سفر نامہ کشمیر......زمیں کی جنت

2022 ,دسمبر 5



قدرت کبھی کبھی ایسے سرپرائز دیتی ہے کے زندگی کے سفر میں، ذہن و دل پر جمی پریشانیوں کی اداسیوں کی دھول پل بھر میں دھل جاتی ہے۔نظریں ایسے نظارے دیکھتی ہیں کہ خاک سے بنی انسانی ہستی خود بخود قوس و قزح کے سبھی دلنشیں رنگ اپنی ذات کے اردگرد بکھرے ہوئے محسوس کرتی ہے۔مجھے بھی پچھلے دنوں قدرت کی جانب سے ایسا ہی خوبصورت موقع ملا،جب اچانک دن کے ایک بجے مجھے پر خلوص سا پیغام اصرار کے ساتھ موصول ہوا کے شام چھ بجے کشمیر جانا ہے۔بس تیار رہیے گا۔اور میرے جیسی بندی جو بیمار ہوجائے تو ڈاکٹر کے پاس جاؤں یا نا جاؤں یہی سوچنے میں چار دن لگا دیتی ہے۔اور اتنے میں موسمی بیماری خود ہی نودو گیارہ ہوجاتی ہے کہ اس نے کرلی ہماری مہمان نوازی۔ لیکن میں نے دنیا کی جنت دیکھنے کے شوق میں ایک لمحہ بھی سوچنے میں نہیں لگایا اور فورا ًجانے کی حامی بھر لی، تو ساتھ ہی حکم موصول ہوا تو پھر جلدی سے اپنے سامان کے ساتھ (چکن تندوری) بھی تیار کرکے مقررہ وقت پر گاڑی میں تشریف فرما ہوجائیے گا۔

Kashmir - Wikipedia

دوست پیار سے کیسے باندھ کر مارتے ہیں بخوبی اندازہ ہورہا تھا۔لیکن بہشت دیکھنے کے شوق نے ایسی ہمت،طاقت،توانائی بھر دی تھی کہ میں سب سے پہلے سب کاموں سے فارغ ہوکر گاڑی میں جاکر بیٹھ چکی تھی۔
فیصل آباد کی گرم فضاؤں سے جیسے ہی باہر نکلے اسلام آباد کی ٹھنڈی میٹھی ہواؤں اور فضاؤں نے بہت پیار سے اپنے پن کا احساس دلایا۔

Kashmir Tourism, India: Places, Best Time & Travel Guides 2022
رات کی تاریکی گہری ہوتی جارہی تھی آدھے ساتھی سوچکے تھے۔لیکن میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو سفر میں سونا گناہ سمجھتے ہیں۔سفر کو ہمیشہ آخری سفر سمجھ کر لطف اندوز ہونا چاہیے۔ چاہے اپنے ارد گرد ساتھیوں سے باتیں کریں۔ تخیل میں چھپے اپنے ہم نفس سے گفتگو کریں۔آتے جاتے پہاڑوں، پرندوں، سبزہ زاروں،ندی نالوں، گنجان آبادیوں، ویران راستوں، قبرستانوں کو سلام کریں، دعائیں لیں ، دعائیں دیں کہ ہم رہیں نا رہیں یہ سب صدیوں سے موجود ہیں اور صدیوں تک رہیں گے۔نہ جانے اب تک کتنے مسافروں آئے اور گئے ان راہوں سے،کون منزل پر پہنچا اور کون رستہ بھٹک گیا رب جانے۔لیکن مقام ِ شکر.... قدرت مجھ پر ہمیشہ مہربان رہی ہے۔
مجھے اب تک زندگی میں اپنی سوچ اور طلب سے زیادہ آسانیاں نصیب ہوجاتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی سفر کی شروعات میں ہی قدرت کی مہربانیاں شروع ہوچکی تھیں۔
 بادلوں کی غضب کی گھن گھرج اور بجلی کی ہیڈ لائٹس کی طرح وقتاً فوقتاً چمکتی روشنیاں گاڑی میں موجود سب خوابِ غفلت میں سوئے ہوؤں کو جگا چکی تھیں۔گانے بند کردیے گئے تھے اور آیت الکرسی ....یا حفیظ کا ورد زبانپر جاری تھا۔موٹر وے پر گاڑی روکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔گاڑی ہلکی رفتار سے چلتی رہی۔
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے 
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے 

