پاک فوج کے شہیدوں کی بیوائیں واویلا نہیں کرتیں بلکہ ۔۔۔

تحریر: فضل حسین اعوان

| شائع مارچ 22, 2018 | 06:49 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): ایک روز میں نے اپنے ماموں سے پوچھا’’ سیاچن پر آپ کے سامنے سارے افسر اور سپاہی شہید ہوگئے ،آپریشن کی ذمہ داری آپ پر بھی تھی اور آپ شدید زخمی ہوئے تھے ، آپ کو معلوم ہے آنٹی اور بچے کتنے پریشان تھے ،میں جی ایچ کیو بھی گیا کہ آپ کے بارے کچھ علم ہوسکے،لیکن کئی روز تک آپ کے بارے میں ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی ۔پریشانی سے برا حال تھا ‘‘ 
ماموں بولے’’ بیٹا فوجیوں کے گھر والے اتنے پریشان نہیں ہوتے ،ان کے حوصلے بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ واویل

ا نہیں مچاتیں ، پاک فوج ان کے ایمان کا حصہ بن جاتی ہے۔ پہلے دن سے ہی ان کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوسکتاہے۔اپنی ممانی سے پوچھ لو کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ‘‘
ممانی نے فخریہ انداز میں کہا’’ تمہارے ماموں ایک بڑے معرکہ میں غازی بن کر لوٹے تھے اگر یہ شہید بھی ہوجاتے تو میں ایک اشک نہ بہاتی ۔کیونکہ جب کوئی لڑکی کسی فوجی سے شادی کرتی ہے تو وہ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ اپنے سبز ہلالی پرچم کو بھی اپنا آنچل بنا لیتی ہے۔مسلمان عورتیں اس فخر کے ساتھ زندہ رہتی ہیں اور پھر پوری زندگی تگ و دو کرتی ہیں کہ ان کے شہید کی حرمت پر آنچ نہ آئے۔کہنے کو یہ جذباتی بات لگے گی لیکن حقیقت یہی ہے ۔تم چاہو تو شہیدوں کی بیواؤں سے پوچھ لینا ۔‘‘ 
پچھلے دنوں جب میں ہلال میں میجر طیب عزیز شہید کی بیوہ کی اپنے شوہر کے بارے میں لکھی تحریر پڑھ رہا تھا تو مجھے اس بات پر بے تحاشا فخر محسوس ہوا کہ واقعی پاکستانی لڑکیاں جب کسی فوجی افسرسے شادی کرتی ہیں تو ان میں غیر معمولی جرات و ہمت ،صبر و استقامت عود آتی ہے۔ضرب عضب میں اب تک شہید ہونے والوں کی فہرست میں ایسے بہت سے جواں سال فوجی افسرملیں گے جن کی شادیوں کو ابھی چند ماہ یا چند سال ہی ہوئے ہوں گے،ان کے اہل خانہ اور جواں سال بیواؤں نے انکی شہادتوں کو اپنی نسلوں کا اثاثہ بنالیا ہے ۔میجر طیب عزیز کی بیوہ عائشہ طیب کی اس تحریر سے اس بات کا احساس ملتا ہے کہ پاک فوج کے شہیدوں کی بیوائیں کس قدر عالی ہمت ہوتیں اور اپنے شہید شوہر کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کے لئے اگلی نسلوں کو تیار کرتی ہیں۔میجر طیب عزیزسنہ 2008 میں انتیس سال کی عمر میں شہادت کے اعزاز سے سرفراز ہوئے تھے ۔آزاد کشمیر حکومت نے با غ تا سدھن گلی روڈ کو میجر طیب عزیز شہید ستارہ بسالت کے نام سے منسوب کررکھا ہے ۔ یہ سڑک ہر کسی کو یہ یاد دلاتی ہے کہ سچائی اور حق کا راستہ کون سا ہے ۔ محترمہ عائشہ طیب کا یہ مضمون آپ بھی پڑھیں اور عہد کریں کہ ہمیں اپنے خواتین کو اسقدر بہادر بنانا ہے تاکہ اگر انہیں زندگی کے اس امتحان سے گزرنا پڑے تو بیوگی کے بعد بھی انکی زندگی روشن استعارہ بن جائے۔وہ لکھتی ہیں ۔ 
