سرجیکل سٹرائیک کی دیومالائی داستاں

لاہور(فضل حسین اعوان): سرجیکل سٹرائیکس کی جدید تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک ایسی سٹرائیک اکبر بادشاہ نے بھی کی تھی۔ احمد نگر کے گورنر نے بغاوت کرکے خودمختاری اختیار کر لی۔ عام حالات میں اکبر کی سپاہ کو احمد نگر تک پہنچتے مہینوں درکار تھے مگر اکبر نے تیس جانبازوں کا دستہ تیار کیا جس کی خود کمانڈ کرتا ہوا تیزرفتار گھوڑے پر سوار سترہ دن میں احمد نگر قلعہ پر چم دستک دی۔ احمد نگر کے گورنر کو اکبر بادشاہ کے اس سرعت اور برق رفتاری سے وہاں آپہنچنے کا گمان تک نہیں تھا۔ اسے بھنک پڑی تو ہاتھ پاﺅں پھول گئے۔ مقابلے کے بجائے دست بستہ اکبر اعظم کے سامنے حاضر ہوکر معافی کا طلبگار ہوا۔
اسرائیل نے عراق کا ایٹمی مرکز ایسی ہی سٹرائیک سے تباہ کر دیا تھا۔ بھارت اور اسرائیل نے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو اسی انداز میں تباہ کرنے کی شیطانی منصوبہ بندی کی مگر پاک فوج جاگ رہی تھی۔ اسرائیل کا مسافر جہاز اغوا کرکے یوگنڈا لے جایا گیا۔ اسرائیلی کمانڈوز یہ جہاز سرجیکل سٹرائیک کرکے مسافروں سمیت واپس لے گئے تھے۔
2016ءمیں ہمیں ایک سرجیکل سٹرائیک مقبوضہ کشمیر کے شہر اڑی کی بھارتی چھاﺅنی میں نظر آئی۔ اس میں 19 فوجی مارے گئے۔ ایسی چھاﺅنیوں میں سات لاکھ سفاک تربیت یافتہ فوجی نہتے کشمیریوں پر بربریت کیلئے رکھے گئے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کے خلاف کشمیری ہمہ وقت ہمہ تن گوش برسرپیکار اور تیار رہتے ہیں۔ اس سرجیکل سٹرائیک سے چھاﺅنی سے بلند ہونے والے شعلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ بھارت اس شب خون پر بلبلاتا‘ کلبلاتا اور چیختا چلاتا نظر آیا۔ اس نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی بھرمار کر دی۔ الزامات کا طومار باندھ دیا اور بدلہ لینے کا اعلان آسمان سر پر اٹھاتے ہوئے کر دیا۔ اس کے چند روز بعد بھارتی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے پاکستان کے اندر گھس کر سرجیکل سٹرائیک کی اور اڑی حملے کا بدلہ لے لیا۔ بھارتی پارلیمان نے اس کے ثبوت مانگے تو کمانڈر ثبوت پیش نہ کر سکے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے اندر اسے فرضیکل یعنی مفروضوں پر مبنی سٹرائیک قرار دیا گیا۔ سرجیکل سٹرائیک کے ثبوتوں کی ضرورت نہیںہوتی۔ ایسی سٹرائیک کے شعلے اور دشمن کی چیخ و پکار حملے کی زد میں آنے والوں کے زخموں سے بہتا خون اور آہ و بکا شب خون کو اظہر من الشمس کر دیتا ہے۔
بھارت نے اس مرضیکل اور فرضیکل سٹرائیک کو ایک دیومالائی داستان بنا کر پیش کیا۔ اس پر بھارتی فوج کے ایما پر ایک کتاب بھی لکھی گئی۔ بھارت کی زبان میں اس سٹرائیک کی داستان پڑھنے سے پہلے تھوڑا اس ایریا کے بارے میں جان لینا ضروری ہے جہاں سے بھارتی سورمے پاکستان میں داخل ہوئے۔