Treks, tours, and many facets of Azad Jammu and Kashmir
جزبہ دل توعروج پر تھا لیکن منزل تھی کہ سامنے آنے کا نام نہیں لے رہی تھی....لیکن ہر طویل رات کی طرح سفر کی طوالت بھی اختتام پذیر ہوئی اور ہم کشمیر دریائے نیلم کے کنارے اپنے مطلوبہ ہوٹل میں پہنچے۔تازہ دم ہوئے کھانا کھایا اور دریائے نیلم کے کنارے آکر بیٹھ گئے۔ رات گئے تک ہم سب صبح تفریح جانے کے لیے جگہ منتخب کررہے تھے ۔ہر کسی کی اپنی ہی پسند تھی ،لیکن میں بابون سے ملنے کے لیے اتنی دور کا سفر طے کرکے یہاں تک پہنچی تھی اور مجھے سب سے پہلے اسی وادی میں جانا تھا۔سو میری خواہش کا احترام کیا گیا ۔
صبح بارہ سے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر جانے کے لیے پتھریلے بل کھاتے جوڑ جوڑ ہلاتے خطرناک راستے کی کٹھانائیوں نے ہمیں ہمارے اگلے پچھلے سارے گناہ یاد کروا کے سچے دل سے توبہ کرنے پر مجبور کردیا تھا۔دو تین مرتبہ چڑھائی چڑھتے گاڑی اتنے برے طریقے سے اٹکی کے ہمارا اپنا سانس سینے میں اٹک گیا۔دل میں کلمہ شہادت پڑھ کر ہم نے سب کو الوداع تک کردیا ۔ 
لیکن عشق کے امتحاں ابھی باقی تھے!

More beautiful than Europe': Indians flock to Kashmir's lakes, boats | CNN  Travel
 سب کو نیچے اتار کر گاڑی کو اوپر چڑھایا گیا ۔اللہ کا شکر کے ڈرائیور ماہر تھا۔ ان جان جوکھم راستوں پر گاڑی مہارت سے چلا رہا تھا۔لیکن بقول ہمارے ڈرائیو وہ ڈرائیور نہیں تھا، بلکہ یہیں کا شہری اپنے دوستوں کے ساتھ ملنے آیا تھا۔ہمارے بھائی کو گاڑی کی بکنگ کرواتے دیکھا تو اپنی خدمات پیش کیں اور بس سب کو گاڑی میں بیٹھایا اور اڑاتا چلا گیا۔
واللہ ہمیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ دلفریب آفریں نظارے دیکھنے سے پہلے ہمیں یوں دن میں تارے بھی دیکھنے پڑیں گے۔
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غماں دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
اللہ اللہ کرکے سفر تمام ہوا۔انسان کو کبھی کبھی خود کو بھی سمجھانا پڑتا ہے۔ حوصلہ دینا پڑتا ہے۔ہمت بندھانی پڑتی ہے۔ شاباشی دینی پڑتی ہے۔خود کو کہنا پڑتا ہے کہ ہمت مرداں مدد خدا! ۔
جو مشکلات سے ڈر جاتا ہے

وہ زندہ رہ کر بھی مرجاتا ہے
زندگی زندہ دلی کا ہے نام 
 مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
خود کو ہمت کے انرجی ڈرنکس پلاتے پلاتے ہم بالآخر پہاڑوں کے اوپر پہاڑوں کے دامن میں سرسبز و شاداب پھولوں سے مہکی حسین ترین رنگوں سے سجی بابون وادی میں پہنچ چکے تھے۔منظر اتنی تیزی سے بدلے تھے کہ نظریں کہیں ٹھہر ہی نہیں رہی تھیں۔ایسے لگ رہا تھا جیسے ساری دنیا سمٹ کر اس حسین وادی میں آبسی ہے۔ کاش میرے لفظ آپ کووہ سکون بتا سکتے جو اس وادی میں جاکر محسوس ہوا ہے۔ بابون کی سندرتا کو میں اس کی شان کے مطابق بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
اصل خوبصورتی وہی ہوتی ہے جو آپ کی نظر کو خیرہ کرے ،ذہن کو منور کرے اور دل کو مسرور کردے۔ آپ پر ایسا سحر طاری کردے کہ باقی سب کچھ پس پردہ چلا جائے۔اور خوبصورتی کا جادو سر چڑھ کر بولے۔ بابون کی خوبصورتی نے بھی مجھے ایسے ہی بے خود کردیا تھا۔ میں نے ایک سحر انگیز کیفیت کے ساتھ وہاں وقت گزارا۔مجھے لگتا ہے میں شہری آسائشوں کے بغیر بھی وہاں پر دنوں، ہفتوں، مہینوں بلکہ زندگی بھر رہ سکتی ہوں۔خاموشی، دلکشی،رعنائی، پاکیزگی ،کیا تھا جو وہاں نہیں تھا۔

