غداری ۔۔۔اورمعافی تلافی؟

2023 ,جنوری 26



تحریر: فضل حسین اعوان 
بات لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اقبال ملک کی گرفتاری، عمر قید اور رہائی سے شروع ہو کر اٹک سازش کیس تک پہنچی تھی۔ جرم کتنا سنگین ہو سکتا ہے جس میں ایک جرنیل کو14سال کی قید سنا دی جاتی ہے۔ جس پر عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ جب سزا کی توثیق کرنے والی قیادت پہلی اپیل پر آدھی سزا معاف کر دیتی ہے تو جرم کی سنگینی کی شدت میں پہلے جیسا تاﺅ بھی مفقود ہونے لگتا ہے اور جب اُسی نوکِ قلم سے سزا صرف چھ ماہ تک محدود کر دی جاتی ہے تو پھر کئی سوالات کا ذہن میں آنا فطری امر ہے۔ دشمن ملک کو قومی راز فراہم کرنے کی دفعات لگائی گئی تھیں۔ ظاہر ہے فوجی عدالت میں جرم ثابت ہوا تو سزا ہوئی۔ جنرل کی تمام مراعات ضبط کر لی گئیں۔ حق دیا گیا تو پورے خاندان سمیت ذلت و رسوائی سے زندہ رہنے کا۔کسی بھی بڑے فوجی افسر سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مادرِ وطن کا سودا کر دے۔اگر وہ ایسا کرے تو اس کے لیے عمر قید کی سزا بھی کم ہے۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے نام سے بنائی گئی عدالت کے سامنے ثبوت ملٹری انٹیلی جنس نے رکھے تھے جو براہِ راست آرمی چیف کو جوابدہ ہے۔ اُن دنوں میجر جنرل سرفراز علی ڈی جی ، ایم آئی تھے جو2022ءمیں اس وقت ہیلی کاپٹر کریش میں شہید ہوگئے جب کور کمانڈر کوئٹہ تھے۔ 
سزا سننے کے بعد جنرل جاوید اقبال نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔ ان کے وکیل عمر آدم تھے یہ سابق میجر فاروق آدم کے بیٹے ہیں۔ میجر فاروق آدم اور ان کے دوسرے میجر بھائی کو بھی اٹک سازش کیس میں سزا ہوئی۔ یہ سزا میجر جنرل ضیاءالحق نے 1973ءمیں سنائی تھی۔ جب جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الٹا کر اقتدار سنبھالا تو 1978ءمیں سب افسروں کو رہا کر دیا گیا۔ مشرف دور میں فاروق آدم پاکستان کے پراسکیوٹر جنرل تعینات کئے گئے ۔ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا ۔ راولپنڈی سازش کیس میں میجر جنرل اکبرخان کو12سال قید کی سخت سزا ہوئی تھی۔ وہ بھٹو دور میں چیف آف نیشنل سکیورٹی بنا دیئے گئے ۔بریگیڈیئر نیاز کولاہور میں 1977ءمیں مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار پر فوج سے نکالا گیا جو بعد ازاں پاک فوج میں کنٹریکٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔یہ جنرل مشرف کے اتنے قریب تھے کہ میاں نواز شریف اور مشرف کے مابین کچھ معاملات بھی طے کرائے۔

