2019 ,ستمبر 28
لاہوری رنگ باز کیوں کہلاتے ہیں؟
اگر لاہوری نیل نہ ہوتا تو ڈینم جینز بھی نہ ہوتی!
خضری دروازہ شیرانوالہ گیٹ کیسے بنا؟
لاہور کو زندہ دلوں کا شہر کہا جاتا ہے، لیکن ’’ رنگ باز‘‘ کا ’’لقب‘‘ بھی لاہوریوں کے لیے سننے میں آتاہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئے؟ اس کی ایک دلچسپ تاریخ ہے جو یہاں کے رہنے والوں کے پیشے کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن بعد ازاں اس ’’لقب‘‘ کو طنز کے طور پر لیا جانے لگا۔
ہندوستان میں صدیوں سے نیل کی کاشت ہوتی تھی اور یہ باقی دنیا کو بڑی مقدار میں نیل بیچتا تھا۔ درحقیقت نیل کا انگریزی نام انڈیگو لفظ انڈیا سے ہی ماخوذ ہے۔ ایک زمانے میں نیل کو "نیلا سونا" (blue gold) کہتے تھے۔ بہار کا چمپا رن ضلع اس کی کاشت کے لیے مشہور تھا۔
سن 1611 میں ایک انگلش تاجر ولیم فنچ لاہور آیا- اس کی لاہور آمد کا واحد مقصد نیل کی خریداری تھا- بقول فنچ یہ نیل انگلینڈ تک پہنچنے کے تمام خرچے نکالنے کے بعد بھی چار سو فیصد منافع بخش تھا-
یہ فنچ ہی تھا جس نے پہلی مرتبہ شاہی رقاصہ انارکلی کی داستان سے یورپ کے لوگوں کو متعارف کروایا- رقاصہ انار کلی جس کو شہنشاہ اکبر نے دیوار میں زندہ چنوادیا تھا- فنچ نے انارکلی کی یہ داستان لاہور کے گلی محلوں میں قصہ خوانوں اور داستان گو حضرات سے سنی-
یہ داستان پھر کبھی سہی کیونکہ آج ہماری اس تحریر میں نیل کا ذکر کیا جائے گا جو صدیوں تک لاہور کی ایک اہم تجارتی جنس رہی- بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لاہور میں موجود ایک سب سے قدیم کرسچن قبرستان میو ھسپتال کے نرسنگ ھاسٹل کے مقابل ایونگ ھال اور نیلا گنبد کے عقب میں سیکرڈ ھارٹ اسکول کے برابر موجود ہے- اس قبرستان میں سکھوں کے دور حکومت سے بھی پہلے کی کچھ قبریں ایسی موجود ہیں جن کے سنگی کتبوں پر نیل کے تاجر (Indigo Planters) کے بارے میں تفصیلات درج ہیں- یہ نیل کے تاجر کون تھے؟
فنچ کی نیل کی تجارت کا روٹ لاہور کے خضری گیٹ جس کا موجودہ نام شیرانوالا گیٹ ہے سے شروع ہوتی تھی- خضری دروازہ شیرانوالہ گیٹ کیسے بنا ۔ اس کی بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے-
اس دروازے کا پرانا نام ٴخضری دروازہٴ بھی ہے۔ جس کی وجہ تسمیہ یہ روایت بتائی جاتی ہے کہ حضرت خضرۿ اس دروازے سے باہر نکل کر راوی دریا میں اتر گئے تھے تب سے اس دروازے کا نام خضری دروازہ چلا آ رہا ہے۔ حضرت خضرۿ وہی ہیں جنہوں نے آب حیات دریافت کیا جسے پینے کے بعد ابدی عمر پائی اور اب بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وہ کسی بزرگ کی شکل میں ظاہر ہو کر گم شدہ راہی کو منزل مقصود کی جانب رہنمائی کرتے ہیں۔ اندرون شیرانوالہ دروازے میں آج بھی خضری محلہ موجود ہے۔ کنہیا لال شیرانوالہ دروازے کے بارے میں ٴٴتاریخ لاہورٴٴ میں لکھتے ہیں کہ ٴٴوجہ تسمیہ اس دروازے کی یہ ہے کہ زمانہ سلف میں دریائے راوی شہر کے بہت نزدیک بہتا تھا۔ خصوصاً اس دروازے کے آگے توکشتی پڑتی تھی۔ چونکہ خواجہ خضرکو دریائوں کے ساتھ کمال نسبت ہے اور ٴمیرالبحارٴ ان کا خطاب ہے، یہ سبب ہے کہ قرب دریا کے اس دروازے کا نام خضری دروازہ رکھا گیا۔ مگر اب لوگ اس کو شیراں والا دروازہ کہتے ہیں۔ مہارجہ رنجیت سنگھ نے بڑے اور عادی مجرموں کو سزا دینے کے لیے 444شیر پال رکھے تھے جن کے رہنے کے لیے 77ایکڑ زمین موضع گلی رام بیرون شیرانوالہ گیٹ میں دریائے راوی کے کنارے مختص کی گئی تھی۔ مہاراجا رنجیت سنگھ مجرموں کو سزائے موت دینے کے غرض سے ان کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینے کا حکم دیتا تھا جو پلک جھپکتے میں شیروں کی خوراک بن جاتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق اسی نسبت سے اس دروازے کو شیرانوالہ دروازہ پکارا جانے لگا تھا۔ باعث یہ ہے مہاراجا رنجیت سنگھ کے دور میں ہمیشہ دو شیروں کے پنجرے اس دروازے کے اندر رکھتے تھے اور خبر گیری شیروں کی محافظانِ دروازہ کے متعلق تھی۔ انگریزی عہد میں وہ پنجرے اُٹھوائے گئے مگر دروازے کا نام شیراں والہ دروازہ بحال رہا۔ٴٴ
لاہور میں نیل کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز نیلی گلی تھا- نیل کو انگریزی میں انڈیگو Indigo
کہا جاتا ہے- انڈیگو دراصل یونانی زبان کے لفظ انڈیکم(Indicum) سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے “ انڈیا سے آیا ہوا- “یونانی لوگ یہ نیل عرب تاجروں سے خریدا کرتے تھے جو یہ نیل انڈیا سے براستہ بحیرہ روم یونان تک لے کر جایا کرتے تھے- اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نیل خالصتا” برصغیر کی پروڈکٹ ہے- فنچ نے اپنی ایک تحریر میں یہ مشاھدہ تحریر کیا ہے کہ نیلی گلی کے ایک مزدور نے صبح کام کے وقت کچھ انڈے نیلی گلی کے ایک کونے میں موجود طاقچے میں رکھ دئے- دن بھر نیل کا غبار اڑ اڑ کر ان پر پڑتا رہا- شام کو جب ےہ انڈے توڑے گئے تو وہ اندر تک سے گہرے نیلے ہوچکے تھے- یہ تھی نیل کے رنگ کی اثر پذیری اور رچاؤ-نیل سے بھری بیل گاڑیاں راوی میں کھڑی کشتی تک نیل لے کر جاتیں- راوی سے سفر کرتے ہوئے یہ کشتیاں ملتان کی جانب رواں دواں ہوتیں- پھر دریائے سندھ سے ہوتی ہوئ گدو بندر اور پھر وہاں سے چھکڑوں میں کراچی کی بندرگاہ تک لائ جاتیں جہاں سے انہیں بحری جہازوں میں لاد کر خلیج فارس اور افریقہ سے ہوتے ہوئے پرتگال کی بندرگاہ تک پہنچایا جاتا تھا- یا پھر کراچی کی بندرگاہ سے یہ نیل بمبئ اور کلکتہ کی بندرگاہوں تک پہنچایا جاتا جہاں سے یہ یورپ لے جایا جاتا- پرتگال اس زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ تھا اور پرتگالی سب سے بڑی تجارتی قوم—-
آپ آج بھی انگریزی کی پرانی ڈکشنریاں نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ان ڈکشنریوں میں نیل کا نام لاہوری ملے گا، گورے اس زمانے میں نیل کو لاہوری کہتے تھے-فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ڈچ، نیل کے لئے ہندوستان آتے تھے ۔
جب کہ برطانوی، مشرقی ساحلوں پر پائے جانے والے گرم مصالحوں ، پٹ سن ، افیون اور دیگر پیداوار کے لئے یہاں آئے اور پھر پورا ہندوستان پر بلاشرکت ِغیرے قابض ہو گئے ۔
