میرٹ‘ مساوات‘ سسٹم اور سٹیٹس مین

عمران خان دبئی سے کراچی آ رہے تھے۔ثمر علی کو ایئرپورٹ پر ملنے کا میسج دیا۔ ثمرعلی پی ٹی آئی کی فنانس کمیٹی میں شامل تھے۔اب ایم پی اے ہیں۔خان کا یہی پیغام عارف علوی کو بھی ملا تھا۔حکم حاکم مرگ مفاجات کی طرح وہ جیسے تھے اسی حالت میں بھاگے بھاگے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ثمر کہتے ہیں میں ٹراو¿زر میں تھا۔ہو سکتاہے عارف علوی بغیر جوتے چلے گئے ہو ں۔ایئرپورٹ پہنچے تو خان صاحب پوٹر یعنی قلی کے ساتھ ایئر پورٹ سے باہر آرہے تھے۔عمران خان نے پوٹر سے بیگ لیتے ہوئے مجھے تھمایا اور کہا سو پچاس روپے ہیں تو اسے دے دو۔ہم جس افراتفری میں گھر سے اٹھے اور یہاں آئے،نہ میرے پاس بٹوہ تھانہ عارف کے پاس۔وہاں دو تین ڈاکٹر کھڑے تھے۔ وہ عارف علوی کے واقف تھے۔ عارف علوی نے ان سے سو روپیہ لے کر پوٹر کو دیا۔ثمر علی کہتے ہیں، میں نے خان صاحب سے پوچھا ، اس بیگ میں کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس میں فنڈ ریزنگ کے پیسے ہیں۔ میں نے کہا اس میں سے آپ سو روپے پوٹر کو دیتے تو خان صاحب نے کہا وہ زکوٰة کا پیسہ کسی کو نہیں دیتے۔ عمران خان کا باورچی عمران خان کی پسند کے بہترین کھانے بناتا ہے۔یہ فرانس سے آیا کیا برطانیہ سے لایا گیا ہے؟یہ بھی دلچسپ روداد ہے۔عمران گھر آئے تو گارڈ کھانا کھا رہا تھا، خان کو بھوک لگی تھی،اس کیساتھ بیٹھ کر روٹی کھائی۔پوچھا ،روٹی دال کہاں سے منگوائی۔اس کہا خود پکائی تو اسے مستقل باورچی رکھ لیا۔ریحام خان کے شادی کے بعد گھر آنے تک یہی خانسامہ رہا۔
ایک دفعہ وقت نیوز کے پروگرام نیوز لاو¿نج میں یاسمین راشد بھی مہمان کے طور پر شامل ہوئیں۔اس پروگرام میں انہوں نے اپنی پارٹی کی بات ہی کرنی تھی۔مسلم لیگ نون والے پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی والے مسلم لیگ نون کے لیے کلمہ خیر تو نہیں کہتے۔ایک دو موقعوں پر میں نے مسلم لیگ نون کے حوالے سے بات کی تو اس کا برا منانے کی بجائے انہوں نے پروگرام کے بعد کہا کہ چلو اچھا ہوا مسلم لیگ نون کا کوئی آدمی نہیں تھا،آپکی طرف سے کسی حد تک مسلم لیگ نون کی بھی نمائندگی ہوگئی۔پروگرام کے بعد وہ میرے ساتھ ہمارے آفس تشریف لے آئیں۔ انہوںنے طالبعلمی دور کا ایک واقعہ سنایا۔ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ کے فائنل میں گیم پوائنٹ کا کھیل جاری تھا۔بال دوسری طرف لائن کو چھو گئی جس کو ریفری جج نہیں کر سکا تھا مگر میں نے ریکٹ وہیں رکھا اپنی شکست تسلیم کرلی۔عمران خان کی دیانت اورسادگی میں اگر ایسے ہی ہیں اور ان کی ٹیم میں یاسمین راشد جیسے لوگ شامل ہیں تو سمجھ لینا چاہیے قوم کا مستقبل محفوظ ہے۔ہمارے مسائل کے بڑی وجوہات میں اعلیٰ عہدے داروں کی کرپشن بھی ایک ہے۔پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں لیکن وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے روٹی کی کمی ہے۔کھاتے پیتے لوگ یہ سوچنے کی بجائے کے ہر فرد کو روٹی ملے وہ ان کے حصے کی روٹی بھی کھا جاتے ہیں۔ہمارے مسائل کا بہترین حل کرپشن کا خاتمہ اور مساوات کا نفاذ ہے۔مساوات یہ نہیں کہ ہر بندے کے پاس ایک جیسا مکان ایک جیسی جائیداد ہو۔مساوات کا سادہ سا مطلب میرٹ ہے۔جس ہسپتال میں وزیراعظم وزیر اعلیٰ، صدر کا علاج ہوتا ہے وہیں عام آدمی کا علاج ہو۔جس سکول میں ایلیٹ کلاس کے بچے پڑھتے ہیں وہیں مزدور کے بچے بھی پڑھیںاور پھر ملازمت کے یکساں مواقع ہوں یہی مساوات اور یہی میرٹ کا نام ہے۔عمران خان سے سسٹم کو اس طرف لے جانے کی امید ہے۔عمران خان جس طرح آج گریس کا مظاہرہ کر رہے ہیں اگر اسی طریقہ سے گورننس کرتے اور جو وعدے کئے پورے کئی تو سٹیٹس مین بن سکتے ہیں۔
ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ ارکان اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سرگرم ہے۔مرکزمیں تحریک انصاف کے سوا کسی کی حکومت بنتی نظر نہیں آرہی۔ قومی اسمبلی کی کل 272سیٹیں ہیں۔منتخب ہونے والے ارکان دو اور پانچ سیٹوں کو ایک ایک شمار کیا جائے گا۔ سپیکر کے انتخاب کے موقع پر ایوان میں 264 ارکان موجود ہونگے۔ اگلے وزیراعظم کیلئے 137 ووٹ درکار ہونگے۔ اگر کوئی امیدوار 137 ووٹ حاصل نہ کر سکا تو دوسرے مرحلے میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے والوں کے درمیان مقابلہ ہوگا اور ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت حاصل کرنے والا پاکستان کا وزیراعظم بنے گا۔
کل تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون آگ اور پانی تھے۔پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے دعوے کیے جا رہے تھے۔جن لوگوں کو سڑک پر گھسیٹنا تھا آج ان لوگوں کا سراپا جسد زعفران جس سے ہُن برستا نظر آرہا ہے۔مرکز میں مسلم لیگ نون پیپلزپارٹی کو ساتھ ملا کر تحریک انصاف حکومت بننے سے پہلے اسے گرانے کے لیے سرگرداں ہے جبکہ پنجاب کو تحریک انصاف کے دست ستم میں جانے سے بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ قاف لیگ کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ۔ابھی چوہدری نثار کو اوقات دلائے ایک دن بھی نہیں ہوا تھا کہ ان کو بھی گرداب سے کشتی نکالنے کے لیے پکاراگیا۔میاں شہباز شریف پیپلزپارٹی کے سابق گورنر احمد محمود سے ملے۔ جبکہ عمران خان ایسی سرگرمیوں سے بے نیاز منتخب ارکان اور غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔وہ کسی کے پاس حمایت حاصل کرنے کے لیے نہیں گئے تاہم چوہدری سرور، جہانگیر ترین، علیم خان اور اسی قسم کے دوسرے لیڈروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔پی ٹی آئی مرکز کی طرح پنجاب میں بھی حکومت بنانے کے لیے پُراعتماد ہے۔پی ٹی آئی کو اگر پنجاب میں حکومت نہیں ملتی تو وہ اپنے ایجنڈے اور منشور کو صحیح طریقے سے عملی جامہ نہیں پہنا سکے گی۔کسی بھی پارٹی کے لیے اپنے پروگرام کی کامیابی کے لیے اگر تمام صوبوں میں نہیں، مرکز کے ساتھ پنجاب میں حکومت بنانا ضروری ہے۔
تحریک انصاف پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو پھر مرکزمیں بھی حکومت نہ بنائے اور اگلے الیکشن کا انتظار کرے۔مگر یہ محض کہنے سننے کی باتیں ہیں اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ عمران خان بہت سی خوبیوں کے باوجود بھی ایسا دل گردہ نہیں رکھتے کہ .... ”تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں“
انتخابات میں دھاندلی کا شور جاری ہے۔مولانا احتجاجی تحریک کی کشتی تیاراور خود ہی اس کے ناخدا بن گئے۔تحریک کے بارے میں نجانے کہاں سے ہوا بھری گئی مگر تہیہ¿ طوفان کے اس غبارے سے ہواجلد نکل گئی۔قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں حلف نہ اٹھانے کا عزم بالجزم کرنے والوں کے ناموں پر ذرا غور کر لیں۔یہ تھے مولانا فضل الرحمن، حاصل بزنجو، اسفندیارولی، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی ،خواجہ سعد رفیق، امیر مقام، سراج الحق، محمود خان اچکزئی اور غلام احمد بلور جیسی سیاست میں اعلیٰ و ارفع مقام رکھنے والی شخصیات شامل تھیں ۔ یہ سب لوگ ہار چکے ہیں۔انکا حلف بنتاہی نہیں مگر ان کی خواہش تھی کہ جو جیتے ہیں وہ بھی حلف اٹھانے نہ جائیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی تائید و حمایت کے بغیر مولانا فضل الرحمن کی اس تجویز کی حیثیت سڑک پر گرنے والے انڈے سے زیادہ نہیں تھی۔ مسلم لیگ نون کو اندازہ تھا کہ اگر وہ حلف اٹھانے نہ گئے تو پھر کہاں جائیں گے۔پیپلزپارٹی تو خیر اس کانفرنس میں ہی نہیں آئی۔مگر تیسرے دن خم ٹھونکتے ہوئے وہ بھی میدان میں اتر آئی۔جس طرح پیپلز پارٹی نے دو دن بعد ہاتھی کے پاو¿ں میں پاو¿ں رکھا ہے بعید نہیں کہ اگلے چند دن میں وہ تحریک انصاف کو یکطرفہ طور پر سپورٹ کرتی نظر آئے۔ یہ پاکستان کی سیاست ہے اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔مولانا فضل الرحمن کو ضمنی الیکشن میں کامیاب کرانے کا یقین دلادیا جائے تو وہ بھی آرام سے جا کر گھر بیٹھ سکتے ہیں۔تحریک انصاف پنجاب میں حکومت بنانے کی دعوے دار ہے۔ پنجاب میں ساتھ ملنے والے آزاد امیدواروں کے نام ظاہر کر رہی ہے ۔دعویٰ ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کے گیم نمبر پورے ہو گئے ہیں مگر حلف برداری کے حوالے سے ہنوز دلی دور است۔