حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع اگست 21, 2020 | 19:03 شام

جب سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كو ابولؤلؤ فيروز مجوسى نے نيزہ مارا تو آپ رض كو دودھ پلايا گيا جو پسليوں كى طرف سے نكل گيا۔
طبيب نے كہا:
اے امير المؤمنين! وصيت كر ديجيے اسليے كہ آپ مزيد زندہ نہيں رہ سكتے۔
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے بيٹے عبداللہ كو بلايا اور كہا:
ميرے پاس حذيفہ بن يمان كو لاؤ۔ حذيفہ بن يمان وہ صحابى تھے جن كو رسول اللہﷺ نے منافقين كے ناموں كى لسٹ بتائى تھى، جس كو

اللہ، اللہ كے رسول اور حذيفہ كے علاوہ كوئى نہ جانتا تھا۔۔۔

حذيفہ رضى اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امير المؤمنين سيدنا عمر رضى اللہ عنہ گويا ہوئے جبكہ خون آپ كى پسليوں سے رس رہا تھا، حذيفہ! ميں تجھے اللہ كى قسم ديتا ہوں ، كيا رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين ميں ليا ہے كہ نہيں؟
حذيفہ رضى اللہ عنہ روتے ہوئے كہنے لگے :
اے امير المؤمنين! يہ ميرے پاس رسول اللہﷺ كا راز ہے، ميں اس كو مرتے دم تك كسى كو نہيں بتا سكتا۔۔۔
سيدنا عمر رضى اللہ عنہ كہنے لگے: حذيفہ! بلاشبہ يہ رسول اللہﷺ كا راز ہے ، بس مجھے اتنا بتا ديجيے كہ رسول اللہﷺ نے ميرا نام منافقين كے جدول ميں شمار كيا ہے يا نہيں؟
حذيفہ كى ہچكى بندھ گئى ، روتے ہوئے كہنے لگے: اے عمر! ميں صرف آپ كو يہ بتا رہا ہوں اگر آپ كے علاوہ كوئى اور ہوتا تو ميں كبھى بھى اپنى زبان نہ كھولتا، وہ بھى صرف اتنا بتاؤں گا كہ رسول اللہﷺ نے آپ كا نام منافقين كى لسٹ ميں شمار نہيں فرمايا۔

سيدنا عمر رضى اللہ عنہ يہ سن كر اپنے بيٹےعبداللہ سے كہنے لگے: عبداللہ اب صرف ميرا ايك معاملہ دنيا ميں باقى ہے۔۔۔ پِسر جانثار كہنے لگا: اباجان بتائيے وہ كون سا معاملہ ہے؟
سيدنا عمر رضى اللہ گويا ہوئے بيٹا، میں رسول اللہ اور ابوبكر رضى اللہ عنہ كے پہلو ميں دفن ہونا چاہتا ہوں۔۔۔

اے ميرے بيٹے! ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كے پاس جاؤ اور ان سے اجازت طلب كرو كہ عمر اپنے ساتھيوں كے پہلو ميں دفن ہونا چاہتا ہے۔۔۔ ہاں بيٹا، عائشہ رضى اللہ عنہا كو يہ نہ كہنا كہ امير المؤمنين كا حكم ہے بلكہ كہنا كہ آپ كا بيٹا عمر آپ سے درخواست گزار ہے۔۔۔
ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ عنہا كہنے لگيں، ميں نے يہ جگہ اپنى قبر كے ليے مختص كر ركھى تھى، ليكن آج ميں عمر كے ليے اس سے دستبردار ہوتى ہوں۔۔۔

عبداللہ مطمعن لوٹے اور اپنے اباجان كو اجاز ت کا بتایا، سيدنا عمر رضى اللہ عنہ يہ سن كر اپنے رخسار كو زمين پر ركھ ديا، آداب فرزندى سے معمور بيٹا آگے بڑھا اور باپ كى چہرے كو اپنے گود ميں ركھ ليا ، باپ نے بيٹے كى طرف ديكھا اور كہا اس پيشانى كو زمين سے كيوں اٹھايا۔۔۔۔
اس چہرے كو زمين پر واپس ركھ دو، ہلاكت ہوگى عمر كے ليے اگر اس كے رب نے اس كو قيامت كے دن معاف نہ كيا۔۔۔ ! رحمك اللہ يا عمر

سيدنا عمر رضى اللہ عنہ بيٹے عبدأللہ كو يہ وصيت كركے اس دار فانى سے كوچ كر گئے:
جب ميرے جنازے كو اٹھايا جائے اور مسجد نبوى ميں ميرا جنازہ پڑھا جائے، تو حذيفہ پر نظر ركھنا كيونكہ اس نے وعدہ توڑنے ميں تو شايد ميرا حيا كيا ہو، لیکن دھيان ركھنا وہ ميرا جنازہ بھى پڑھتا ہے يا نہيں؟

اگر تو حذيفہ ميرا جنازہ پڑھے تو ميرى ميت كو رسول اللہﷺ كے گھر كى طرف لے كر جانا، اور دروازے پر كھڑے ہو كر كہنا : يا ام المؤمنين! اے مومنوں كى ماں، آپ كے بيٹے عمر كا جسد خاكي آيا ہے۔۔۔ ہاں يہاں بھي ياد ركھنا امير المؤمنين نہ كہنا عائشہ مجھ سے بہت حياء كرتى ہے۔۔۔ اگر تو عائشہ رضى اللہ عنہا اجازت مرحمت فرما ديں تو ٹھيك، اگر اجازت نہ ملے تو مجھے مسلمانوں كے قبرستان ميں دفنا دينا۔

عبداللہ بن عمر رضى اللہ عنہ كہتے ہيں ابا جان كا جنازہ اٹھايا گيا تو ميرى نظريں حذيفہ پر تھيں، حذيفہ آئے اور انھوں نے اباجان كا جنازہ پڑھا۔۔۔ ميں يہ ديكھ كر مطمعن ہوگيا، اور اباجان كى ميت كو عائشہ رضى اللہ عنہا كے گھر كى طرف لے كر چلے جہاں اباجان كے دونوں ساتھى آرام فرما تھے۔۔
دروازے پر كھڑے ہو كر ميں نے كہا: يا أمّنا، ولدك عمر في الباب هل تأذنين له؟
اماں جان! آپ كا بيٹا عمر دروازے پر كھڑا ہے، كيا آپ اس كو دفن كى جازت ديتى ہيں؟
اماں عائشہ رضى اللہ عنہا نے كہا: مرحبا ، امير المؤمنين كو اپنے ساتھيوں كے ساتھ دفن ہونے پر مبارك ہو۔ رضى اللہ عنہم ورضوا عنہ

اللہ راضى ہو عمر سے جنہوں نے زمين كو عدل كے ساتھ بھر ديا ، پھر بھى اللہ سے اتنا زيادہ ڈرنے والے، اس كے باوجود كہ رسول اللہﷺ نے عمر كو جنت كى خوشخبرى دى۔۔