یہ شہنشاہ اکبر اور شاہ جہاں کا دور حکومت تھا اور اس دور میں لاہور نیل کی دنیا کا سب سے بڑا مرکز تھا اور شہنشاہ اکبر نے لاہور کے قلعے سے ذرا فاصلے پر ہندوستان میں نیل کی پہلی باقاعدہ منڈی قائم کی۔ یہ منڈی اکبر کے نام پر اکبری منڈی کہلائی جاتی ہے۔ اس دور میں لاہور کے مضافات میں میلوں تک نیل کے پودے تھے جہاں لوگ ان پودوں کا ست نکالتے تھے، جس کے بعد ست کو بڑی بڑی کڑاہیوں میں ڈال کر پکایا جاتا تھا۔ ست پکنے کے بعد اس کا پاؤڈر اور ڈلیاں بنائی جاتی تھیں جس کے بعد یہ ڈلیاں ٹوکریوں اور بوریوں میں بند ہو کر منڈی پہنچتی تھیں جہاں یہ ڈلیاں تاجروں کے ہاتھوں بکتی تھیں۔
اس کے بعد گڈوں کے ذریعے یہ ڈلیاں ممبئی اور کولکتہ پہنچتی تھیں۔ وہاں سے انھیں فرانسیسی اور اطالوی تاجر خریدکر جہازوں میں بھرتے تھے۔ یہ نیل بعد ازاں اٹلی کے ساحلی شہرجینوا پہنچ جاتا تھا، جو فرانسیسی شہر نیم (Nîmes) کے قریب تھا۔ نیم شہر ڈی نیم کہلاتا ہے جہاں ہزاروں کھڈیاں تھیں جن پر موٹا سوتی کپڑا بُنا جاتا تھا۔ یہ کپڑا سرج کہلاتا تھا جو بن کر جینوا پہنچتا تھا۔ وہ لوگ اس کپڑے پر لاہور کا نیل چڑھاتے تھے جس سے کپڑا نیلا ہو جاتا تھا۔ وہ نیلا کپڑا اگلے مرحلے کے لیے درزیوں کے پاس پہنچتا تھا۔ درزی اس سے مزدوروں، مستریوں اور فیکٹری ورکرز کے لیے پتلونیں سیتے تھے۔ وہ پتلونیں بعد ازاں جینوا شہر کی وجہ سے جینز کہلانے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جینز پتلونیں مشہور ہو گئیں تو ڈی نیم شہر کے تاجروں نے اپنے کپڑے کو ڈی نیم پکارنا شروع کر دیا۔
جینز اور ڈی نیم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھے ہوئے اور یہ ڈینم جینز بن گئے۔ اس کے تین عناصر تھے جس سے وہ مکمل ہوتی تھی۔ پہلا ڈی نیم کا کپڑا، دوسرا لاہور کا نیل اور تیسرا جینوا کے درزی۔ مغلوں کے دور میں اگر لاہور کا نیل نہ ہوتا تویہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شاید جینز نہ بنتی اور اگر بنتی بھی تو کم از کم یہ نیلی نہ ہوتی۔ جینز کا نیلا پن بہرحال لاہور کی مہربانی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ولندیزیوں نیل کے لئے ہندوستان آتے تھے جب کہ برطانوی افیون کے لئے، اور پھر پورا ہندوستان ہتھیا لیا۔
ہندوستان میں اس وقت فارسی زبان رائج تھی اور فارسی میں کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو باز کہا جاتا تھا ہے مثلاً کبوتر پالنے والوں اور اڑانے والوں کو کبوتر باز۔ اسی مناسبت سے رنگ بیچنے والے رنگ باز ہو گئے۔ چنانچہ کولکتہ اور ممبئی کے تاجر نیل کی صنعت سے وابستہ لاہوریوں کو رنگ بازکہنے لگے۔ اس زمانے میں چونکہ لاہور کی زیادہ تر آبادی نیل کی صنعت سے وابستہ تھی چنانچہ پورا لاہور رنگ باز ہو گیا۔ اور یہ رنگ بازی آج بھی لاہوری مزاج میں زندہ وتابندہ ہے۔
