2019 ,نومبر 24
اللہ سے میری دوستی ہوئے کو عرصہ ہو گیا۔۔۔! لیکن امّاں میری سمجھ میں اب بھی نہیں آتیں تھیں۔۔۔! شادی کے بعد جب بھی کبھی امّاں سے شوہر کی شکایت کی تو انہیں میں ہی غلط لگی۔۔۔! سارے جہان کی غلطیاں مجھ میں ہی تھیں۔۔۔! جیسے خاور ان کے بیٹے ہیں اور میں غیر۔۔۔! بھلا امّاں سے دُکھ سُکھ نہ کرتی تو اور کس سے کرتی۔۔۔! ایک روز فقط اتنا کہہ بیٹھی۔۔۔! نہ کوئی پیار کی بات نہ کوئی لاڈ نخرہ۔۔۔!
بس امّاں یہ میرے ساتھ زیادہ بات نہیں کرتے۔۔۔! محبت ہے ہی نہیں ان کو میرے ساتھ۔۔۔! مجھے کس کھونٹے سے باندھ دیا امّاں۔۔۔؟ فالتو تھی نا بوجھ تھی آپ پر۔۔۔؟ بس پھر کیا تھا امّاں کا لیکچر شروع۔۔۔! زرا نہیں بدلیں تھیں امّاں۔۔۔! اس دن بھی ایسا ہی ہوا خاور کو میری سالگرہ یاد ہی نہیں تھی۔۔۔! تحفہ تو دور کی بات مبارک تک نہ دی میں ساری رات روتی اور کُڑھتی رہی۔۔۔! اگلے دن کپڑے بیگ میں ڈالے اور امّاں کے گھر۔۔۔!
امّاں خاموشی سے میرے گلے شکوے سنتی رہیں۔۔۔! مگر ان کے چہرے پر ناگواری تھی۔۔۔! کہنے لگیں۔۔۔! محبت کہنے کی چیز نہیں کرنے کی ہے۔۔۔! تو اس کی بیوی ہے تجھے بیاہ کر لے گیا ہے۔۔۔! اس کے عمل دیکھ دن بھر تم لوگوں کے لیئے محنت کرتا ہے کولہو کے بیل کی طرح تمہاری ضرورتیں پوری کرنے میں لگا ہے۔۔۔! ایک دن باہر خوار ہونا پڑے، دو وقت کی روٹی کما کر لانی پڑے تو عقل ٹھکانے آ جائے تیری۔۔۔! تُو ناشکری نہ کر تیرا بُت بنا کر بیٹھا پوجتا رہے تو گھر کا چولہا کیسے جلے۔۔۔؟ تُو اس کے بچوں کی ماں ہے۔۔۔! محبت کو لفظوں میں نہیں عمل میں ڈُھونڈ۔۔۔! اور ہاں بند کر دے اللہ سے گلے شکوے اللہ سب جانتا ہے۔۔۔! ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے تُو جس کھونٹے کی گَیّا تھی وہیں لے جا کر باندھا اُس نے۔۔۔! شکر کر ورنہ پچھتاۓ گی۔۔۔! خاور میں کوئی ایک بھی برائی نہیں سگریٹ تک نہیں پیتا۔۔۔!عورتیں بہت برے برے مردوں کے ساتھ بھی گزارا کرتی ہیں ماریں کھاتی ہیں ۔۔۔! اندھی ہے اپنی عینک بدل کر دیکھ۔۔۔! کبھی تجھے اُس کا تھکن سے اترا چہرا نظر آیا اس کی ماں سے پُوچھ۔۔۔! زندگی کوئی فلم نہیں حقیقت کی دنیا میں رہنا سیکھ۔۔۔! جن کے جیسی تو بننا چاہتی ہے کبھی ان سے جا کر پوچھ وہ اس زندگی کو کیسے ترستی ہیں جو اللہ نے تُجھے دی ہے۔۔۔! کچھ عقل کر۔۔۔! امّاں نے میری ٹھیک ٹھاک کلاس لے ڈالی۔۔۔! اور ہاں اب تو رات ہو گئی صبح تجھے چھوڑ آؤں گی اور آج کے بعد خبر دار جو تو اس طرح نا شکری کر کے میرے پاس آئی تو۔۔۔!
مُجھے بہت غصہ تھا امّاں پر یہاں بھی ساری رات رو کر گزری۔۔۔! امّاں جانے کیوں بے چین تھیں جانے کیا گُم گیا تھا جو ساری رات مصلے پر ڈھونڈتی رہیں۔۔۔!صبح صبح کیا دیکھتی ہوں “یہ” باہر امّاں کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔۔! داماد کی خوب خاطر تواضح ہو رہی تھی۔۔۔! “امّاں کچھ دن سے آفس میں بہت پریشانی چل رہی ہے۔۔۔!غبن کا معاملہ تھا شکر ہے اللہ کا اس نے سرخرو کیا۔۔۔! آپ مجھے معاف کردیں میں آپ کی بیٹی کا خیال نہیں رکھ پاتا۔۔۔!” امّاں کہہ رہی تھیں پتر یہ جھلی ہے تو معاف کر دیا کر۔۔۔! اور میں۔۔۔! میں نے نظر بھر کر خاور کی طرف دیکھا ان کے چہرے پر تھکن لکھی تھی اس ایک نظر نے مُجھے ہوش کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔۔۔! آنکھوں سے زرا سی پٹی سر کی تو سب کچھ صاف نظر آنے لگا۔۔۔! میں شرمندہ تھی۔۔۔! ان کی تھکن میری رَگ رَگ میں سما گئی۔۔۔! اور پھر رختِ تھکن سمیٹنے کی عادت ہو گئی۔۔۔! اب دِل کی جھولی بہت کشادہ تھی۔۔۔! صبر اور شُکر نے میرے گھر کو جنّت بنا دیا تھا۔۔۔! میری سمجھ میں اچھی طرح آگیا تھا کہ امّاں اُس رات مصلے پر کیا ڈھونڈتی رہیں۔۔۔! مُجھے پکا یقین ہو گیا امّاں ابھی تک اللہ سے ملی ہوئی تھی۔۔۔!!!