سپریم؟… بلڈوزر ‘ تعلیم یا کوئی اور !

2018 ,مارچ 7



’’بس! یہیں رک جائو‘‘۔ مخدوم صاحب کی گرجدار آواز پر ڈرائیور نے بلڈوزر روک دیا۔ اگلے ایکشن میں مخدوم نے ساتھ کھڑے منشی کو فائل پکڑانے کا اشارہ کیا۔ مخدوم نے فائل پکڑ کر ڈرائیور کی طرف لہراتے ہوئے کہا۔’’ آپ دیوار نہیں گرا سکتے، یہ میرے پاس عدالت کا سٹے آرڈر ہے۔ ڈرائیور یہ سن کر بلڈوزر سے نیچے اتر آیا۔ مخدوم صاحب کو سلام کیا اور کہا کہ مجھے ’’صاب‘‘ کا آرڈر ہے اور بلدیہ کا عملہ بھی ساتھ ہے۔ بلدیہ کے افسر کچھ بے چین سے نظر آئے۔ ڈرائیور پھر بلڈوزر پر بیٹھا، گیئر لگایا، ریس پر پائوں رکھا ہی تھا کہ بلدیہ کے افسر نے کہا۔’’ معاملہ عدالت کا ہے، صورتحال سنگین ہو سکتی ہے، بہتر ہے ’’صاب‘‘ سے بات کر لیں۔
یہ فوجی حکومت تھی اور تجاوزات جہاں ممکن تھا ہٹائی جا رہی تھیں، جہاں ضروری تھا گرائی جا رہی تھیں۔ مخدوم خود بیرسٹر اور منتخب عوامی نمائندے تھے۔ اسی دوران عمومی گشت پر مامور فوجی جیپ وہاں سے گزرنے لگی۔ رُکاہوا بلڈوزر اور ہلچل دیکھ کر جیپ رُک گئی۔ اس میں سے صوبیدار صاحب اور دو سپاہی اترے۔ صوبیدار نے بلڈوزر ڈرائیور سے صورتحال معلوم کی۔ اسی ’’صاب‘‘ نے ڈرائیور کو تجاوزات گرانے پر مامور کیا تھا، اسے بھی مخدوم صاحب نے سٹے آرڈر دکھایا۔ صوبیدار صاحب نے وائرلیس پر کسی سے بات کی اور مخدوم صاحب کوبڑے احترام کے ساتھ کہا ۔’’جناب ذرا انتظار کیجئے۔ تھوڑی دیر میں وہاں ایک اور جیپ آ کر رکی۔ اس دوران مخدوم کے سپورٹرز کی بڑی تعداد جمع ہو چکی تھی۔ فوجی جیپ کو آتے دیکھ کر لوگوں نے اسے راستہ دیا۔ اس میں میجر تھے۔انہوں نے جیپ سے اتر کر صوبیدار سے صورتحال معلوم کی اور مخدوم صاحب کے پاس جا کر گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ مخدوم نے سٹے آرڈر انکی طرف بڑھا دیا۔ میجر نے اسے بغور دیکھااور گویا ہوئے۔ ’’عدالت کے سٹے آرڈر کا بڑا احترام ہے، طاقت کا اندازہ بھی لگا لیتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر سپاہی کو سٹے آرڈر پکڑا کر کہا اسے بلڈوزر کے آگے رکھ دو،یہ طاقتور ہوا تو بلڈوزر رُک جائیگا،بلڈوزر طاقتور ہوا تواوپر سے گزر جائیگا‘‘۔ 
آج ’سپریم کون ہے؟‘ کی بحث زوروں پر ہے، پارلیمنٹرین کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کہتے ہیں آئین سپریم ہے، سیاستدان خصوصی طور پر حکومتی اشرافیہ پارلیمنٹ کے سوا کسی کو سُپر ماننے پر تیار نہیں۔ اندر سے عدلیہ بھی شاید چاہتی ہے کہ دنیا اسے ہی سپریم کہے۔ مگر جوعملی طور سپریم ہے وہ خاموش ہے۔ جو واقعہ بیان کیا اس سے تو لگتا ہے بلڈوزر سپریم ہے۔ 
