نقشہ اور شردھالو ذہنیت

2020 ,اگست 8



کل باربر شاپ پر جانا ہوا۔ نوجوان راجہ نے حسبِ معمول ’’الفی‘‘ سی اوڑھا کر کارروائی کے آغاز کار کے ساتھ ہی طنز کی آمیزش شامل کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’سنا ہے پاکستان کا نقشہ بن گیا ہے۔ ان کو ستر سال بعد نقشہ بنانے کا خیال آ یا۔ اس دوران ٹی وی فل والیوم پرچل رہا تھا۔ اس نوجوان کی تعلیم واجبی سی لگتی تھی۔ شاپ پر حمام کا بھی اہتمام ہے۔ اس کا باپ بھی ساتھ ہی کام کرتا ہے مگر اس دن وہ وہاں موجود نہیں تھا۔ کشمیریات پر اپنی کوئی اتھارٹی ہے نہ زیادہ معلومات اور مہارت ہے مگر ٹی وی اخبارات اور مضامین کے مطالعہ سے کشمیر اور دیگر پاکستان بھارت تنازعات بارے کچھ واقفیت ضرور ہے۔ میں نے اسے ذرا سمجھانے کی کوشش کی۔ ہو سکتا ہے اسے مجھ سے زیادہ معلومات ہوں مگر اس نے اس کا اظہار کیا نہ احساس ہونے دیا۔ وہ میری باتیں سنتا اور سر دُھنتا رہا۔ 

تقسیم کے موقع پر مسلم اکثریتی علاقوں کے پاکستان اور ہندو اکثریتی علاقوں کے بھارت  میں شامل ہونے کا اصول طے ہوا۔ اس  اصول کے تحت کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا مگر بھارت نے کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کر لیا۔ پاکستان طاقت کے ذریعے یہ تسلط ختم کرانے پر تُل گیا اور وہ حصہ آزاد کرایا جسے آزاد کشمیر کا نام دیا گیا ہے۔ پاکستان مزید بھی آگے بڑھ رہا تھا کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے بھاگم بھاگ اقوام متحدہ جا کر جنگ بندی کی درخواست گزار دی۔ اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے کشمیریوں کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے بھی ساتھ شامل ہونے کی تجویز دی جس سے اندراگاندھی کے والد نہرو نے اتفاق کیا مگر اب تک اس پر عمل کی نوبت نہیں آنے دی۔ اس میں بنیا حکمرانوں کی بدنیتی کا اول و آخر عمل دخل ہے۔

یہاں رک کر میںنے توقف کیا اور راجہ سے پوچھا بات سمجھ آئی؟ تو اس نے ہاں کہتے ہوئے مزید تائید کیلئے سر بھی ہلایا۔ اس سے پوچھا کیا آپ نے جونا گڑھ‘ مناوا در‘ سرکریک اور حیدرآباد دکن کا نام سنا ہے۔ اس نے حیدرآباد کے بارے میں بتایا کہ بس اس شہر کا نام سنا ہے جو کراچی کے راستے میں پنجاب سے جاتے ہوئے آتا ہے۔ اسے بتایا کہ یہ تمام وہ شہر ہیں جو تقسیم کے وقت مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے ناطے وضع کئے گئے اصول کے مطابق پاکستان کاحصہ بننے تھے مگر ان پر ہندوستان نے بدمعاشی و غنڈہ گردی سے قبضہ جما لیا۔ بھارت کا کشمیر کے بڑے حصے پر 73 سال سے قبضہ جاری ہے۔ اس نے خود ہی کشمیریوں کیلئے کچھ حقوق مقرر کئے جس میں کشمیر میں باہر سے آکر کسی کو جائیداد خریدنے‘ مستقل مقیم ہونے اور ملازمتیں حاصل کرنے سے روکا گیا تھا۔ ایک سال قبل مودی حکومت نے یہ اصول توڑ دیا جس پر کشمیری سخت اشتعال میں آ گئے تو بھارت نے ان کا عرصہ حیات کرفیو نافذ کرکے تنگ کر دیا۔ دو ماہ قبل ایک نقشہ جاری کیا جس میں آزادکشمیر اور گلگت کو اپنا حصہ ظاہر کیا گیا۔ میں نے گلگت کہا تھا، اس نوجوان نے ساتھ لفظ بلتستان بھی جوڑ دیا ۔گویا وہ ایسی معلومات میں یکسر کورا بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، پاکستان نے بھارت کے نقشے کے بعد اپنا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے۔ پاکستان کے جاری کردہ اس سیاسی نقشے میں ان علاقوں کو پاکستان کا حصہ ظاہر کیاگیا جو تقسیم ہند کے اصولوں کے بموجب پاکستان میں شامل ہونے چاہئیں تھے۔

