دھند اورڈرائیونگ اندھا دھند

2021 ,جنوری 2



 

لاہور آتے ہوئے پھولنگر کے قریب دھند کہہ رہی تھی آج ہی ہوں۔ ہم نے مین ملتان روڈ پر برانچ روڈ   سے چڑھنا تھا۔ سپیڈ دھیمی ‘ صحیح معنوں میں جوں کی رفتار۔ ایک موقع پر سامنے کچھ بھی نظر آنا بند ہو گا۔  ایسی صورتحال کے لئے بتائے گئے گاڑی کے پروسیجر زپر عمل سے شیشوں پر پڑی دھند کی نمی تو دور ہو رہی تھی مگر آگے راستہ دکھانا اور کچھ بتانا ان کا کام نہیں تھا۔ لہٰذا گاڑی روکنا پڑی۔ کدھر جانا ہے، اس کا پتہ تھا کہاں آ گئے ہیں؟ مین روڈ کتنی دور ہے؟؟ اس کا علم نہیں تھا۔ گوگل میپ سے مدد لی۔ مین روڈ دس میٹر پر تھی۔ اس سڑک پر ٹریفک رینگ رہی تھی۔ ہماری گاڑی بھی اس قافلے میں شامل ہو گئی۔ ٹریفک زیادہ ہونے سے دھند کی شدت قدرے کم ہو گئی تھی۔ اسی دوران ایک بس قریب سے گزری اس کی سپیڈ کافی تھی۔ ہم نے بھی کار اس کے پیچھے لگا دی۔اسکی لائٹس شاید زیادہ ہی تیز تھیں۔ دھند کو چیرتی پھاڑتی گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔ ہم بھی پیچھے پیچھے دھند میں محفوظ فاصلہ رکھ کر اندھا دھند اس بس کے پیچھے لپکے جا رہے تھے۔ کوئی مشکل کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ چند روز قبل سیالکوٹ موٹروے پر دھند کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ حد نظر محدود ہونے پر ایک شخص نے گاڑی سڑک کے انتہائی بائیں جانب روک دی۔ اسکے پیچھے دوسری پھر تیسری گاڑی رُکی۔ ایسی گاڑیوں کی تعداد نو دس ہو گئی۔ اس دھند میں اندھا دھند ڈرائیونگ سے المناک حادثہ ہوگیا۔ مسافر بس ان گاڑیوں پر چڑھ دوڑی۔ دھند میں ہیڈ لائٹس جتنی بھی تیز ہوں محفوظ ڈرائیونگ ایسی نہیں ہو سکتی کہ اسی  85کی سپیڈ پر گاڑی  بھاگ سکے۔ جس بس کے پیچھے ہم بھاگم بھاگ چلتے رہے  ڈرائیور اسے اندھا دھند ہی چلا رہا تھا۔ احتیاط کی بات کی جاتی ہے تو کچھ لوگ حادثات کو تقدیرکا لکھا قرار دیتے ہوئے ایسا ہی جواز پیش کرتے ہیں کہ جن کاروں کو بس نے ٹکر ماری وہ احتیاط ہی کررہے تھے لیکن حادثے کا شکار ہوگئے۔ واقعی احتیاط ایک حد تک ہی ہو سکتی ہے۔  احتیاط کرنے والوں کا کوئی قصور نہیں تھا مگرکسی کی توغلطی تھی اور وہ اندھا دھند گاڑی چلانے والے کی تھی۔ایسے ہی ایک واقعے نے دل دہلا کے رکھ دیا۔ضوفشاں اعجازکے فیس بک پرایک پوسٹ موجود ہے جس میں لکھا ہے:’’میں سکھر سے لاہور کیلئے براستہ موٹر وے روانہ ہوا۔ تقریبا ساڑھے سات بجے  ملتان کو عبور کیا ، ڈرائیور کار چلا رہا تھا ۔ موسم صاف تھا اور دھند بالکل بھی نہیں تھی۔ عبد الحکیم انٹرچینج سے چار کلومیٹر دور بی آر وی ہونڈا کار ٹرک سے سڑک کے بیچ درمیان ٹکرائی ہوئی تھی۔ کچھ لو گ گاڑیوں سے نکل کر جائے حادثہ پر جمع تھے۔ ہم نے بھی اپنی گاڑی قطار میں کھڑی کی اور  باہر آگئے۔ میری آنکھوں نے ایک انتہائی تکلیف دہ منظر دیکھا ، دو سال کے خوبصورت بچے  کے سر ، منہ اور ناک سے بری طرح خون بہہ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا 30 سال کا باپ بھی خون میں لت پت تھا۔ ایک عورت جو شاید کسی اور کار کی مسافر بھی تھی ، بچے کو اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھی ۔ زیادہ تر لوگ ویڈیو اور پکس کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔  میں نے زخمی باپ اوربیٹے کو  اپنی گاڑی میں منتقل کرا لیا۔ یہاں میری زندگی کا سب سے خوفناک سفر شروع ہوتا ہے۔ اگلا خارجی راستہ عبدالحکیم تھا جو کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا ، میں نے وہاں سے روانہ ہوکر نشتر اسپتال میں ملتان کے لئے یو ٹرن لے جانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے پہلے دونوں کے لئے ابتدائی طبی امداد کی ضرورت تھی۔ لہذا میں نے قریب ترین اسپتال جانے کا فیصلہ کیا جو عبدالحکیم کا سرکاری ہسپتال آر ایچ سی(رورل ہیلتھ سنٹر) تھا۔  جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں کوئی ڈاکٹر تھا ، نہ کوئی طبی عملہ۔مجھے وہاں  میرے ہاتھوں میں بے سدھ اورخون میں تربتربچے کی ماں  نظر آئی ۔وہ بے بس پڑی اور خالی آنکھوں سے لوگوں کے چہروں کو دیکھ رہی تھی۔ وہ پوری طرح ہوش میں نہیں تھی۔ کسی نے اسے چند منٹ قبل آر ایچ سی میں منتقل کیا۔  میں نے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر سے فون پر رابطہ کیا اس نے آنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ  اس کی  ’’عبادت‘‘ کا وقت ہے۔ میں نے اسے آنے کی پھر التجا کی لیکن  وہ مان کر نہ دیا ۔ اس کے بعد میں نے اپنے ذرائع استعمال کرنا شروع کردیئے اور اگلے ہی چند منٹ میں ڈی سی اور ڈی پی او خانیوال میرے رابطے میں تھے لیکن بیچارے بچے کو بہت دیر ہوچکی تھی ، وہ میری گود میں ہی دم توڑ گیا۔ جب اس کی موت ہوگئی تو اس نے اپنے ہاتھ میں ایک بالکل نیا گلابی رنگ کا لباس پکڑا ہوا تھا ۔ جواس کے والدین نے ایک ہفتہ قبل امریکہ سے خریدا تھا جب وہ  خاندان  کے ساتھ اس کی سالگرہ منانے پاکستان روانہ ہوئے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھی۔ وہ بالکل میرے اپنے بچوں کی عمرکا تھا۔ میں نے اس شخص کی جیبیں تلاشیں ۔ اس کے کارڈ مل گئے۔ وہ  امریکی شہری تھا اور کیلیفورنیا میں رہتا تھا۔ ان میں سے ایک کارڈ پر اس کا پاکستان میں ایڈریس اور شناختی کارڈ نمبر بھی تھا۔ جس کی مدد سے اس کے خاندان کے بارے میں معلومات  اور کئی کے موبائل نمبر  مل گئے۔ ہم نے معصوم بچے اور زخمیوں کو ڈی ایچ کیو خانیوال منتقل کردیا۔ ڈی پی او اور ڈی سی خانیوال دونوں کافی تعاون کررہے تھے ۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ  ڈرائیور جو ان کی گاڑی چلا رہا تھا  اسے خراش تک نہیں آئی تھی۔بعد میں اس سے ملنا ہوا وہ 60  سال سے زیادہ کاتھا ۔کچھ دن پہلے جب یہ خاندان امریکہ سے واپس آیا تھا تو اس ڈرائیور کی خدمات حاصل کی گئیں۔وہ نائٹ بلائنڈ تھایعنی  اسے اندھراتا تھا۔ ایسے شخص کو رات کو بہت کم نظر آتا ہے۔  120 کی سپیڈ سے کار کی ٹرک سے ٹکرہوئی تھی۔ اس پورے واقعہ کے دوران میں نے کئی لوگوں کو بغیر احساسات کے پایا ، ایک ڈاکٹر کو دیکھا جس نے اپنی عبادت کو تین قیمتی جانوں  پر ترجیح دی۔ ایک ڈرائیور جس نے لالچ میں پورے کنبے کو تباہ کردیا اورپھر اسے کیا کہا جائے،چالیس لاکھ کی کار جس میں  ایئر بیگ نہیں تھے۔ لوگ اس کی مدد کرنے کے بجائے اس واقعے کی عکس بندی میں مصروف تھے اور کچھ ایسے افراد جو ان کی مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ خبریں