ٹینشن فری زندگی.... مگر کیسے؟؟

2023 ,جنوری 5



تحریر: فضل حسین اعوان 
ہر شخص اپنے طور پر ایک ہسٹری ہے اور ہسٹری کے ساتھ ساتھ ہسٹورین بھی ہے؛ ہسٹری کیا ہے؟ وہ لمحہ جو گزر جاتا ہے وہ ماضی کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ یہی ہسٹری ہے، تاریخ ہے۔ آپ ماضی کو بیان کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل تاریخ بتا رہے ہوتے ہیں ۔آنے والے لوگوں کے لیے آپ تاریخ دان ہیں ۔ آپ کی باتیں یا یاداشتیں آنے والے لوگوں تک کس شکل میں پہنچ سکتی ہیں۔ رائٹنگ میں، آڈیو ز کے ذریعے ویڈیوز کے ذریعے فوٹوز کے ذریعے یا کوئی بھی مروجہ یا آئندہ متعارف ہونے والے میڈیم یاطریقہ کارکے ذریعے۔ آج آپ کی عمر20 سال ہے۔60 ستر یا 80 کے ہونگے تو گزری ہوئی زندگی کے بارے میں زیادہ جستجو کے ساتھ سوچا کریں گے۔ جس عمرمیں بھی ہیں آج بھی آپ ماضی میں جھانکیں تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کو دَہائیاں چند لمحوں میں لپٹی ہوئی نظر آئیں گی۔
ہماری پریشانیوں ٹینشن اور سٹریس کی وجوہات میں سے ایک توقعات وابستہ کر لینابھی ہے۔ آپ کسی کو چائے پلاتے ہیں۔ کسی کے گھر کچھ بھجواتے ہیں ۔کسی کو گفٹ دیدیا۔ کسی کی مدد کر دی۔ اگر تو آپ یہ سب ایک اچھے جذبے کے ساتھ کیا توآپ کو کبھی پریشانی نہیں ہوگی۔ پریشانی کب ہوتی ہے؟۔ جب آپ دوسرے سے ایسی ہی توقع رکھیں اور اُس نے ایسا نہ کیا تو آپ کی ٹینشن شروع، تعلقات میں کمی اور بات ناراضی اور دوستی و تعلقات کے خاتمے تک بھی چلی جاتی ہے۔ 
آپ سفر کرتے ہیں۔ سفر کرنے والا ٹریولر ہوتا ہے ۔ ایک سفر کرنے والا ٹورسٹ بھی ہوتا ہے۔ ایک ہی گاڑی بس ویگن جہاز یا جو بھی موڈ آف کنوینس ہے۔ آپ جا رہے ہیں۔ ایک طرح کے مناظر مگر دیکھنے میں فرق ہے۔ٹریولر سرسری انداز میں دیکھتا اور اپنی منزل تک پہنچنے کا متمنی، ٹورسٹ ہر لمحے کو اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتا ہے۔وہ نکلا ہی کچھ دیکھنے کیلئے ہے۔ راستے میں جو بھی مناظر آتے ہیں ٹریولر کے لیے بھی دلکشی ضرور رکھتے ہیں۔ کسی وجہ سے کنوینس رک گئی، خراب ہو گئی یا سامنے کوئی رکاوٹ آگئی۔ ٹورسٹ اسے بھی انجوائے کرے گا۔
 زندگی میں جو لمحہ گزر گیا، وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ گھڑی کی ایک ٹِک سے دوسری تک بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔ حالات آسان ہوں یا مشکل حتیٰ کہ مصیبت ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے گزر جانا ہے۔ اس نے ہسٹری بن جانا ہے ۔ یہ سوچ لیا جائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے تینشن دور رہتی ہے۔گزشتہ گرمیوں کی بات ہے دوسرے شہر گئے ۔رات کے شروع میں اے سی خراب ہوگیا۔ مجھے ایک لمحے کے لیے پریشانی نہیں ہوئی۔ سوچا دیکھتے ہیں کیسے رات گزرتی ہے۔ ایڈونچرسہی ۔ برآمدے میں ریسٹ چیئر تھی اوپر پنکھا چل رہاتھا۔ پچھلے پہر موسم بہتر ہوا تو سو گیا۔ نسیم احمد آہیرایک ملاقات میں بتا رہے تھے کہ مصر سے پاکستان سفر کے دوران جہاز میںفالٹ آگیا ، مسافر پریشان مگر میں سکون سے بیٹھا رہا۔ موت معینہ وقت سے ایک لمحہ پہلے نہیں آسکتی اور وقت آجائے ایک لمحہ کی تاخیر نہیںہو سکتی۔ بعد میں ایئر ہوسٹس نے پوچھا آپ کا تعلق ایئر انڈسٹری سے ہے؟