لائن آف کنٹرول پر بھارت نے لوہے کی باڑ لگا رکھی ہے۔ یہ باڑ دو رویا ہے۔ باڑ کی دو دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔ درمیان میں تین فٹ ڈبا کے لوہے کے تاروں کے دو رول بچھائے گئے ہیں۔ 16 فٹ اونچی اس باڑ میں ہمہ وقت کرنٹ چھوڑا گیا ہے۔ بھارت نے یہ اس مفروضے پر تعمیر کی ہے کہ پاکستان سے شدت پسند مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتے ہیں۔ بھارت نے یہ باڑ لگا کر ان کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ روک دیا ہے۔ باڑ کیساتھ ساتھ ہائی پاور بلب لگائے گئے ہیں جو دن میں بھی روشن رہتے ہیں۔ ایسی باڑ سے چوہا‘ چمگادڑ اور چھچھوندر تک نہیں گزر سکتی مگر بھارتی سورمونہے گزر گئے۔ یہ پس منظر پیش نظر رہے۔ اب بھارت کے افسانے پر نظر ڈالتے ہیں۔
” 29ستمبر 2016 کو انڈیا کے فوجی آپریشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رنویر سنگھ نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ انڈیا نے سرحد پار انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل سٹرائیکس کی ہے، تو پوری دنیا حیران رہ گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ اس سے پہلے ایل او سی کے پار ”سرجیکل سٹرائیکس“ نہ کی گئی ہو، لیکن یہ پہلی بار تھا کہ انڈین فوج دنیا کو صاف بتا رہی تھی کہ واقعی اس نے ایسا کیا تھا۔ وجہ تھی انڈین فوج کے اڑی کیمپ پر انتہا پسندوں کی طرف سے کیا جانے والا حملہ جس میں 17 انڈین فوجی مارے گئے اور دو فوجیوں کی بعد میں ہسپتال میں موت ہو گئی تھی۔ جیسے ہی خبر پھیلی دہلی کے رائسینا ہِلز پر کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ آناً فاناً انتہائی خفیہ ”وار روم“ میں انڈیا کی سکیورٹی انتظامیہ کی خفیہ ملاقات بلائی گئی جس میں کم سے کم ایک ملاقات میں خود وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال شامل ہوئے۔ ”انڈیاز موسٹ فئیرلیس - ٹرو سٹوریز آف ماڈرن ملٹری ہیروز“ کے شریک مصنف راہل سنگھ بتاتے ہیں ”اس بارے میں ہم نے بہت سارے جنرلز اور سپیشل فورس کے حکام سے بات کی ہے اور ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس میٹنگ میں ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ انڈین فوج لڑائی کو دشمن کے علاقے میں لے جائے گی اور اس حملے پر انڈیا چپ نہیں بیٹھے گا اور اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔“
سرحد پار انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی ذمہ داری ایلیٹ پیرا ایس ایف کے ٹو آئی سی میجر مائک ٹینگو کو دی گئی۔یہ ان کا اصلی نام نہیں ہے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر پوری کتاب میں ان کے لیے ان کے اس آپریشن کے دوران ریڈیو نام مائک ٹینگو کا ہی استعمال کیا گیا ہے۔
”’انڈیاز موسٹ فئیر لیس“ کے مصنف شِو ارور بتاتے ہیں، ”سپیشل فورس کے حکام کو فوجیوں میں سب سے اعلیٰ اور بہترین کہا جاتا ہے۔ یہ انڈین فوج کے سب سے فِٹ، مضبوط اور ذہنی طور پر تیار فوجی ہوتے ہیں۔ ان کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت سب سے تیز ہوتی ہے اور جہاں زندگی اور موت کا معاملہ ہو ان کا دماغ بہت تیزی سے کام کرتا ہے۔“
