیدوار کو ود ڈرا کرا لیا ہے۔ وہ میدان میں ہوتا تو کلثوم نواز کے ساتھ کانٹے کے مقابلے کا دعویٰ کرتا۔ پی ٹی آئی بھی پری پول دھاندلی کا واویلا کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایسی دھاندلی کا نوٹس لینا ہے اور نیب کی طرح وہ نوٹس لیتا دکھائی بھی دے رہا ہے۔ نیب کے پاس 150 میگا کرپشن کیس 18 سال سے موجود ہیں جو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ابتدائی مراحل میں ہیں۔ ویسے نیب کو کام بھی تو نہیں کرنے دیا جا رہا۔ اب جبکہ اس نے سپریم کورٹ میں ان کیسز کو جلد نمٹانے کا وعدہ کیا تو میاں نواز شریف فیملی کے ریفرنسز فوری طور پر دائر کرنے اور 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم آ گیا اس لئے نیب پھڑپھڑا اور پلٹ کر جھپٹتے جھپٹتے رہ گیا۔ ایاز صادق اور بعض وزراء کرام کی دھمکیوں پر نیب کا دُبک جانا محض ایک ’’قیاس‘‘ تھا۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ ویسے بھی پی ٹی آئی کی ’’کوڈی کوڈی‘‘ جاری ہے۔ اس حلقے میں خود کو حافظ محمد سعید کی ملی مسلم لیگ بھی ہلکا محسوس نہیں کرتی۔ ملی کو کچھ لوگ ملٹری مسلم لیگ بھی کہتے ہیں۔اسکے کارکن ڈور ٹو ڈور جارہے ہیں۔کارنر میٹنگز ہورہی ہیں۔اسکی لیڈر شپ اپنی مہم سے پُرامید دکھائی دیتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ علاقے کے لوگ زبردست پذیرائی کرتے ہوئے دفاتر کھول رہے اور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ شیخ یعقوب ملی مسلم لیگ کے امیدوار ہیں۔ملی لیگ کے ایک لیڈر خالد ولیدنے مریم نوازکیلئے کلبھوشن کادہشتگرد کے طور پر نام لینے پر ایک لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے،چودھری اعتزاز احسن نے اس سے نصف رقم نواز شریف کی طرف سے ایسا ہی کہنے پر مختص کی تھی۔

اس حلقے میں ملی مسلم لیگ کی طرح تحریک لبیک پاکستان بھی پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ اسکے امیدوار شیخ اظہر رضوی ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان مذہبی تحریک لبیک یا رسول اللہ کا سیاسی ونگ ہے۔ اسکے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی ہیں۔ علامہ صاحب فدایانِ ختم نبوت کے امیر بھی ہیں۔ کالم نگار برادرم اسلم خان کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے حوالے سے اصل کام علامہ خادم حسین رضوی کی سربراہی میں تحریک ہی کر رہی ہے باقی اس نام کی تحریکیں دکانداری ہیں۔ علامہ صاحب عاشق رسول اور شعلہ بیان مقرر ہیں۔ ان کا حلقہ ارادت بیرون ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ اور انکے ساتھی علامہ غلام عباس فیضی، پیر قاضی محمود اعوان، پیر سید انیس شاہ، مفتی عابد رضا قادری، انتخابی مہم میں ہر اول دستہ ہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی سمیت اکثر لیڈر ہمہ وقت حلقے میں موجود رہتے ہیں۔ خواتین گھر گھر جا رہی ہیں۔ شیخ اظہر رضوی کو اس حلقے میں انڈر اسٹیمیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ قومی سیاست میں بھی ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک پاکستان کی پہلی انٹری ہے۔ الیکشن کے نتائج ان پارٹیوں کی سیاسی سمت ضرور متعین کر دینگے۔

اس حلقے سے 40 سے زیادہ امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ جیت ایک کی ہو گی۔ دوسرے نمبر پر بھی ایک ہی امیدوار کے آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ آج بحث اس پر ہو رہی ہے کہ پہلے نمبر پر محترمہ کلثوم نواز ہونگی یا میڈم ڈاکٹر یاسمین راشد۔ دونوں کی پارٹیوں کو اپنی اپنی جگہ جیت کا اعتماد ہے۔ مسلم لیگ ن کیلئے یہ زندگی و موت کا مسئلہ بنا ہواہے۔ وہ اس حلقے میں جیت کر عوامی فیصلہ اپنے حق میں آنے کا دعویٰ کرنے کا ابھی سے اعلان کر رہی ہے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد ایک سنجیدہ ‘اعلیٰ کردار، اوصاف اور اخلاقیات کی مالک ہیں۔ زمانہ طالبعلمی میں ٹیبل ٹینس کی کھلاڑی رہی ہیں۔ ایک ٹورنامنٹ میں گیم دو دو سیٹ سے برابر تھی۔ پانچویں گیم میں گیم پوائنٹ تھا۔ کھیل کے دوران یاسمین راشد ریکٹ ایک طرف رکھ کر مخالف کھلاڑی سے ہاتھ ملانے آگے بڑھ گئیں۔ اس پر ہر کوئی حیران اور ساتھی کھلاڑی پریشان تھیں۔ انکی طرف سے ریکٹ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ بال کورٹ ایریا کی وائٹ لائن کو چھو گیا تھا جِسے ریفری کی طرف سے نوٹ نہیں کیا گیا جبکہ یاسمین راشد نے دیکھ لیا تھا۔

