جب زندگی شروع ہو گی

2018 ,جنوری 29



میدان حشر میں یک دم خاموشی چھاگئی۔ ایسا سناٹا تھا کہ سوئی زمین پر گرے تو اس کی آواز بھی سنائی دے جائے۔ میں نے سجدے کے عالم میں جتنی عافیت اس لمحے محسوس کی، زندگی میں کبھی محسوس نہ کی تھی۔ دوسروں کا تو نہیں معلوم کہ وہ سجدے میں کیا کہہ رہے تھے، مگر میں اس لمحے زار و قطار اللہ تعالیٰ سے درگزر اور معافی کی درخواست کررہا تھا۔
نہ جانے کتنی دیر تک ہو کا یہ عالم طاری رہا۔ اس کے بعد اچانک ایک صدا بلند ہوئی:
”ھو اللہ لا الہ الا ھو۔“
مجھے پہلے بھی اس کا تجربہ تھا کہ حاملینِ عرش کے اس اعلان کا مطلب مخاطبین کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب صاحبِ عرش کلام کررہا ہے۔ آواز آئی:
”میں اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔“
یہ الفاظ وہی تھے جو میں نے عرش کے قریب سجدے میں پہلی دفعہ سنے تھے، مگر یہ آواز اس آواز سے قطعاً مختلف تھی۔ اِس آواز میں جو جلال، تحکم اور سختی تھی وہ اچھے اچھوں کا پتہ پانی کرنے کے لیے بہت تھی۔ لمحہ بھر کے لیے ایک وقفہ آیا جو چار سو پھیلے ہوئے مہیب سناٹے سے لبریز تھا۔ اس کے بعد بادلوں کی کڑک سے بھی کہیں زیادہ سخت اور گرجدار آواز بلند ہوئی:
”انا الملک این الجبارون؟ این المتکبرون؟ این الملوک الارض؟“
”میں ہوں بادشاہ۔ کہاں ہیں سرکش؟ کہاں ہیں متکبر؟ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟“
یہ الفاظ بجلی بن کر کوندے۔ لوگوں نے اس بات کا جواب تو کیا دینا تھا ہر طرف رونا پیٹنا مچ گیا۔ اس آواز میں جو سختی، رعب اور ہیبت تھی اس کے نتیجے میں مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ مجھے زندگی کا ہر وہ لمحہ یاد آگیا جب میں خود کو طاقتور، بڑا اور اپنے گھر ہی میں سہی، خود کو سربراہ سمجھتا تھا۔ اس لمحے میری شدید ترین خواہش تھی کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سماجاوں۔ میں کسی طرح خدا کے قہر کے سامنے سے ہٹ جاوں۔ انتہائی بے بسی کے عالم میں میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے:
”کاش میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا۔“
اس کے ساتھ ہی میرے دل و دماغ نے میرا ساتھ چھوڑدیا اور میں بے ہوش ہو کر زمین پر گرگیا۔
میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک نفیس اور نرم و نازک بستر پر پایا۔ ناعمہ بستر پر میرے قریب بیٹھی پریشان نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں کھلتے دیکھ کر ایک دم سے اس کے چہرے پر رونق آگئی۔ اس نے بے اختیار پوچھا:
”آپ ٹھیک ہیں؟“
”میں کہاں ہوں؟“، میں نے جواب دینے کے بجائے خود ایک سوال کردیا۔
”آپ میرے پاس میرے خیمے میں ہیں۔ صالح آپ کو اس حال میں یہاں لائے تھے کہ آپ بے ہوش تھے۔“
”وہ خود کہاں ہے؟“
”وہ باہر ہیں۔ ٹھہریں، میں انہیں اندر بلاتی ہوں۔“
اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی صالح سلام کرتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ تھی۔ میں اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھا اور پوچھا:
”کیا ہوا تھا؟“
”تم بے ہوش ہوگئے تھے۔“
”باخدا میں نے اپنے رب کا یہ روپ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ خدا کے بارے میں میرے تمام اندازے غلط تھے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے جتنا میں تصور کرسکتا تھا۔ مجھے اب اپنی زندگی کے ہر اس لمحے پر افسوس ہے جو میں نے خدا کی عظمت کے احساس میں بسر نہیں کیا۔“
میری بات سن کر صالح نے کہا:
”یہ غیب اور حضور کا فرق ہے۔ دنیا میں خدا غیب میں ہوا کرتا تھا۔ آج پہلا موقع تھا کہ خدا نے غیب کا پردہ اٹھاکر انسان کو مخاطب کیا تھا۔ تم نصیبے والے ہو کہ تم نے غیب میں رہ کر خدا کی عظمت کو دریافت کرلیا اور خود کو اس کے سامنے بے وقعت کردیا تھا۔ اسی لیے آج تم پر اللہ کا خصوصی کرم ہے۔“
”مگر یہ بے ہوش کیوں ہوئے تھے؟“، ناعمہ نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے پوچھا۔
”دراصل ہوا یہ تھا کہ ہم عرش کے بائیں طرف مجرموں کے حصے میں کھڑے تھے۔ اسی وقت فرشتوں کا نزول شروع ہوگیا اور حساب کتاب کا آغاز ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ غضب کے عالم میں گفتگو شروع کی تھی اور اس ناراضی کا اصل رخ بائیں ہاتھ والوں کی طرف ہی تھا، اس لیے سب سے زیادہ اس کا اثر اسی بائیں طرف ہورہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے کبھی مغلوب نہیں ہوتے، اس لیے اس غضب میں ہونے کے باوجود بھی انہیں احساس تھا کہ اس وقت ان کا ایک محبوب بندہ الٹے ہاتھ کی طرف موجود ہے۔ اس لیے انہوں نے عبد اللہ کو بے ہوش کردیا۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو عبد اللہ کو اس قہر و غضب کا سامنا کرنا پڑجاتا جو بائیں جانب والوں پر اس وقت ہورہا تھا۔“”اب ہمیں کہاں جانا ہے؟“، میں نے صالح سے دریافت کیا۔
”حساب کتاب شروع ہوچکا ہے۔ تمھیں وہاں پہنچنا ہوگا۔ لیکن پہلے ایک اچھی خبر سنو۔“
”وہ کیا ہے؟“
”جب حساب کتاب شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے امت مسلمہ کے حساب کا فیصلہ کیا ہے۔ اور جانتے ہو اس عمل میں تمھاری بیٹی لیلیٰ نجات پاگئی۔“
”کیا؟“، میں حیرت اور خوشی کے مارے چلّا اٹھا۔
”ہاں! صالح ٹھیک کہتے ہیں۔“، ناعمہ بولی۔
”میں اس سے مل چکی ہوں۔ وہ اپنے باقی بھائی بہنوں کے ساتھ دوسرے خیمے میں موجود ہے۔ وہاں سب آپ کا انتظار کررہے ہیں۔“
”اور جمشید؟“، میں نے صالح سے اپنے بڑے بیٹے کے متعلق پوچھا۔
جواب میں ایک سوگوار خاموشی چھاگئی۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔ میں نے کہا:
”پھر میں واپس حشر کے میدان میں جانا پسند کروں گا۔ شاید کوئی راستہ نکل آئے۔“
”ٹھیک ہے۔“، صالح بولا اور پھر میرا ہاتھ تھام کر خیمے سے باہر آگیا۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ خبریں