نیلسن منڈیلا صدارتی سٹاف کے جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ جہاز میں خرابی آگئی۔ ان تک اطلاع پہنچائی گئی۔ وہ اخبار پڑھ رہے تھے ۔ انہوں نے کہا پائلٹ سے کہو کوشش کرے کہ بحفاظت لینڈ کر لیں۔ سٹاف نے تھوڑی دیر بعد آکر بتایا، اب بچنے کا امکان نہیں ہے۔ پائلٹ، کو پائلٹ اور انجینئرنگ سٹاف سب مایوس ہیں۔ منڈیلا پھر تسلی آمیز پیغام دے کر اخبار دیکھنے لگے۔ صدر اور جہاز کا سٹاف گھبرایا ہوا تھا۔ چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔کو ئی شخص مطمئن تھا تو وہ عالمی سطح کا لیڈر نیلسن منڈیلا تھا۔ جہاز آخر کار بحفاظت لینڈ کر گیا۔ منڈیلا سے ساتھیوں اور سٹاف نے حیرانگی سے ان کے اطمینان کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنا کوٹ اتارا اور پسینے کی بھیگی قمیض دکھاتے ہوئے کہا میں بھی آپ جتنا ہی خوفزدہ تھا مگر آپ کو اِن کرج کرنے کے لیے مطمئن دکھائی دینے کی کوشش کی۔ میں بھی افراتفری کا حصہ بن جاتا۔پائلٹ مزید پینک میں آجاتا۔میں ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔میں حواس کھونے لگتا تو بھی وہی ہونا تھاجو اَب ہوا ہے۔
راسپو ٹین کوزارِِ روس کا اعتماد حاصل تھا۔ سمندری سفر کے دوران جہاز بد ترین طوفان میں گِھر گیا۔راسپوٹین کو کچھ لوگ عامل اور روحانی شخصیت بھی مانتے ہیں ۔ زارِِِ روس اور ملکہ بھی ایسا ہی سمجھتی تھیں۔ اس کے پاس ہرکارے کو بھیجا۔ اس نے کہا بے فکر رہیں، کچھ نہیں ہوگا۔ طوفان میں مزید شدت آئی ملکہ اور زار کی پریشانی بڑھی پھر پیامبر آیا۔ راسپوٹین کا یہی جواب تھا۔"بے فکر رہیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔" جہاز آخر کار طوفان سے نکل آیا۔ملکہ اور زار کی نظر میں راسپوٹین کا روحانی مقام عرشِ معلیٰ پر چلا گیا۔راسپوٹین کی شاہی معاملات میں مداخلت بہت بڑھ گئی۔ کسی ہمراز نے راسپوٹین سے پوچھا۔" کیا تمہیں یقین تھا کہ جہاز نہیں ڈوبتے گا؟"۔ راسپوٹین نے جواب دیا۔ "نہیں"۔ تھوڑے توقف کے بعد کہا۔" جہاز ڈوب جاتا تو سب ختم ۔ مجھے کس نے پوچھنا تھا۔ جہاز بچ گیا۔"
ہم لوگ2018میں دبئی جا رہے تھے بورڈنگ کے دوران روک لیاگیا۔اوکے ٹو بورڈ (ok to board) کرانا ہوتا ہے جو نہیں کرایا گیا تھا۔سٹاف نے بتایا آپ نہیں جاسکتے۔بڑا کہا اور سنا مگر وہ مان کر نہ دیئے۔بڑی ٹینشن بڑی پریشانی ہوئی۔ چند ماہ قبل آذربائیجان باکو جانا ہوا،فیصل آباد ایئر پورٹ ok to board کا مسئلہ پھر درپیش ہوا مگر کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اگلے لمحے کیا ہوگا سسپنس اور ایڈونچر تھا۔ خوشگواریت تھی۔
دبئی جانا یاد آتا ہے تو اُسی طرح کے احساسات ہوتے ہیں۔ باکو جاتے ہوئے جو ہوا اس وقت احساسات خوشگوار تھے۔ وہ سوچتے ہوئے مسکراہٹ سی آجاتی ہے ۔
آج کی سیاست کو لے لیں یا کسی میچ کویا کسی بھی صورتحال کولے کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
ان کو اب ایک تاریخ دان کی نظر سے دیکھیں۔ انوالو ہونے سے گریز کریں تو مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے۔ دوستیوں ، رشتوں کے معاملات اور بیمار پڑ جائیں تو ہر لمحے کے ساتھ صورتِ حال بدل رہی ہوتی ہے اس پر نظر رکھیں۔کمنٹیٹر کو آپ نے دیکھاوہ جو دیکھ رہا ہوتا ہے بتاتا جاتا ہے۔وہ کسی ٹیم کا پلڑا بھاری یا ہلکا ہونے سے متاثر نہیں ہوتا۔
"you are witness to history"
یہ سوچ لیں تو آپ کی زندگی بھی ٹینشن فری ہو سکتی ہے 
 

متعلقہ خبریں