کلثوم نواز بھی سوبر اورڈیسنٹ خاتون ہیں، وہ پاناما کیس کے بعد اپنی فیملی سے الگ الگ نظر آ رہی ہیں۔ انکے سوا پورے خاندان کیخلاف ریفرنس دائر ہو چکے ہیں۔ ان پر کریشن بے ضابطگی کا کوئی الزام نہیں۔ دونوں خواتین ایک دوسرے کے مد مقابل تو ہیں مگر ان کو ووٹ انکی اپنی شخصیت سے زیادہ پارٹی بیس پر پڑیں گے۔ کلثوم نواز شریف کا تو شاید اپنا ووٹ بھی اس حلقے میں نہیں ہے۔ یہ سیٹ میاں نواز کے نام رہی ہے مگر کبھی لاہور آج کی طرح پی پی پی کا بھی گڑھ رہا ہے مگر آج صورتحال مختلف ہے۔ حالات میں تغیر ایک فطری عمل ہے۔ نتائج کبھی توقعات اور امکانات کے برعکس بھی آ جاتے ہیں۔ اسی کو تو اپ سیٹ کہتے ہیں۔

لاہور کے اس حلقے میں حکومتی امیدوار کے ہارنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔ حکومتی مشینری بروئے عمل ہے۔ حلقے کو پیرس بنایا جا رہا ہے۔ نوکریاں تقسیم ہو رہی ہیں۔ دو ماہ قبل تک محترمہ مریم نواز کو انکے والد میاں نواز شریف کا سیاسی جاں نشیں سمجھا جا رہا تھا اب ان کو اپنے والد اور بھائیوں حسین اور حسن کی طرح نیب میں ریفرنسز کا سامنا ہے۔ کلثوم نواز شریف کے جیتنے کا ن لیگ کو جتنا امکان نظر آتا ہے نیب ریفرنسز میں نواز شریف اور انکی فیملی کی گرفتاریوں، اکاؤنٹس منجمد ہونے اور نام ای سی ایل میں درج ہونے کا بھی اتنا ہی احتمال ہے۔ مگر مریم نواز شریف کی اپنی ایک شخصیت اور اہمیت ہے۔ وہ اپنی والدہ کی مہم چلا رہی ہیں۔ حلقے میں اب راشن بٹ رہا ہے۔ مریم اس حلقے میں نہ ہوتیں تو شاید ن لیگ کی جوتوں میں دال بٹ رہی ہوتی۔ پاکستانی سیاست کرشمات کی سیاست ہے۔ جاوید ہاشمی نے دوبارہ جیتنے کے زعم میں استعفیٰ دیکر الیکشن لڑا۔ مسلم لیگ ن انکی پشت پر تھی مگر عامر ڈوگر جیت گئے۔ نوشہرہ ورکاںمیں ن لیگ کی خالی کردہ سیٹ پر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس سے یہ سیٹ چھن جائیگی۔مدثر قیوم نائرہ جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے‘ موجودہ ایم این اے اظہر قیوم ضمنی الیکشن میں پی پی کے تصدق مسعود سے ہار گئے تھے۔ ڈی آئی جی گوجرانوالہ چیمہ کی غیر جانبداری سے یہ سیٹ پیپلز پارٹی جیت گئی۔ ذوالفقار چیمہ کو گوجرانوالہ سے ٹرانسفر کر دیا گیا۔ انکی ایمانداری، اہلیت، صلاحیت اور غیر جانبداری مسلمہ رہی ہے۔ کراچی آپریشن کا آغاز کیا گیا تو چیمہ کو آئی جی سندھ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت انگاروں پر لوٹنے لگی۔ پنجاب میں ان کو آئی جی بنانے کی بات چلی تو لیگی ایم پی اے ماتم کرتے 90 شارع قائداعظم پہنچ گئے۔ ضمنی الیکشن میں حلقے کے بھاگ جاگ جاتے، عوام وی آئی پی اور غریب ہونا اعزاز اور عزت کا سمبل بن جاتا ہے۔

جس طرح سے ضمنی الیکشن کی مہم چلتی ہے اسے جمہوریت کا حُسن نہیں، سیاہ چہرہ قرار دیا جانا چاہیے۔ ضمنی الیکشن میں امیدواروں کو ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی اجازت نہ ہو۔ آخر یہ امیدوار کونسا نیا منشور لے کر آتے ہیں؟ حلقے ہی سے ان کا تعلق لازم ہو۔ لوگ اپنے حلقے کے لوگوں کے کردار اور انکی پارٹیوں کی کارکردگی سے آگاہ ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر ووٹ دیں۔دونوں پارٹیوں نے ہارنے کی صورت میں پہلے سے جواز باور کرا دیئے ہیں۔ پی ٹی آئی 29 ہزار ووٹ درآمد کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔نواز لیگ فوج کی مداخلت کا واویلا کریگی۔ جیت کی صورت میں طبلچی مریم نواز کی ذاتی کاوش کوشش اور کرشماتی شخصیت کا اعجاز قرار دینگے۔

حرف آخر یہ کہ حلقہ این اے 120 میں کانٹے کا مقابلہ ہو رہا ہے مگر اپ سیٹ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ جو پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں ان کا اپ سیٹ کا اپنا اپنا گماں اور معیار ہے۔ ہر کسی کو اپنے جیتنے کا اتنا یقین ہے کہ کسی پارٹی کے یا آزاد امیدوار سے ن لیگ یا پی ٹی آئی والے اپنے حق میں دستبردار ہونے کو کہیں تو وہ جواب میں کہتے ہیں تم ہمارے حق میں بیٹھ جاؤ۔

متعلقہ خبریں