’’طیب شہید کا رتبہ بلند‘ اْن کا مقام اعلیٰ ہے یہی ایک سوچ ہے جو ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ آنسو نہ بہائیں۔ یہی وجہ تھی کہ شہادت پہ نہ کسی کو بین کرنے دیا اور نہ زور سے رونے دیا کہ یہ رتبہ ہر کسی کا مقدر نہیں۔ اسی سوچ نے ہر مشکل گھڑی میں کھڑے رہنے اور ہمت نہ ہارنے کا حوصلہ دیا۔ ہر لمحہ جب اْن کی اشد ضرورت محسوس ہوئی تو اسی جذبے سے دل کی ڈھارس بندھی کہ ہم شہدا ء کے وارث ہیں۔
26 ستمبر2008 جمعۃ المبارک اور ماہِ رمضان عام لوگوں کے لئے محض ایک تاریخ ہے جو آئی اور گزر گئی‘ مگرہمارے لئے اس کے معانی بہت کٹھن اور انمٹ ہیں کہ یہ ایسا دن اور ایسی تاریخ ثابت ہوئی جس نے ہمارے زندگی کا رْخ ہی موڑ دیا۔ میرے لئے 26ستمبر عام دن نہیں۔ یہ وہ دن ہے جس دن میرے ہم سفر طیب نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت برحق ہے وہ تو اس عظیم مرتبے پرفائز ہو گئے کہ ہم اْن کی شہادت پررشک کرتے ہیں۔ لیکن آنکھ کا اشک بار ہونا ایک فطری عمل ہے۔ ان کی شہادت بھی ایک حقیقت ہے مگر اس دل کا کیا کیجئے جو مانتا ہی نہیں کہ ہم اس ہستی سے محروم ہوگئے ہیں جو انتہائی شفیق‘ ملنسار اور پیار کرنے والی تھی۔ فاطمہ اورعنائیہ ( وہ بیٹی جو دنیا میں اْن کی شہادت کے بعد آئی) نہیں جانتیں کہ باپ کی شفقت کسے کہتے ہیں اور باپ کیسا ہوتا ہے۔ اْن کے وہم و گمان میں بھی وہ الفت نہ ہوگی جو باپ اپنی بیٹیوں سے کرتے ہیں۔ مگر نہیں ان کا باپ زندہ ہے کہ وہ شہید ہے۔ ہمیں شعور بھلے نہ ہو‘ مگر حق یہی ہے کہ وہ امر ہے۔
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کا شعور نہیں۔
طیب عزیز اپنے نام کی تفسیر اور اپنوں کا عزیز اور پیارا تھا اور ہمیشہ رہے گا۔
طیب 12مارچ1977 کو باغ آزاد کشمیر کے ایک فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد کرنل محمد عزیز خان بھی ایک فوجی افسر تھے جو اْن کے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے‘ ہر فوجی گھرانے کی روایت کی طرح اْن کے بڑے (مرحوم) بھائی کی شدید خواہش تھی کہ طیب بھی آرمی آفیسر بنیں۔ طیب نے بھی انتہائی جانفشانی اور محنت سے اْن کی اس آرزو کو پورا کرنے کے لئے دن رات محنت کی اور برن ہال سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پی ایم اے  کے لئے منتخب ہو گئے۔پاسنگ آؤٹ کا دن والدہ اور گھر والوں کے لئے باعثِ فخر تھا۔ طیب نے پاس آؤٹ ہونے کے بعد اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے اْن کی یونٹ 10 اے کے رجمنٹ جوائن کی جو اْن ایام میں بجوات سیکٹر میں تعینات تھی۔ اْن دنوں دشمن کے تیور کافی بگڑے ہوئے تھے اور گولہ باری روزانہ کا معمول تھا۔ یوں آغاز سے ہی وہ معرکہ حق و باطل میں حصہ دار بنے اور اپنی یونٹ کے ساتھ دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
