”جب قرآن پاک رکھنے اور پڑھنے پر پابندی لگی تو لوگوں نے کیسے سیکھا؟ پڑھیے ایک ایمان افروزواقعہ“
تحریر: فضل حسین اعوان
| شائع فروری 28, 2018 | 09:01 صبح

لاہور(مہرماہ رپورٹ): صرف دو ہی مساجد اس شہر میں بچی ہیں جو کبھی بند اور کبھی کھلی ہوتی ہیں۔میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دیں میں وہی چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے۔ پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی ، مسجد کے پڑوس میں ہی ایک بندے کے ہاتھ میں مسجد کی چابی تھی میں نے اس آدمی کو کہا کہ دروازہ کھول دو مسجد کا ، مجھے نماز پڑھنی ہے ،اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپکو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس
کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوششیں کرنے لگا۔ کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے اذان دی۔۔۔۔۔ اذان کی آواز سن کر بوڑھے ،بچے ،مرد ،عورت ،جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی لیکن مسجد کے اندر کوئی بھی نہیں آیا۔خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھےجیسے کہ میں نماز ادا کرکہ باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کوئی نیا کام متعارف کرواکر مسجد سے نکلاہوں۔ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چائے پینے آئیں۔اسکے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا میں انکے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پہ سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے میں نے کھانا کھایا چائے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا آپکو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے ؟بچے نے کہا جی !قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے ، میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سناؤ۔بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا ۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو قرآن کی اس آیت پہ انگلی رکھی تو وہ فر فر بولنے لگا بنا قرآن کو دیکھے ہی۔۔۔۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا میں نے اسکے والدین سے کہا ۔ حضرات یہ کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے مسکرا کر کہا دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کے آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جائے تو اس تمام خاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے اس وجہ سے ہم لوگ گھروں میں قرآن پاک نہیں رکھتے ۔تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں، میں نے مزید حیران ہوکر کہا؟ ہمارے پاس قرآن کے کئی حافظ ہیں ،کوئی درزی ہے ،کوئی دکاندار کوئی سبزی فروش ،کوئی کسان ،ہم انکے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہے محنت مزدوری کے بہانے۔ وہ انکو الحمد اللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہے کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں اس لئے ہماری نئی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہمارے گلیوں میں آپکو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اسکو ناظرہ پڑھنا نہیں آیا لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فر فر بولنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا۔وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں نے قرآن کے ایک نہیں کئی ہزار معجزے اس دن دیکھے ، جس معاشرے میں قرآن رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی اس معاشرے کے ہر ہر بچے ،بوڑھے ،مرد ،عورت کے سینوں میں قرآن حفظ ہوکر رہ گیا تھا میں جب باہر نکلا تو کئی سو بچے دیکھے اور ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو سب نے قرآن سنا یا ، میں نے کہا لوگوں۔۔۔۔۔! تم نے قرآن رکھنے پہ پابندی لگا دی لیکن جو سینے میں قرآن مجید محفوظ ہے اس پہ پابندی نہ لگا سکے۔تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے ترجمہ ’’بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