وہ کہتے ہیں، ”خطرناک حالات میں زندہ رہنے کا فن جتنا انھیں آتا ہے کسی کو نہیں۔ فوج کا استعمال عام طور پر حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن سپیشل فورسز شکاری ہوتے ہیں۔ ان کا استعمال ہمیشہ حملے کے لیے ہوتا ہے۔“ اس دوران دلی میں اس پورے معاملے کو اس طرح لیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ نریندر مودی نے کوڑیکوڈ میں تقریر کرتے ہوئے اوڑی کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔انہوں نے یہ ضرور کہا کہ انڈیا اور پاکستان کو غریبی‘ ناخواندگی اور بےروزگاری کے خلاف لڑائی لڑنی چاہیے۔اقوام متحدہ میں سشما سوراج نے بھی اوڑی پر انڈیا کے غصے کا کوئی اظہار نہیں کیا۔ پاکستان کو یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے جب کہ اندر ہی اندر سرجیکل سٹرائیکس کی تیاری زوروں پر تھی۔راہل سنگھ بتاتے ہیں، ”میجر ٹینگو کی ٹیم نے پاکستان کے اندر اپنے چار ذرائع سے رابطہ کیا۔ اس میں سے دو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے گاو
ں والے تھے اور دو جیش محمد میں انڈیا کے لیے کام کرنے والے جاسوس تھے۔ چاروں نے الگ الگ اس بات کی تصدیق کی کہ انتہا پسندوں کے لانچنگ پیڈز موجود ہیں۔“
مائیک ٹینگو کی قیادت میں 19 انڈین جوانوں نے 26 ستمبر کی رات ساڑھے آٹھ بجے اپنے ٹھکانوں سے پیدل چلنا شروع کیا اور 25 منٹ میں انہوں نے ایل او سی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ٹینگو کے ہاتھ میں ان کی ایم 4 اے 1 5.56 ایم ایم کی رائفل تھی۔ ان کی ٹیم کے دوسرے ارکان ایم 4 ای 1 کے علاوہ اسرائیل میں بنی ہوئی ٹیور ٹار-21 اسالٹ رائفل لیے ہوئے تھے۔مائیک ٹینگو نے شِو ارور اور راہم سنگھ کو بتایا کہ انہوں نے اس مشن کے لیے سپیشل فورسز میں دستیاب اعلیٰ ترین فوجیوں کا انتخاب کیا تھا‘ لیکن اس طرح کے مشن میں کچھ لوگوں کا ہلاک ہونا لگ بھگ طے ہوتا ہے۔اصل میں اس کا امکان 99.9فیصد تھا اور ان کی ٹیم یہ قربانی دینے کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی تھی۔ ٹینگو یہ سوچ کر چل رہے تھے کہ اس مشن کا سب سے مشکل پہلو واپسی ہو گی، جب پاکستانیوں کو ان کے وہاں ہونے کے بارے میں پوری معلومات مل چکی ہوں گی۔
گھنٹے چلنے کے بعد ٹینگو اور ان کی ٹیم ہدف کے بالکل نزدیک پہنچ گئے۔ وہ ہدف سے 200 میٹر کی دوری پر تھے جب وہ ہوا جس کی انھیں امید نہیں تھی۔
لانچ پیڈ سے اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ ایک سیکنڈ کے لیے انھیں لگا کہ پاکستانیوں کو ان کے آنے کا پتا چل گیا ہے۔سارے جوان ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں زمین پر پیٹ کے بل لیٹ گئے، لیکن ٹینگو کے تجربہ کار کانوں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ اندازہ سے کی گئی فائرنگ ہے اور اس کا نشانہ ان کی ٹیم نہیں ہے‘ لیکن ایک طرح سے یہ بری خبر بھی تھی، کیونکہ اس سے صاف ظاہر تھا کہ لانچ پیڈ کے اندر موجود انتہا پسند چوکس تھے۔ٹینگو نے طے کیا کہ وہ اس علاقے میں چھپے رہیں گے اور اپنا حملہ 24 گھنٹے بعد اگلی رات میں کریں گے۔ شِو ارور کہتے ہیں، ”یہ اس آپریشن کا سب سے حساس اور خطرناک حصہ تھا۔ رات کے اندھیرے میں تو دشمن کے علاقے میں چھپے رہنا شاید اتنا مشکل کام نہیں تھا، لیکن سورج چڑھنے کے بعد اس علاقے میں موجود رہنا خاصا خطرے کا کام تھا۔“