اپنی عسکری زندگی کے شروع سے ہی طیب انتہائی جاں فشانی سے اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں مصروف رہے۔ 2004 تک اپنی یونٹ کے ساتھ پنوں عاقل میں بھی رہے۔ بعد ازاں 2 سال کی مدت کے لئے یو این مشن کے ساتھ لائبیریا میں تعینات رہے۔ اسی دوران اکتوبر2005 میں جب قیامت خیززلزلہ آیا تو آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے کی بناء پر رخصت پر واپس آئے۔ ان دنوں 10 اے کے رجمنٹ ریلیف ورک کا حصہ تھی۔ چنانچہ طیب نے بھی امدادی کارروائیوں میں دن رات ایک کرکے اپنے لوگوں سے تعلق کا حق صحیح معنوں میں ادا کیا جس کا ثبوت اْن کی شہادت پر اْن تمام دور دراز کے رہائشی لوگوں کا اجتماع تھا جو اپنے سپوت کو آخری نذرانہ پیش کرنے اور اْن کا آخری دیدار کرنے کے لئے اْن کا جسدِ خاکی باغ پہنچنے سے پہلے موجود تھے۔
یواین سے واپسی کے بعد2006 میں ان کی پوسٹنگ سکول آف انفنٹری اینڈ ٹیکٹکس کوئٹہ میں بطورِ انسٹرکٹر ہوئی۔ جہاں سے ان کو اکتوبر2007 میں یونٹ کے ساتھ بنوں پوسٹ کیا گیا جو اْن کے فوجی کیریئر کی آخری پوسٹنگ ثابت ہوئی۔ وہیں سے باجوڑ آپریشن کے لئے روانہ ہوئے اور ایسے گئے کہ جامِ شہادت نوش کرکے ہی پلٹے۔ باجوڑ میں لوئی سم وہ مقام ہے جہاں انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس مقام پر اْن سے منسوب ایک چیک پوسٹ ہے۔ جس دن سے طیب باجوڑ کے لئے بنوں سے روانہ ہوئے اْس دن سے کسی لمحہ قرار نہ تھا۔ ہر رات اْن کی خیریت کے فون کا انتظار اور پھر فون کے بعد چند لمحوں کا قرار اور پھر سارا دن اگلی کال کا انتظار جو بالآخر26 ستمبر2008 بمطابق 25رمضان المبارک کے افطار سے کچھ دیر پہلے اْن کی شہادت کی اطلاع پر اختتام پذیر ہوا۔
طیب شہید کا رتبہ بلند‘ اْن کا مقام اعلیٰ ہے یہی ایک سوچ ہے جو ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ آنسو نہ بہائیں۔ یہی وجہ تھی کہ شہادت پہ نہ کسی کو بین کرنے دیا اور نہ زور سے رونے دیا کہ یہ رتبہ ہر کسی کا مقدر نہیں۔ اسی سوچ نے ہر مشکل گھڑی میں کھڑے رہنے اور ہمت نہ ہارنے کا حوصلہ دیا۔ ہر لمحہ جب اْن کی اشد ضرورت محسوس ہوئی تو اسی جذبے سے دل کی ڈھارس بندھی کہ ہم شہدا ء کے وارث ہیں اور یہ رتبہ بھی متقاضی ہے کہ ہم اپنے شہید کی طرح اْن مسائل اور مشکلات کے آگے ڈٹ جائیں جیسے وہ دشمنوں کے آگے سینہ سپر ہوئے۔ طیب کی شہادت کے بعد2010 میں انہیں حکومت کی طرف سے ستارہ بسالت سے نوازا گیا۔ جو ہم سب کے لئے عزت و وقار کا باعث ہے۔‘‘