دیسی کابینہ ولایت میں: نیا لندن پلان

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مئی 13, 2022 | 06:03 صبح

 وزیر اعظم شہباز شریف کابینہ کے ساتھ لندن میں ہیں۔کئی "نورے" الگ سے بھی گئے ہیں۔یہ نیا لندن پلان ہے ۔دیسی کابینہ نے ولایت میںبیٹھ کر فیصلے کئے۔میاں نواز شریف کی طرف سے اقتداری رفقاءکوئی ایسی ڈکٹیشن دینامقصود ہے جس کی سیاسی مخالفین اور آج کے حامی اداروں،ایجنسیوںکوبھنک تک نہ پڑ سکے۔کابینہ کے دس بارہ لوگ بڑی شان سے لندن گئے۔وہاں ان کو چرچل ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔کس کے خرچے پر؟

نعرے بازی کرنیوالے شوریدہ سر عناصر ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔شرپسندوں سے پاکستا

ن کا شملہ اونچا کرنیوالوں کی پگڑیاں محفوظ رکھنے کیلئے ان کو چرچل ہوٹل کے عقبی گیٹ سے داخل کراکے لفٹ کے ذریعے آٹھویں منزل پر لے جایا گیا۔ نواز شریف سے ان کی ملاقات ناصر جنجوعہ کے گھر طے تھی۔ہوٹل میں مقیم مہمانوں کو آٹھویں منزل سے ایمرجنسی سیڑھیوں کے ذریعے نیچے لایا گیا۔فاضل ارکان کابینہ کو ہوٹل سے اجلاس کے مقام پر پاکستانی ہائی کمیشن کی گاڑیوں میں پہنچایا گیا۔باقی خرچے بھی۔۔۔؟؟دیسی کابینہ جو وہاں بدیشی ہے،سر پھرے لوگوں کے نعروں سے محفوظ رہی مگر یہ عناصر ایون فیلڈ محل کے سامنے جا کر نعرے لگاتے رہے۔ عمران خان کو اقتدار سے نکال کر "پیرا جمپر"اتار دیئے گئے جس پر خان نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ عوام ان کی کال پر گروہ در گروہ اور ہجوم در ہجوم نکلے۔

عمران کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔ انہوں نے اور ان کی پارٹی نے اودھم تو مچانا ہی ہے۔ 2018ءمیں میاں نواز شریف نے بھی ایسا ہی کیا تھا مگر تھوڑے سے فرق کے ساتھ، ان کے جانے کے بعد ان کی پارٹی کی حکومت تھی۔ نواز شریف اور ان کے حامیوں نے عدلیہ اور فوج کو نشانے پر رکھ لیا۔ججوں کو کہا گیا تمہاری نسلوں پر زمیں تنگ کردی جائے گی۔جرنیلوں کو تو اب تک گردن ناپنے اور کھڈے لائن لگانے کے طعنے دیئے جاتے ہیں۔ عمران دورمیں مہنگائی بڑا ایشو تھا جسے عمران خان امریکی خط کو سامنے لا کر ایسے مسائل کو پسِ پشت ڈالنے میں کامیاب ہو گئے اور ان کی خوش بختی کہ ان کی جگہ پُر کرنے والے لوگ میگا کرپشن اور منشیات کے مقدمات میں ملوث ہیں۔ کئی سزا یافتہ اور اکثرضمانتوں پرہیں۔ پاکستانیوں کے کئی حلقوں کے لیے یہ حکومت اسی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے اور یہی حلقے عمران خان کی کال پر سڑکوں پراور جلسہ گاہوں میں آجاتے ہیں۔ عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد خاموش ہو کر گھر بیٹھ جاتے تو راوی چَین ہی چَین لکھ رہا ہوتا۔

7اپریل کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے سے قبل میاں شہباز شریف کو بات کرنے کا موقع دیا، تو انہوں نے اپنی "تقریر" میںدست بستہ عرض کیا کہ نئے انتخابات کی طرف نہ جایا جائے۔ ہمارے اوپر غداری کا الزام لگا ہے ہم اس کے ساتھ الیکشن میں نہیں جانا چاہتے ۔شہباز شریف نے جو مانگا عدالت عظمیٰ نے تفویض فرما دیا۔ شہباز شریف نے یہ بھی عدالت کو یقین دلایا کہ ان کے پاس معیشت کی مضبوطی سمیت پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا پلان ہے۔ان کی حکومت کو ابھی تین چاردن ہوئے تھے فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخارنے نہایت غیر جانبداری سے تھپکی دی کہ سٹاک ایکسچینج مضبوط اور ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور چراغ بجھنے پر جنرل صاحب اندھیروں میں کہیںگم ہو گئے۔ نوازشریف کا آج کا سٹیٹس یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تاحیات نا اہل ہیں، سزا یافتہ مجرم اور عدالتی مفرور ہیں۔ حکومت میں آتے ہی شہباز شریف نے کہا کہ کابینہ نواز شریف تشکیل دیں گے۔ ان کو فوری طور پر سفارتی پاسپورٹ جاری کردیا گیا۔ سخت مخالفت ہوئی تو سفارتی کے بجائے عام پاسپورٹ دیا گیا۔ مریم نواز اپنے شوہر کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس جا پہنچیں۔