جہادِ کشمیر اور جنرل محمد ضیاء الحق

ذوالفقار علی بھٹو - ایکسپریس اردو
عمر آدم نے جنرل جاوید اقبال کا کیس بڑی جانفشانی سے پلیڈ کیا۔ اسی دوران جاوید اقبال رہا کر دیئے گئے۔ عمر آدم اپنے انٹرویوزمیں اس حوالے سے بات کرتے رہتے ہیں۔ان کے مطابق جنرل جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ وہ جاسوسی کے الزام کے ساتھ زندہ نہیں رہنا چاہتے۔ان کو رہا تو کر دیا گیا ۔ سزا ختم ہو گئی مگر جرم اپنی جگہ موجود ہے جس سے وہ نجات حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ فطری طور پر یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ مبینہ جاسوسی کے عوض انہیں کیا کچھ ملا؟ اس کا جواب ہے کہ ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا۔ان کے اورخاندان کے اکاؤنٹس اور جائیدادیں کھنگالی گئیں جن میں ان کی ظاہری آمدن کے سوا کچھ بھی نہ مل سکا اور یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے۔
امریکہ میں وہ جن لوگوں یا اداروں اور کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے ۔ان کو جو معلومات دی گئیں عمرآدم کی مطابق وہ ریکارڈ کے مطابق وہ پہلے کہیں نہ کہیں شائع یا نشر ہو چکی تھیں۔ امریکی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے سے قبل انہوں نے قبل جنرل رضوان اختر جو چیف آف جنرل سٹاف تھے ان کو آگاہ کر دیا تھا ۔ایک موقع پر امریکہ سے وہ پاکستان آئے تو علاج کے لیے ایف آئی سی میں داخل ہونا پڑا۔ وہاں جنرل قمر جاوید باجوہ ان کی بیمار پرسی کے لیے گئے تو ان سے بھی تذکرہ کیا۔ گویا فوجی اعلیٰ ترین قیادت ان کے کام سے آگاہ تھی ۔پھر ان پر اسی دوران قہر ٹوٹ پڑا۔ حقائق کیا ہیں ان سے جنرل عاصم منیر کئی لوگوں سے زیادہ آگاہ ہیں۔ انہی حقائق کے پیش نظر ان کی فوری رہائی کا حکم دے دیا گیا۔
جنرل جاوید کے ساتھ ان دنوں بریگیڈیئر راجہ رضوان اورفوج میں ایک سویلین افسر وسیم اکرم کو پاکستان سے غداری کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان سزاؤں پرا بھی عمل نہیں ہوا۔ ضوابط کی کارروائی جاری ہے ۔ان تین افسروں کے الگ الگ کیس ہیں ۔ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
 پاکستان کے خلاف کوئی جرم کرے غداری کرے۔ وہ ناقابل معافی ہے۔ اگر ایسا کرے تو !مگر کسی کو صرف ذاتی پُر خاش کی بنا پر نشانے پر رکھنا ،ناقابلِ تلافی اورانسانیت کیخلاف جرم سے بھی شاید بڑا جرم ہے۔جس کی سزااگر ثبوت ہوں تو عدالتوں سے مل سکتی ہے جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی قدرتِ کاملہ بہت کچھ دکھا دیتی ہے۔
اٹک سازش کیس کے بہت سے پہلوگزرتے وقت کیساتھ دھندلا چکے ہیں ان میں سے ایک سے میجر فاروق آدم کے وکیل بیٹے عمر آدم نے ایک انٹرویو میں دھند ہٹائی ہے۔: وہ تین چار برس کے تھے جب وہ اپنی ماں کے ساتھ جیل میں باپ سے ملنے جاتے تھے۔ جب یہ بغاوت کا منصوبہ بن رہا تھا تو ان کی والدہ نے ایک دن ان کے باپ سے پوچھا کہ آپ جو کچھ کرنے جارہے ہیں اس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے، آپ کی اپنی جان بھی جاسکتی ہے، کچھ سوچا ہے میرا اور بچوں کا کیا ہوگا؟لیکن اس وقت ان 21 افسروں کے سر پر اپنے خاندان اور بچوں سے زیادہ پاکستان کو ہونے والی شکست اور دیگر ایشوز کی اہمیت سوار تھی۔ بیوی‘ بچے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ اس وقت جوان افسروں کا خون جوش مار رہا تھا‘ بلکہ جس رات میجر فاروق آدم کو لاہور سے رات گئے گرفتار کیا گیا تو ان کی بیگم فوراً اس کمرے کی طرف بھاگیں جہاں ان کے شوہر بیٹھ کر کام کرتے تھے کہ کہیں وہاں ایسی دستاویزات نہ رکھی ہوں جو اِن کے ملٹری ٹرائل کورٹ میں ان کے خلاف استعمال ہوں۔ وہ سب کاغذ اٹھا کر انہوں نے کموڈ میں بہا دئیے۔
 اس تحریر میں بر سبیل تذکرہ پنڈی سازش کیس اور بریگیڈیئر نیاز کی بات ہوئی ، اس پر بھی کبھی قلم اٹھائیں گے۔
 

متعلقہ خبریں