لیکن اس سے انہیں ایک فائدہ ضرور ہونے والا تھا کہ انہیں اس علاقے کو سمجھنے اور حکمت عملی تیار کرنے کے لیے 24 گھنٹے اور ملنے والے تھے۔ ٹینگو نے آخری بار سیٹیلائٹ فون سے اپنے ٹی او سے رابطہ کیا اور پھر اسے بند کر دیا۔
28ستمبر کی رات دلی میں انڈین کوسٹ گارڈ کمانڈوز کا سالانہ ڈنر ہو رہا تھا، لیکن سبھی اعلیٰ حکام وزیر دفاع منوہر پریکر، قومی سکیورٹی مشیر اجیت ڈووال اور فوج کے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ نے اپنے میزبانوں سے معافی مانگی اور فوج کے مِلِٹری آپریشن روم پہنچ گئے تاکہ وہاں سے اس وقت شروع ہو چکے اس مشن کو دلی سے مانیٹر کیا جا سکے۔
آدھی رات کو دلی سے 1000 کلومیٹر دور ٹینگو اور ان کی ٹیم اپنے چھپے ہوئے ٹھکانے سے نکلی اور انہوں نے لانچ پیڈ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔لانچ پیڈ سے 50 گز پہلے ٹینگو نے اپنی نائٹ وژن ڈیوائس سے دیکھا کہ دو لوگ انتہا پسندوں کے ٹھکانے پر پہرہ دے رہے ہیں۔راہل سنگھ کہتے ہیں، ”ٹینگو نے 50 گز کی دوری سے نشانہ لگایا اور ایک ہی برسٹ میں دونوں انتہا پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ پہلی گولی چلنے تک ہی کمانڈوز کے دل میں تناو
رہتا ہے۔ گولی چلتے ہی یہ تناو جاتا رہتا ہے۔“
اس کے بعد تو گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے ٹینگو کے کمانڈوز لانچ پیڈ کی طرف بڑھے۔ اچانک ٹینگو نے دیکھا کہ انتہا پسند جنگلوں میں بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ انہی فوجیوں پر پیچھے سے حملہ کر سکیں۔
ٹینگو نے اپنی 9 ایم ایم بیریٹا سیمی آٹومیٹک پسٹل نکالی اور 5 فٹ کی دوری سے ان انتہا پسندوں پر فائر کر کے انہیں گرا دیا۔ شِو ارور کہتے ہیں، ”مائک ٹینگو اور ان کی ٹیم وہاں پر 58 منٹ تک رہی۔ انہیں پہلے سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ وہ لاشوں کو گننے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں‘ لیکن ایک اندازہ کے مطابق چار اہداف پرکل 38-40 انتہا پسند اور پاکستانی فوج کے دو فوجی مارے گئے۔ اس پورے مشن کے دوران پوری طرح سے ریڈیو سائلنس رکھا گیا۔“
اب ٹینگو کے سامنے اصل چیلینج یہ تھا کہ کس طرح واپس انڈین سرحد پر پہنچا جائے، کیونکہ اب تک پاکستانی فوج کو ان کی موجودگی کے بارے میں پتہ چل چکا تھا۔
راہل سنگھ کہتے ہیں، ’مائک ٹینگو نے ہمیں بتایا کہ اگر میں کچھ اِنچ اور لمبا ہوتا تو آپ کے سامنے بیٹھ کر بات نہ کر رہا ہوتا۔ پاکستانی فوجیوں کی گولیاں ہمارے کانوں کے پاس سے ہوکر گزر رہی تھیں۔ جب خودکار ہتھیاروں کی گولیاں کان کے اتنا قریب سے گزرتی ہیں تو آواز آتی ہے۔۔ پٹ پٹ پٹ۔۔۔ ہم چاہتے تو اسی راستے سے واپس آ سکتے تھے جس سے ہم وہاں گئے تھے۔ لیکن ہم نے جان بوجھ کر واپسی کا لمبا راستہ چنا۔“