اس ایوان میں محترمہ اپنے والد وزیر اعظم نواز شریف کے لندن میں علاج کے دوران کئی ماہ ڈی فیکٹو وزیر اعظم کے طور پر کام کرتی رہی تھیں۔ اُن دنوں میاں نواز شریف نے لندن میں مریم کے نام پر خریدے گئے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو بھی وزیر اعظم کیمپ کا درجہ دے رکھا تھا، ملک کے بڑے بڑے فیصلے وہیں ہوتے ۔ کابینہ کی طلبی بھی ہو جاتی تھی۔ آج عمارت تو وہی ہے مکین بھی وہی ہیں مگر سٹیٹس میں فرق ہے۔نواز شریف کی اب اس پُرشکوہ عمارت میں ایک مفرور اور مجرم کی حیثیت ہے مگر وہ فیصلے وزیر اعظم کے منصب حامل کسی بھی فرد سے بڑھ کرکررہے ہیں۔ کابینہ کی لندن طلبی پرعمران خان کو ان لوگوں کے خلاف ایک مزیدبڑا پوائنٹ مل گیا جس کا اظہار انہوں نے جہلم کے بڑے جلسے میں کیااوراس کے بعد ہر جگہ اور موقع پر کریں گے۔ لندن میں لیگی لوگوں کی طلبی شاہد خاقان عباسی کی لگائی بجھائی سے ہوئی ہے۔ وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنے۔ وہ ڈیڑھ سال کی حکومت لینے کے حق میں نہیں تھے ۔ آج کے حالات کے تناظر میں بڑے اور کڑوے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

خصوصی طور پر بجٹ کے دوران۔ امریکہ اور عرب ممالک کی طرف سے دولت کی برسات کر دی جاتی۔ریال اور ڈالروں کی بھرمار ہوجاتی، آئی ایم ایف مہربان ہو جاتاتو بجٹ میں سَتے خیراں ہو جاتیں۔ پٹرول ڈیزل مزید سستے کر دیئے جاتے تو بلے بلے ہوتی مگر ایسا کچھ ہوا، نہ ہونے کا امکان ہے۔ بڑے میاں صاحب کو بادی النظر میںشاہد خاقان عباسی جیسے لوگوں نے قائل کیا کہ آئندہ الیکشن جو کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں ان میں "کوئلوں کا کاروبار" کرتے ہوئے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ بہتر ہے انتخابات کی طرف جائیں۔مگر یہ اس قبیل کے لوگ ہیں کہ پیر تلے آئے بٹیرے کو اُڑنے نہیں دینگے۔میاں صاحب واپسی کیلئے بھی پَر تول رہے ہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے پَروں کے نیچے پنپنے والی حکومت مریم کو پاسپورٹ نہیں دلا سکی۔خود انکے لئے سفارتی پاسپورٹ کے اجرا کا اعلان کرکے واپس لے لیاوہ حکومت انہیں "امپورٹ" کرکے مچھروں والی جیل سے کیسے بچا پائے گی۔ ایک طبقہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ عدم اعتماد اور ضمانتی لوگوں کو حکومت دینے کا مقصد میاں نواز شریف کی واپسی کیلئے جال بچھانا ہے۔

لندن میں بہت بڑے فیصلے ہوئے ہیں جن میں سے اکثر کو خفیہ رکھا گیا ہے۔کچھ فیصلوں کا اعلان میاں نواز شریف آج "بدیشی"کابینہ کی کو ساتھ بٹھا کر کریں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف پر پولیس مقابلوں اور رانا ثناءاللہ پرماڈل ٹاؤن سانحہ برپا کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اب تو رانا صاحب طاقتور وزیر داخلہ اور طاقت کے نشے میں چُور بھی ہیں۔ جو کہتے ہیںکہ میں مخالفوں کو گھروں سے نہیں نکلنے دوں گا۔ انہوں نے گورنر پنجاب کو کہا کہ عزت سے گورنر ہاو¿س خالی کر دو۔سوشل میڈیا پر یہ بحث عام ہے کہ لندن میں ان کو کوئی بھی "ذمہ داری" سونپی جاسکتی ہے۔