میں مرد ہوں مجھے عورت کی برابری کے حقوق چاہیئے۔۔۔!یہ پوسٹ ان خواتین کہ نام جو مرد سے برابری چاہتی ہیں ,

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مئی 01, 2020 | 20:57 شام

میں جب بس میں سوار ہوں تو لڑکیاں مجھے دیکھ کر سیٹ چھوڑ دیں
میں جب بینک،ڈاکخانے یا کسی بھی دفتر میں جاوں تو لڑکیاں مجھے لائن کراس کر کے آگے جانے دیں،اور خود انیسویں نمبر سے شروع ہوں۔۔!
جب کبھی پبلک میں میری کسی لڑکی سے لڑائی ہو جائے تو میرا حق ہے میں لڑکی کو وٹ وٹ چپیڑیں ماروں اور لڑکی آگے سے ہاتھ نہ اٹھائے۔۔جیسے مرد سے توقع کی جاتی ۔۔۔!
میرا حق ہے،میں جیسے چاہوں کپڑے پہنوں۔۔لہذا اب س

ے میں سکن ٹائٹ انڈر وئیر میں گھوما کروں گا صرف۔۔۔!
اور سنو اگر میرے باڈی کٹس یا کسی بھی عضو کی ظاہر ہوتی شبیہ کسی لڑکی کو بری لگی تو یہ میرا قصور نہیں اس کے ذہن کی گندگی ہو گی۔۔۔!
بائیک پنکچر ہونے پر لڑکا روڈ سائیڈ سٹاپ پر کھڑا ہو کے موبائل پر گیم کھیلے گا،اور لڑکی موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھ کے چلاتے ہوئے پنکچر لگوانے جائے گی۔۔!
اور بالکل ایسے ہی پٹرول ختم ہونے پر لڑکا سٹیرنگ سنبھالے گا اور لڑکی کار کو دھکا لگائے گی۔۔۔!
دیکھیے میں برابری کا قائل ہوں مجھے برابری کے حقوق دینے بھی ہیں خواتین کو میں انہیں اپنے سے کم نہیں سمجھتا۔۔۔!
لہذا دسمبر کی سردی میں جب کسی لوکل بس میں سوار ہوتے ہوئے جگہ کم پر پڑ گئی تو میں بھاگ کر سیٹ پر بیٹھ جاوں گا اور نبیلہ،شکیلہ صائمہ کھڑی ہوں گی۔۔۔ صبا،مہوش،صدف،عائشہ وغیرہ بس کے باہر لگے ہوئے پائپ کو پکڑ کر لٹکی ہوں گی،ربینہ،ارم،بشری،سدرہ وغیرہ بس کی چھت پر چڑھ کر بیٹھیں گیں،جہاں آگے سے آنی والی زور دار ہوا میک اپ اکھاڑ پھینکے اور منہ میں گھس کر باگڑ بلا بنا دے۔۔
ہمارے محلے کا گٹر بند ہے اور میں کسی فیمنسٹ عورت کو بلاؤں گا جو گٹر میں گلے تک اتر کر گٹر صاف کرے اور بالٹیاں بھر بھر کے دور پھینک کے آئے۔۔۔
اور آج میرے ہمسائے کی پانی کی باری ہے،اس نے بتایا ہوا گھر کہ بیٹے جبار کو بخار ہے وہ نہیں جائے گا تین بجے رات کو پانی لگانے،لہذا بیٹی کو سمجھا دیا ہے کہ بیلچہ کدال وغیرہ سنبھال لے اور صبح ادھا گھنٹا پہلے ای اٹھ جائے کہیں پانی کو دیر نہ ہو جائے۔۔!
دیکھو اب یہ آپشن نہیں ہے لڑکی کے لیے کہ جاب مل گئی تو مل گئی ورنہ گھر بیٹھنا نہ نہ نہ۔۔یہ تو کمزوری ظاہر ہو جائے گی۔۔اب نوکری نہ ملنے پر چاچے غفورے کے اینٹوں کے بھٹے پر جانا ہے سمیرا نے۔۔اور سوبیہ کی ٹھیکیدار سے بات ہو گئی جو سڑک بنا رہا وہاں تارکول ڈالنے کے لیے مزدور چاہیئے 450 روپے دے گا دن کا۔۔۔اور ساتھ ہی شمائلہ کی بھی بات بن گئی منڈی جائے گی صبح 4 بجے کپاس کی ٹرالی بھرنی اور پھر اسی ٹرالی کے اوپر بیٹھ کر 170 کلو میٹر کا سفر کرنا۔۔۔
واپس آ کر بڑا ٹرالہ کھاد کا اتارنا دس روپے فی بوری کے ہیں،سو سو بوری بھی اتاری تو ہزار ہزار روپے۔۔۔واہ۔۔۔کمائیاں۔۔۔!
خواچار اوہہ سوری خواتین سنیے۔۔! اب پیسوں کا مسئلہ نہیں گاوں کے چوہدری سے قرض لے سکتیں ہیں آپ،20 ہزار کے بدلے مہینے میں 20 بار ذلیل ہی کرے گا نا تو کیا ہوا مرد بھی تو ہوتے ہیں کئی اور آپ مردوں سے کم تھوڑی نہ ہیں۔۔! اور ہاں اگر قرض چکانے میں دیر ہو گئی تو چوہدری آپکو اٹھوا کر ڈیرے پر لے جائے گا 6 بندوں سے پٹوائے گا،غنڈے لاتوں گھونسوں پر رکھ لیں گے تْنی(ناف) میں ٹھڈے ماریں گے کھا لینا آرام سے جیسے مرد کھاتے۔۔!
دیکھو اب بوڑھی بھی ہو گئی ہو تو پریشان نیئں ہونا جو وزنی کام نیئں کیا جاتا تو بس سائیکل پر کھلونے لادو اور دیہاتوں میں نکل جاو بیچنے کے لیے صبح سے شام تک۔۔ ٹوٹی ہوئی جوتی پہنے چیتھڑوں سے دو کپڑے ڈالے سرد ٹھٹھرتی رات میں گرم انڈوں کا کولر اٹھاو اور نکل جاو شہر کی سڑکوں پر آوازیں لگاتے ہوئے۔۔۔آنڈے گرم آنڈے۔۔!
آفٹر آل آپ مرد سے کم تھوڑی ہیں۔۔!!
یہ پوسٹ ان خواتین کہ نام جو مرد سے برابری چاہتی ہیں ,