پارلیمنٹ کے سپریم ہونے کے دلفریب مناظر ایوان بالا کے انتخابات میں دیکھے گئے ہیں۔ سینٹ جتنا بڑا، محترم اور مقدس ایوان ہے اسکے ارکان کا عمومی کردار اعلیٰ پائے کا ہونا چاہئے۔ ہر بار کی طرح اب بھی ان انتخابات میں پیسہ چلا اور خوب چلا ہے۔اس الیکشن میں ہر پارٹی کے ارکان نے ڈسپلن کے برعکس ووٹ کاسٹ کئے،کسی کے ارکان نے کم کسی کے ارکان نے زیادہ اپنی پارٹی سے دغابازی کی۔فاروق ستار اور عمران خان تو سر پیٹ رہے ہیں‘ وہ کہتے ہیں ایک ایک ایم پی اے چارچار کروڑ میں بکا۔فاٹا کے ایک ایک ایم این اے کی قیمت نوے نوے کروڑ بتائی جاتی ہے۔پوری سیاسی لیڈر شپ میں آصف زرداری قہقہہ باراور مولانا فضل الرحمٰن‘ نواز لیگ کو بلوچستان میںسینٹ سے آئوٹ کر کے مسکرا رہے ہیں۔ پیسے کے بل بوتے پر سینیٹر بننے کی ریت جناب گلزار احمد مرحوم نے ڈالی تھی۔ عوامی نمائندوں کا بھائو لگانے اور بڑھانے کے شریک موجد بی بی اور میاں ہیں۔ ان کا نام جمہوریت کی خدمات کے حوالے سے چراغ ابتدائے شب کی مانندجگمگاتا رہے گا۔
اب چیئر مین سینٹ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے جس میں جو کسر رہ گئی تھی وہ پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو سینٹ میں برتری حاصل ہے چیئر مین اسی کا ہونا چاہئے مگر پیپلز پارٹی نے اپنا چیئر مین لانے کی معرکہ آرائی اور مہم جوئی کا اعلان کیا ہے۔ چیئر مین سینٹ کوئی بھی بنے جھولی چُک مولانا ڈپٹی چیئر مین کا عہدہ اپنی جھولی میں لانے کا ہنر اور فن جانتے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ روکنے کا کوئی چارہ کرنا ہو گا مگر کون کرے؟ ووٹ ضمیرکے مطابق ہونا چاہئے۔ یہ دیکھ لیں ضمیر کے مطابق ووٹ سیکرٹ پولنگ سے ہوسکتا ہے یا اوپن طریقہ کار سے۔ سینٹ کے امیدوار اور چیئر مین سینٹ کیلئے اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کا مکمل خاتمہ کرنا ہے تو ممبرز کا انتخاب براہ راست عوام کی طرف سے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی آسان اور بہتر طریقہ خواتین کی خصوصی نشستوں کی طرح پارٹی سر براہ کی طرف سے سینٹرز کی نامزدگی ہو سکتی ہے۔ ویسے سینٹ اگر نہ بھی ہو تو جمہوریت کو بالکل اس طرح فرق نہیں پڑ سکتا جس طرح لاہور قلندر پی ایس ایل تھری میں نہ ہوتی تو بھی اس ٹورنامنٹ پر کوئی اثر اور فرق نہیں پڑنا تھا۔ 
سینٹ کے ان انتخابات کا تاب ناک پہلودلت خاتون کرشنا کوہلی کا سینٹر بننا ہے اس سے دنیا میںپاکستان اور جمہوریت کے مثبت پہلو کے اجاگر ہونے میں مدد ملے گی۔کرشنا کوہلی کے حوالے سے میڈیا میں چشم کشا رپورٹیں نشر اور شائع ہوئی ہیں۔ان پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