Kashmir crosses two million tourist arrivals mark, stakeholders call it the  'luckiest period' - India News News
میرے سامنے ایک طرف پرسکون حدت والی دھوپ تھی تو دوسری طرف پانی کا بوجھ اٹھا کر سرمستی سے اٹھلاتے ہوئے بادل سر پر کھڑے تھے۔
میں نے زندگی میں ایسے نظارے مستنصر حسین تارڑ اور دوسرے سیاحوں کے سفر ناموں میں بارہا پڑھے تھے لیکن سنی سنائی پڑھی پڑھائی باتیں اس وقت کہیں کھو جاتی ہیں جب انسان خود حقیقت کی آنکھ سے مشاہدہ، تجزیہ،تجربہ کرتا ہے۔
 قدرت کے آفریں نظاروں کو یوں اپنے سامنے بے حجاب دیکھ کر مجھے لگا کہ اب تک جتنی تعریفیں سنی تھیں وہ سب کم تھیں۔لیکن اب میں خود ان کی تعریف کرنے کے لیے ان کے شایان شان لفظ کیسے ایجاد کروں۔
ایک مرتبہ کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ ان حسین ترین وادیوں میں جاکر سوا لاکھ مرتبہ سبحان اللہ.... الحمدللہ....اللہ اکبر....استغفراللہ ....کی تسبیحات خود ہی مکمل ہوجاتی ہیں۔ تو حقیقت میں ایسا ہی ہے۔وہاں کے مقامی لوگوں کے رہن سہن ،سادگی اور خلوص کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ان کا ناشتہ کروانا اور کشمیری قہوہ پلانا ہمیشہ یاد رہے گا۔
خطرناک راستے کی وجہ سے اندھیرا ہونے سے پہلے ہر صورت ہمیں اس وادی کو الوداع کہنا تھا۔وہاں کوئی مزار نہیں تھالیکن میں پھر بھی دل میں منت مان چکی تھی کہ قدرت مہرباں رہے.... تو زندگی میں دوبارہ بابون سے ملنے ضرور آؤں گی۔ ان شاءاللہ۔

Stunning growth of tourism in Kashmir fills strategic gaps
واپسی پر سفر کی اذیت کم رہی۔ کھانا کھا کر، چائے پی کر، تھکن کے باجود طبیعت ہشاش بشاش تھی۔ رات اپنے ہوٹل پہنچے اور میں روزانہ کی طرح دریائے نیلم کے کنارے جاکر بیٹھ گئی۔
صبح روانگی تھی اوردل ایسے اداس ہو رہا تھاجیسے کوئی اپنے کسی بہت پیارے سے بچھڑتا ہے۔ شب کے اندھیرے میں ان فلک بوس پہاڑوں کو،نظاروں کو، دریائے نیلم کی گنگناہٹوں کو دل کی گہرائیوں میں محسوس کررہی تھی۔اگر ہمارے قابل سیاست دانوں کو فرصت ملے اور وہ سیاحت پر نظرِ کرم کریں تو میرے جیسے وہیل چیئر پر بیٹھے سیاحت کے شوقین پیارے وطن کے گوشے گوشے کو وہیل چیئر پر بیٹھ کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
”الحمدللہ “زمین کی جنت تو دیکھی لی ہے،اللہ کرے اب جنت الفردوس بھی دیکھیں۔آمین ۔ 
(گل افشاں رانا۔فیصل آباد)

متعلقہ خبریں