لیکن یہ پہلے کی باتیں ہیں، ہم ابھی اس دور کی بات کر رہے ہیں جب نیل لاہور کی سب سے بڑی تجارت تھا اور یہ لاہوری اور انڈیگو کہلاتا تھا۔ لیکن پھر لاہوری نیل کو نظر لگ گئی۔ مغلوں نے نیل پر ٹیکس لگا دیا اور یورپ نے مصنوعی رنگ ایجاد کر لئے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے فرانسیسیوں، اطالویوں اور پرتگالیوں کو مار بھگایا اور یوں لاہور میں نیل کی صنعت زوال پذیر ہو گئی۔ اس تاریخ کو بھول کر ’’رنگ باز‘‘ کو طنز میں تبدیل کر دیا گیا۔ لاہوریوں کو یہ ’’لقب‘‘ یا ’’خطاب‘‘ تو ممبئی اور کولکتہ کے تاجروں نے دیا تھا۔
نیل کیا ہے؟
نیل ایک پودا ہے- نیل کی کاشت صرف ملتان میں ہی ہوتی تھی
یہاں سے بیوپاری لاہور کی منڈیوں میں فروخت کرتے تھے
دریائے چناب کے کنارے پہ جہاں نیل کی کاشت اور رنگ سازی کا کام کرتے تھے اس علاقے کا نام نیل کوٹ ہے اور اب وہ علاقہ ملتان کے وسط میں واقع ہے
نیل کی کاشت خالصتاً گہرے پانی میں ہوتی ہے‘ عموماً نیل کی فصل ایسی زمین میں کی جاتی ہے جس میں ریت کی مقدار بھی شامل ہو اور سب سے بڑھ کر پانی کی جلد اور بکثرت فراہمی بھی ضروری ہوتی ہے‘ اکثر نیل کی کاشت گندم کی کٹائی کے بعد ہوتی ہے۔نیل کی فصل میں کھاد کبھی کبھار ہی ڈالی جاتی ہے‘ نیل کی فصل کو کنویں یا جھلار کا پانی شاید ہی لگایا جاتا ہو‘ اس فصل کو نہری پانی سے کاشت کیا جاتا ہے۔ نیل کی فصل کی کٹائی خزاں میں ہونے کی وجہ سے نہروں کی بندش اس پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ پہلے سال کی کٹائی کرتے وقت زمین کے اوپر ڈنٹھلوں کو چھ انچ چھوڑ دیا جاتا ہے‘ اگلے سال انہی ڈنٹھلوں سے دوسری فصل حاصل کی جاتی ہے‘ نیل کی پہلی فصل ’’سروپ‘‘ جبکہ دوسری ’’منڈھی‘‘ کہلاتی ہے لیکن تیسرے سال نیل کی فصل کو بدبختی کی علامت سمجھا جاتا ہے‘
نیل کے پودوں کو کٹائی کے بعد گٹھوں کی صورت باندھ لیا جاتا ہے اور بڑے والے حوض میں ڈنٹھلوں کو نیچے کی طرف کر کے کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ ہر حوض میں 8 سے 10 گٹھے ہوتے ہیں۔ شام کے وقت حوضوں میں اتنا پانی چھوڑ دیا جاتا ہے کہ تمام پودے ڈوب جائیں‘ اوپر لکڑی کا ایک شہتیر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ پودے پانی میں ڈوبے رہیں۔ کٹائی کے بعد پانی میں ڈبونے کا عمل جلد از جلد شروع کیا جاتا ہے۔
پودوں کو 24 گھنٹے پانی میں ڈبونے کے بعد پتوں سمیت باہر نکال لیتے ہیں‘ حوض میں صرف مائع رہ جاتا ہے پھر ایک مزدور چپو نما آلے سے ایک گھنٹے تک اچھی طرح ’’بلوتا‘‘ ہے اسے ’’ولورنا‘‘ کہتے ہیں‘ اس کیلئے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کے بعد سارا شفاف پانی باہر نکال لیتے ہیں‘ حوضوں کے پیندوں میں صرف تلچھٹ رہ جاتی ہے‘ اب اسے چھوٹے والے حوض میں رات بھر کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے‘ صبح کو چھوٹے حوض سے پھر پانی نکالتے ہیں‘ تلچھٹ کو پورے احتیاط سے جمع کر کے ایک کپڑے میں باندھ لیا جاتا ہے اور ریت کے ڈھیر پر رکھ دیا جاتا ہے۔ آخر میں اسے دھوپ میں سکھاتے ہیں‘ ہاتھ سے گوندھتے ہیں اور پھر چھوٹی چھوٹی گولیوں کی شکل دے لیتے ہیں‘ اب نیل تیار ہو گیا ہے‘ اس میں تھوڑا سا تیل ڈالنے سے نیل کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔
نیل کے طبی فوائد:
ٹیلی ویژن اور اخبارات میں آپ نے ’’ اپنے کپڑوں کی سفیدی کیلئے چار قطرے نیل‘‘ کے اشہارات دیکھے ہوں گے اس نیل کے پودے کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺنے ہمیں اطلاع دی ہے اس کو انگریزی میں (انڈیگوفرانگٹیوریالن) کہتے ہیں۔ نیل کا پودا 2 سے 3 فٹ تک اونچا ہوتا ہے تنے میں شاخیں ہوتی ہیں جن میں بال اور گہرے سبز پتے ہوتے ہیں ان پھلوں میں آٹھ سے دس بیچ ہوتے ہیں پتوں کو کچل کر نچوڑیں تو نیلے رنگ کا رس نکلتا ہے اسی لئے اس پودے کا نام نیل رکھا گیا۔ پنساریوں کی دکانوں میں اس کے پتے، بیج اور جڑ وغیرہ بیچے جاتے ہیں ان کو خرید کر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ سر کے بالوں کیلئے نیل کا رنگ: سردار دوجہاں حضرت محمد مصطفی ﷺنے مہندی اور نیل کے پتوں کو پانی میں گوندھ کر بالوں میں لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ اس سے سفید بال گہرے سرخ رنگ کے اور چمکیلے ہوجاتے ہیں، بازاروں میں بال رنگنے کے جو سفوف اور تیل ملتے ہیں ان سے سر میں کھجلی اور پھوڑے ہوجاتے ہیں مگر نیل اور مہندی سے یہ نقصانات نہیں ہوتے۔ اسکے علاوہ یہ رنگ زیادہ برقرار رہتا ہے اور دیکھنے میں اچھا لگتا ہے۔ نیل کے تخم باریک پیس کر آشوب چشم کیلئے بطور سرمہ لگاسکتے ہیں۔ نزول الماء اور بیاض چشم میں اکتجالا استعمال کرتے ہیں، جلد میں خارش، کھجلی اور سفید داغوں کیلئے تیل میں ملاکر لگانا چاہیے۔
تیل کے پتے: گلٹیوں اور اورام کو تحلیل کرتے ہیں، بدن کی تھکن کو دور کرتے ہیں۔ تین گرام پتوں کو بکری کے دودھ میں ملاکر چھان کر صبح کو تین دنوں تک پئیں تو یرقان اور شب کوری میں مفید ہے۔ ساڑھے چار گرام نیل کے پتے کوئی عورت کھالے تو اسے سال بھر تک حمل نہیں ٹھہرسکتا یہ طب یونانی کا کہنا ہے حبس البول اور پیشاب کی کمی کی شکایتوں میں نیل کے پتے پانی میں پیس کر ناف پر لگاتے رہیں۔
مصنوعی نیل
سٹ انڈیا کمپنی کے تحت ہندوستان سے نیل کی تجارت برطانیہ کے ہاتھ لگ گئی اور دوسرے یورپی ممالک کو نیل بڑی مہنگی پڑتی تھی۔ جرمنی کی مشہور کیمیکل کمپنی BASF نے ایک کروڑ 80 لاکھ مارک خرچ کیے تا کہ نیل کے پودے کے بغیر نیل بنانے کا کوئی طریقہ دریافت ہو جائے لیکن صرف آدھی کامیابی ملی۔ نیپتھلین سے ایک مرکب (phthallic anhydride (PA حاصل کیا گیا جس سے نیل بن سکتی تھی مگر یہ طریقہ سستا نہیں تھا۔
1896 میں BASF کا ایک ٹیکنیشیئن Eugene Sapper تھیلک این ہائیڈریٹ (PA) بنانے کے لیے نیپتھلین کو گندھک کے تیزاب کے ساتھ گرم کر رہا تھا مگر مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے تھے۔ اس دوران جب اس نے درجہ حرارت ناپنے کے لیے تھرمامیٹر ڈالا تو اس کا ہاتھ پھسل گیا اور تھرمامیٹر برتن کی دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔ اس میں سے پارہ نکل کر تیزابی آمیزے میں گرا جہاں اس نے عمل انگیز (catalyst) کا کام کیا اور تھیلک این ہائیڈریٹ (PA) بڑی مقدار میں بن گیا۔ اس طرح مصنوعی نیل بنانا آسان اور سستا ہو گیا۔[1] اس کے بعد نیل کی کاشت کی ضرورت کم ہوتی چلی گئی۔
مصنوعی نیل aniline سے بھی بنائی جا سکتی ہے جو ایک سستا مرکب ہے۔ اینیلین سے ہی پیراسٹامول بھی بنتی ہے