ملٹری”کو“ کیوں؟

2017 ,اکتوبر 12

فضل حسین اعوان

فضل حسین اعوان

شفق

awan368@yahoo.com



نہرو چین کو سبق سکھانا چاہتا تھا یا اپنے آرمی چیف کو اوقات میں لانا چاہتا تھا۔ اس نے جنرل تھاپا کو چین پر حملے کا حکم دیدیا۔ اس سے پہلے نہرو کی اپنے فوجی کمانڈروں سے متعدد بار مشاورت ہوئی۔ ایسی ہی ایک میٹنگ کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مانک شاکے آفس میں ہوئی۔ وزیراعظم جواہر لعل نہرو اپنی بیٹی کو بھی ساتھ لائے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی بھی اعلیٰ سکیورٹی میٹنگ میں شامل ہو مگر مانک شا نے سوری کہہ کر لڑکی کو میٹنگ میں شرکت سے منع کر دیا۔ اس پر وزیراعظم اور ان کی بیٹی نے بظاہر کوئی منفی ردعمل ظاہر نہیںکیا مگر دل میں بات رکھی یا نہیں رکھی اس کا اظہار ان کے بعد کے اقدامات سے ہوتا ہے۔ نہرو نے ایک روز حتمی طورپر اس وقت کے آرمی چیف جنرل تھاپا کو چین کے ساتھ متنازعہ علاقے ہماچل پردیش پر قبضے کا حکم دیدیا۔ جنرل تھاپا نے حکم کی تعمیل کی مگر یہ حملہ گلے پڑ گیا۔ بھارتی فوج کو بھاگتے اور پسپائی اختیار کرتے بنی۔

نہرو دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی جگہ لال بہادر شاستری وزیراعظم بنے۔ 65ءکے معرکہ کے بعد تاشقند میں جنرل ایوب کے ساتھ مذاکرات کے بعد معاہدے پر دستخط کرکے سو گئے پھر اُٹھ نہ سکے۔ اُٹھے تو دارِفانی سے اُٹھ گئے۔ ہمارے وزیرخارجہ نے اس دورے پر اپنے ڈیڈی ایوب خان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ قوم کو باور کرایا کہ ایوب خان نے جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی ٹیبل پر ہار دی۔اپنی جذباتی تقریروں سے وہ قوم کے پیارے اور راج دلارے بن گئے۔ وہ قوم کو کہتے رہے کہ وقت آنے پر بتائیں گے کہ ایوب خان نے مذاکرات میں پاکستان کا کیس کس طرح ہارا مگر ان کی زندگی کی شام آگئی۔ پھانسی یا ”شہادت“ کے رتبے فائز ہو گئے مگر وہ وقت نہ آسکا جس کی قوم ایوب خان کی وطن فروشی کی حقیقت جاننے کی منتظر تھی۔

لال بہادر شاستری کی موت کو کچھ لوگ قتل بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کی موت کے بعد اندراگاندھی وزیراعظم بنیں۔ نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی کا مرحلہ درپیش تھا۔ ان کے سامنے جنرل گرنجش سنگھ اور جنرل مانک شا کی فائلیں رکھی گئیں۔ سورن سنگھ بھارت کے وزیرخارجہ اور وزیردفاع رہے ۔ ان دنوں وزیردفاع تھے۔ وہ جنرل گرنجش کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ ایک طرح سے سورن سنگھ نے اپنی وزیراعظم کی مشکل حل کر دی کیونکہ اندراگاندھی وہی لڑکی تھی جسے جنرل مانک شانے میٹنگ میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی تھی جس پر وہ جلی بھنی ہوئی تھی۔ اندراگاندھی نے گرنجش سنگھ کی فائل اٹھائی‘ اسے ایک طرف رکھا اور مانک شاکی فائل پر سائن کرکے اسے انڈین آرمی کا چیف مقرر کر دیا۔ اپنے والد کی طرح اندراگاندھی نے بھی اپنے آرمی چیف کو طلب کرکے ایسٹ پاکستان پر قبضے کا حکم دیا۔ جنرل تھاپا اپنے وزیراعظم کے حکم پر فوری طورپر لاﺅ لشکر کے ساتھ چین کے مقابل آگیا تھا مگر جنرل مانک شا نے حملے سے انکار کر دیا جس پر وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین کچھ تلخی بھی ہوئی۔ جنرل مانک شاکہتے ہیں کہ انہیں اپریل 1971ءکو مشرقی پاکستان پر حملے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تیاری کےلئے وقت چاہئے۔ تیاری ہو جائے گی تو وہ خود حکومت کو مطلع کر دیں گے۔ مانک شا نے پلاننگ اور فوج کی ٹریننگ پر کئی ماہ لگا دیئے۔ دسمبر میں وزیراعظم اندراگاندھی کو آگاہ کیا گیا کہ ”ہم ایسٹ پاکستان پر حملے اور قبضے کیلئے تیار ہیں۔“ ان سے سوال کیا گیا کتنے دنوں میں قبضہ کر لو گے۔ ان کا جواب ڈیڑھ دو ماہ میں تھا۔ پوچھا گیا کہ یہ عرصہ طویل ہے‘ مانک شانے جواب دیا مشرقی پاکستان فرانس سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے۔ ایک سے دوسری طرف پیدل پہنچنے میں ڈیڑھ ماہ لگتا ہے۔ ہم نے تو جنگ کرتے ہوئے جانا ہے۔ مانک شا کو گو ہیڈ دیدیا گیا۔ اس نے مشرقی پاکستان پر حملے کی پلاننگ علاقے کے حالات‘ وہاں کے لوگوں کے پاکستان اور پاک کی مخالفت اور نفرت انگیز رویئے کو مدنظر رکھ کر کی تھی۔ اسے پاک فوج کی تعداد اور جنگی استعداد کا بھی اندازہ تھا۔ اسے پاکستان کے حکمرانوں کی لیاقت اور شراب میں غوطہ زن صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی ذہنی کیفیت سے بھی آگاہی تھی۔ بھارتی فوج کی تعداد فضائیہ کی استعداد اور توپوں‘ ٹینکوں کی بھرمار کے سامنے پاک فوج کو نہتا سمجھا جا سکتا ہے۔ پھر بھی مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان جیسے کئی افسر وہاں سے بھاگ نکلے۔ اس پر صاحبزادہ یعقوب کی فوجی سروس‘ رینک اور اعزازات ضبط لے گئے تھے۔ ہماری کمزوریاں جنرل مانک کیلئے بہادر بننے کا سبب بن گئیں۔ اسے اپنی پلاننگ کی کامیابی پر اس لئے یقین تھا کہ اس کے سامنے ہمارے حکمرانوں کا کردار واضح تھا۔