اس نئے نقشے کا فائدہ کیا ہوگا؟اس نے یہ، وہ سوال کیا جو کئی ذہنوں میں کلبلا رہاہے۔اس کا جواب دینے سے قبل نہ جانے اس سے کیوں یہ سوال کر دیا کہ کبھی آپ تھانے یا جیل گئے ہو؟ اس نے بغیر کسی لگی پتی اور ہچکچاہٹ کے کہا جی'چِھیں' یعنی6 مہینے جیل کاٹی ہے۔ شریکے کے ایک شخص کے باپ نے میرے دادا کی بھرے بازار میں بے عزتی کی تھی‘ اس کے ساتھ معمولی جھگڑا ہوا تو میرے اندر اپنے دادا کی عزت خاک میںملنے کا بدلہ لینے کی آگ سلگ رہی تھی ۔ میں نے ڈنڈے سے اس کا سر پھاڑ دیا۔ ضرب کوئی گہری نہ لگ سکی تو 6 ماہ قید سے جان کی خلاصی ہوئی اور خاندان کے بڑوں نے صلح بھی کر ا دی تھی۔آپکے دادا کی بے عزتی آپ کے سامنے ہوئی تھی؟اس سوال پر راجہ نے بتایا دادا تو اسکی پیدائش سے بھی قبل فوت ہوگیا تھا، یہ سب اسکے ابا نے اسے بتایا اور گاہے بگاہے بتاتا رہتا تھا۔ اس نے اس خدشہ کا اظہار بھی کیا کہ ہوسکتا ہے اس کی آئندہ نسل ہم سے اس کا بھی بدلنے لینے کی کوشش کرے البتہ میرے اندر سلگتی انتقام کی آگ میں پہلے جیسی تپش اورتمازت نہیں رہی۔ اس کی بات سن کے اسے پاکستان کے جاری ہونے والے سیاسی نقشے کی ضرورت اور افادیت کے بارے میںبتایا کہ بہت سے لوگوں خصوصی طور پر نوجوان نسل کی اکثریت کو معلوم نہیں کہ جونا گڑھ‘ حیدر آباد‘ دکن‘ مناوادر سمندری علاقہ سرکریک اصولی طور پر پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے تھے جن پر بھارت قابض ہے۔ ہماری نسلیں اس نقشے کو دیکھیں گی جس میں کئی ایسے علاقے ہونگے جو نقشے میں تو پاکستان کا حصہ ہیں مگر عملاً وہ بھارت کے غیرقانونی قبضے میں ہیں تو وہ اس بارے بارے سوال کریں گے ۔ نقشے کی عدم موجودگی میں شایدہی دو تین فیصدکو اصل صورت سے آگاہی ہو جبکہ نقشے کو سامنے دیکھ کر 90 فیصد سے زیادہ نوجوان نسل کے علم میں یہ بات ہو گی جو دشمن سے انتقام کے جذبات کو سرد نہیں پڑنے دے گی۔ بعیدنہیں کوئی مردِ خدا زندگی کے کسی موڑ پر نقشے کو دیکھتے ہوئے کاغذ پر کھینچی لکیروں کو حقیقت کا روپ دیدے۔

 بھارت کو پاکستان کے اس نقشے کے اجراء پر آگ لگی ہے اوراس کے پاکستان میں موجود کچھ شردھالو بھی عمران خان سے حسد میں جل بھن کرالٹی سیدھی باتیں کر کے اپنے خبثِ باطن کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا ایسے بیانات بڑے اہتمام سے دنیا کے سامنے لارہاہے گویا یہ پاکستان کیلئے میرجعفر و میر صادق اور انڈیا کیلئے "میر عالم" اور ہیروہیں۔ ان بیان بازوں میں ایسے بھی ہیں جن کوگھر کی بلیاں،کھیت کے گیدڑ اور گلی کے 'گُلر' بھی نہیں پہچانتے۔  نقشے کا اجرا قوم کیلئے خوش خبری سے کم نہیں اور ایسی ہی ایک خوشخبری کرونا سے نجات کا نظر آنا ہے۔آج بہت سی پابندیاں اُٹھا لی گئی ہیں۔سیاحتی مراکز کھُل گئے،مزارات، ریستوراں، عوامی مقامات، کھیلوں کے مقامات،ایکسپو اور شاپنگ سنٹرز کھول دیئے گئے ہیں مگر ابھی کرونا مکمل ختم نہیں ہوا،احتیاط بدستو لازم ہے۔

متعلقہ خبریں