تیروں ،نیزوں اور تلواروں کے سایے میں ۔۔۔خون سے تر امام حسین رضی اللہ عنہ کا آخری جملہ کیا تھا ؟
لاہور(مانیٹرنگ ڈسیک): کربلا کویقیناََ اہل بیت اطہار ؓ نے اپنی قربانیوں اور کردار سے آنے والی امت کیلئے نمونہ بنا دیا، اہل بیت نے قیامت تک آنیوالی نسل انسانی خصوصاََ مسلمانوں کو سبق دیا کہ مصیبتوں اور آلام و مصائب میں بھی رب واحد کے آگے ہی دست دراز کرنا چاہئے اور اسی کے ذکر سے قلوب کو اطمینان اور سکون سے منور کرنا چاہئے۔ اپنے ایک بیان میں علامہ ثاقب رضا مصطفائی فرماتے ہیں
کہ قیامت تک امام حسین ؓ نے اپنی سنت کو بطور نمونہ چھوڑا اور فرمایا’’ولکم فیھا اسوہ‘‘میں اسی لئےخود کربلا کے ریگزار کے اندر ایک انوکھی داستان رقم (خبر جا ری ہے۔داستان رقم کرنے جا رہا ہوں، تاکہ قیامت تک میری زندگی لوگوں کیلئے ایک نمونہ کے طور پر موجود رہے اور جبر کے خلاف لوگ ٹکرانے کا حوصلہ رکھیں، حضرت امام حسینؓ نے کربلا کی اس دوپہر کے اندر عزیمت کی جو داستان رقم کی اور جبر کے سامنے جس طرح پوری قوت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ، 22ہزار افراد کے سامنے تن تنہا شخص کا ڈٹ جانایہ کوئی تماشا نہیں ہے ، 72افراد کے زخم کلیجے پر موجود ہیں اور اپنے بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں اور بھانجوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر آپ خیموں تک لاچکے ہیں، آپؓ کے ہاتھوںمیں علی اصغر ؓ دم توڑ چکے ہیں، اور جوان علی اکبر ؓ کو اٹھا کر خیمے تک لے آئے ہیں، اتنی جرأت اور پامردگی کے ساتھ 72لاشےلائن کے اندر پڑے ہیں، گھرمیں ایک میت ہو جائے سارا شہر سنبھالا دینے والا ہوتا ہے، پھر بھی دکھ نہیں تھمتا، کہتے ہیں چھوڑ دواسے اس کے حال پہ !اس کا کلیجہ کٹ گیا ہے، اس کا جوان رخصت ہو گیا ہے ، اس کے سینے کا چین لٹ گیا ہے۔
سلام کہو حسین ابن علیؓ کو کہ 72لاشیں بے گوروکفن لائن میں پڑے ہوئے ہیں۔ ادھر دوسری طرف خیموں میں پردہ داروں کے پردے کا بھی لحاظ ہے، اور پھر جب گھوڑے کیزین کو کس کر میدان کربلا میں نبی ؐ کا نواسا نکلا جب تین دن کا پیاسا کربلا کے ریگزار کے اندر ، میدان کربلا کے اندر ذوالفقار تلوار لہراتا ہوا آیا، شبیہہ رسولؐ، رسول کریمؐ کی تصویر، جب میدان کربلا میں امام حسینؓ تلوار کو لہراتے ہوئے آئےتو آواز آرہی تھی۔۔یہ کون ذی وقار ہے۔۔یہ کون شہسوار ہے۔۔لباس ہے پھٹا ہوا۔۔لخت لخت کٹا ہوا۔۔تمام جسمِ نازنین چھدا ہوا ، کٹا ہوا۔۔پھر بھی ہے ڈٹا ہوا۔۔یہ نبیؐ کا نور عین ہے۔۔یہ بالیقین حسینؓ ہے۔حضرت امام حسینؓ نے کس طرح جبر کے خلاف کھڑے ہو کرپوری دنیا کے سامنے اپنا اسوہ رقم کیااور جب گھوڑے کی زین سے فرش زمین پر آئے ، حضرت امام حسینؓ کا آخری وقت سر سجدے میں تھا اور سجدے کی حالت میں دست قاتل نے سر حسینؓ کو تن حسینؓ سے الگ کیا، یہ دنیا کے سامنے امام حسینؓ نے اپنا اسوہ رکھاکہ یہی تو پیغام میں دینے آیا ہوں، یہی توتحریر میں نے کربلا کی ریت پر اپنے خون سے رقم کرنا تھی کہ یہ سر کٹ تو سکتا ہے جھکے گا
تو صرف اپنے مالک کی چوکھٹ پریزید کے سامنے یہ سر جھک نہیں سکتا ہے۔ روای کہتا ہے کہ جب امام حسینؓ کی قمیض اتاری گئی تو 113سوراخ اس میں تیروں کے تھے، 33زخم نیزوں کے تھے ، 34گھائو تلواروں کے تھے،اتنے زخم جسم پر اور جسم چور ہے زخموں سے، لیکن جب حضرت امام حسینؓ نے پیشانی سجدے میں رکھی تو آخری لفظ یہ تھے ، مالک!میں تیری تقدیر پر راضی ہو گیا ہوں، زخم سہہ کر بھی مسکرا رہا ہوں، مالک! تیری طرف سے جو دکھ آئے میں نے انہیں تسلیم کیا مالک! میں نے سب کچھ قبول کیا، حسینؓ تیری رضا پر راضی ہے، تو بھی بتا کہ کیا تو بھی حسینؓ سے راضی ہوا ہے کہ نہیں۔اس موقع پر علامہ ثاقب رضا مصطفائی نے شعر کہتے ہوئے کہا کہ ۔۔آواز آرہی تھی اس پیاسے پر علی شیر خداکو ناز ہے۔۔اپنے اس نواسے پر محمد مصطفیٰؐ کو ناز ہے۔۔اوروں نے بھی سجدہ کیا مگر اس کا عجب انداز ہے۔۔اس نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے۔اے حسینؓ تم پر سلام،حضرت حسین کی قربانی رہتی دنیا تک ایک عظیم قربانی رہے گی اور اسلام کے بقا کا سب سے اہم شاخسانہ جس نے اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنے نانا کے دین کو دوام بخشا ہے۔