مانک شاکے بقول اس نے جس دن اپنی سیاسی قیادت کو حملے کی تیاری سے آگاہ کیا‘ اسی دن سرینڈر کی دستاویزات بھی تیار کروا لی تھیں۔ اس نے وزیراعظم کو ڈیڑھ دو ماہ میں مشرقی پاکستان فتح کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر فیصلہ 13 دن میں ہو گیا۔

مانک شا کا نام بھارت کی تاریخ میں ایک فاتح کے نام سے رقم ہو گیا۔ اسے مغربی پاکستان پر قبضے کا ٹارگٹ دیا ہوتا تو وہ مشرقی پاکستان پر قبضے سے مختلف پلاننگ کرتا جو ناکامی سے بھی دوچار ہو سکتی تھی۔ مانک شاکو انڈیا میںسیم سیم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسے ریٹائرمنٹ سے قبل فیلڈ مارشل کا رینک دیدیا گیا تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ پارٹیشن کے وقت آپ پاکستان جا چکے ہوتے اور آپ 71ءکی جنگ میں پاکستان کے آرمی چیف ہوتے تو جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا۔ مانک نے کہا تھا کہ پاکستان جیت جاتا۔

اگر حالات کا سرسری سا تجزیہ بھی کریں تو سانحہ12اکتوبر کی چاپ سنائی دیتی ہے۔18سال قبل12اکتوبر کو ہم جہاں تھے وہیں کھڑے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا مگر ہمارے ”شاہوں“ کی سوچ کا دھارا نہیں بدلا۔99ءکے بعد ایک بھی آرمی چیف سینارٹی کی بنیاد پر نہیں بنا۔ جسے اپنا جرنیل سمجھا اس کو آگے لایا گیا مگر اپنا جرنیل کوئی نہیں ہو سکتا۔ سوائے جنرل کیانی صاحب کے جو زرداری کے حواری بن گئے تھے۔ جرنیل اپنی پیشہ ورانہ زندگی ایک احسان پر نچھاور نہیں کر سکتا۔ آپ نے فوجی سربراہ جسے لگا دیا اس کے بعد اس نے وہی کرنا ہے جس کی اسے تربیت دی گئی اور جس کا فوج میں آنے پر پہلے روز حلف لیا تھا۔ حلف سے تجاوز آئین شکنی ہے جس کی ایک سزا ہے۔ سیاست دان مصلحتوں سے کام نہ لیتے تو سزا پر عمل بھی ہو جاتا۔

اگر میرٹ کو ہی اصول بنا لیا جائے۔ میرے جرنیل اور ان کے جرنیل کی بحث میں پڑے بغیر، اختیارات آزمانے کے زعم سے نکل کر سینئر موسٹ جنرل کو آرمی چیف بنانے کی روایت ڈال دی جائے تو سانحہ 12اکتوبر کی دھمک کم ہی کہیں سے آئے گی۔

متعلقہ خبریں