”ہم پاکستانی علاقے میں اور اندر گئے اور پھر وہاں سے واپسی کے لیے مڑے۔ بیچ میں 60 میٹر کا ایک ایسا حصہ بھی آیا جہاں کور لینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ سارے کمانڈوز نے پیٹ کے بل چلتے ہوئے اس علاقے کو پار کیا۔“
”ٹینگو کی ٹیم نے صبح ساڑھے چار بجے انڈین علاقے میں قدم رکھا‘ لیکن تب بھی وہ پوری طرح سے محفوظ نہیں تھے‘ لیکن تب تک وہاں پہلے سے موجود انڈین فوجیوں نے انہیں کو فائر دینا شروع کر دیا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس پورے مشن میں ٹینگو کی ٹیم کا ایک بھی رکن نہ تو مارا گیا اور نہ ہی زخمی ہوا۔“
یہ ساری رام لیلہ اور دیومالائی داستان شرارو اور راہل سنگھ نے مشترکہ طورپر لکھی گئی کتاب میں بیان کی اور دونوں نے بی بی سی کو درج بالا داستان سنائی۔ معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی اس پر یقین نہیں کرسکتا۔ ایسی سرجیکل سٹرائیک کبھی ہوئی ہی ہیں۔ یہ محض سکرپٹ ہے جس میں کئی جھول ہیں۔
لائن آف کنٹرول کے اس طرف پاک فوج ہمہ وقت چاک و چوبند اور چوکنا رہتی ہے۔ ممکن ہی نہیں کہ دن کی روشنی یا رات کے اندھیرے میں چڑیا پر مارے اور پاک فوج کے نوٹس میں نہ آئے۔ باڑ کہاں سے کاٹی گئی ہے‘ دن رات روشن رہنے والی روشنیاں بند ہوئیں؟ بند ہوئیں تو اس کا نوٹس پاک فوج نے نہیں لیا ہوگا؟ بھارتی افسانے سے لگتا ہے کہ شدت پسند کسی ڈیرے یا ڈھاری پر رہتے ہیں۔ ان کو اپنی حفاظت کی پروا نہیں۔ ان کا نشانہ کچا ہے یا بنیا کمانڈوز کے کان ایسے ہیں کہ گولی کو دیکھ کر اپنی سمت بدل لیتے ہیں۔ یہ کمانڈر سرجیکل سٹرائیک کرنے نہیں پکنک منانے آئے تھے۔ ایک دن اور ایک رات اس دشمن کے علاقے میں الرٹ فوج کی موجودگی بہت بڑا معرکہ مار کر بحفاظت واپس چلے گئے جس کے سپوت شب تاریک میں بھی اڑتی چڑیا کے پر گننے کی صلاحیت سے معمور ہیں۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کیلئے کلبھوشن‘ کشمیر سنگھ‘ سرجیت سنگھ اور سربجیت سنگھ جیسے جاسوسوں کو پاکستان بھیجتا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کی تربیت گاہیں یا ٹھکانے بارڈر پر ہیں؟ مہاراج! پاکستان نے تمہاری سرجیکل سٹرائیک میں آسانی کیلئے شدت پسندوں کے ٹھکانے ایل او سی کے چند قدم پر بنا دیئے؟؟؟ بالفرض! ایسا ہی ہے۔ بھارتی سورمونہے سب کچھ اسی طرح کر گئے جس طرح افسانہ تراشا گیا۔ پاکستان تو بھارت کی طرف سے آنے والی ایک گولی سے بھی دنیا کو آگاہ کرتا ہے۔ 40 لوگوں کی شہادت پر خاموشی میں کیا مصلحت تھی۔ مشرقی بارڈر پر پاکستان نے ہمیشہ گولی کا جواب گولی سے دیا ہے۔ یہ پاکستان کی فطرت ہی کے خلاف ہے کہ ایسی کارروائی پر خاموش رہتا اور پھر اس فرضی مقام سے دھواں تک نہ اٹھتا۔ پاکستان کا زخموںکو نہ سہلانا کیونکہ کوئی زخم ہوا نہیں‘بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کی دیومالائی کہانی اور فرضی داستان کی حقیقت کو تارتار کرنے کیلئے کافی ہے۔