’’کرشنا جب اپنے کاغذات جمع کرانے الیکشن کمیشن کے دفتر میں داخل ہوئیں تو وہ الگ سی نظر آ رہی تھیں۔ کرشنا کوہلی کا تعلق تھر کے ضلع نگرپارکر کے ایک گاؤں سے ہے۔ انکے دادا روپلو کوہلی نے 1857ء میں انگریزوں کیخلاف ہونیوالی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔ جنگ آزادی کے خاتمے کے چند ماہ بعد ان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ کرشنا کوہلی کہتی ہیں کہ نگرپارکر میں زندگی بہت مشکل سے گزرتی ہے کیونکہ وہاں سالہا سال خشک سالی رہتی ہے جو بہت کچھ سکھا دیتی ہے۔ میں پہلی تھری ہوں جسے ایوان بالا تک پہنچنے کا موقع مل رہا ہے۔میرے والد کو کْنری (عمرکوٹ) کے زمیندار نے قید کرلیا اور ہم تین سال تک انکی قید میں رہے۔ میں اس وقت تیسری جماعت میں تھی ۔ ہم کسی رشتہ دار کے پاس نہیں جاسکتے تھے نہ کسی سے بات کر سکتے تھے۔ بس انکے کہنے پر کام کرتے تھے اور انکے کہنے پر واپس قید میں چلے جاتے تھے۔ میری شادی سولہ سال کی عمر میں کردی گئی تھی لیکن شوہرپڑھائی میں مددگار ثابت ہوئے۔ میںنے سندھ یونیورسٹی سے سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا اور پچھلے بیس سال سے تھر میں لڑکیوں کی تعلیم اور صحت کیلئے جدوجہد کر رہی ہوں۔ تھر میں حاملہ خواتین کی زندگی بہت مشکل ہے اور میں ایوان میں آنے کے بعد ان کیلئے ضرور کام کرنا چاہوں گی۔میں نے اس سے پہلے بھی پی پی پی کے ساتھ کام کیا ہے۔ 2010 کے جنسی ہراساں کرنے کیخلاف بل سے لے کر اٹھارویں ترمیم کی بحالی تک ہم نے ایک ساتھ کافی جگہوں پر کام کیا ہے۔ میں عورتوں کی صحت اور تعلیم کیلئے جو پلیٹ فارم چاہتی تھی وہ مجھے آخرکار مل گیا ہے۔ ’پاکستان کی تاریخ میں میںپہلی تھری خاتون ہوں جس کو ایوان تک پہنچنے کا موقع ملا۔ایوان بالا میںپہنچانے پر بلاول بھٹو اور ادی فریال تالپور کا جتنا شکریہ کروں کم ہوگا‘‘۔
کوہلی سینٹ تک کیسے پہنچی ایک تو بلاول اور فریال تالپور کی نظر التفات ہے‘ دوسرے اس کا تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ وہ پڑھی لکھی نہ ہوتی تو کسی کی نظروں میں نہیں آ سکتی تھی، آج آپ کے سامنے جتنے بڑے لوگ ہیںجتنے لیڈر بھی ہیں ،ان میں فوجی سربراہوں اور ججوں کو شامل کر لیں ان میں سے تعلیم کا ’’ پُرزہ‘‘ نکال دیں تو باقی کیا بچے گا؟ وہ بابا رحمتا نہیں جو پنچایتیں لگاتا اور فیصلے سناتا ہے بلکہ وہ رحمتا جو پنڈ میں دھونی رماتا،ڈھور ڈنگر چراتاچوروں سے خبردار کرنے کیلئے رات بھر جاگتے رہنا کی صدا لگاتا ہے۔آپ جس کو چاہیں سُپر اور سپریم کہہ لیں، حقیقت میں تعلیم سے بڑھ کر کوئی سپر اور سپریم نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں